خبرنامہ

حکومت اور فوج کی شراکت کا سبق نصابی کتابوں کا حصہ بنے گا۔۔اسداللہ غالب

بسم اللہ
جنرل راحیل شریف نے تین سال کی ٹرم اس انداز سے مکمل کی کہ ان کا تذکرہ صرف دفاعی نصاب میں ہی نہیں، سیاسیات اور جمہوریت کے نصاب کا بھی حصہ بنے گا۔
اور مؤرخ لکھے گا کہ نواز شریف نے بھی اس آرمی چیف کے ساتھ ایسی ورکنگ ریلشن شپ قائم رکھی کہ اس کی مثالیں گورننس کی اکیڈیمیوں میں دی جایا کریں گی۔
موجودہ حکومت کا دور اور جنرل راحیل کا دور چند ماہ کے فرق سے ایک ساتھ شروع ہوا۔ اس وقت سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی کا تھا، ملک خون میں نہا رہا تھا، حکومت کے لئے بھی یہ صورت حال پریشان کن تھی اور فوج کے لئے ایک سنگین چیلنج ۔اور میں آج پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو صاف نظر آتا ہے کہ وزیرا عظم اور آرمی چیف نے ایک پیج پر رہ کر حکمت عملی تشکیل دی ا ورا س پر عمل بھی کر دکھایا، یہی حکمت عملی ملک میں قیام امن کی ضمانت بنی۔
شروع میں تاثر یہ تھا کہ حکومت دہشت گردوں کے خلاف ایکشن سے کترا رہی ہے مگر پچھلے ماہ وزیر داخلہ نے انکشاف کیا کہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کا جو سلسلہ چلا،ا س میں فوج کو مکمل طور پر آن بورڈ رکھا گیا اور جب یہ نسخہ کارگر ثابت نہ ہوا تو فو جی آ پریشن کا فیصلہ وزیر اعظم اور آرمی چیف نے باہمی مشارت سے کیا، اس کے لئے ایک تاریخ بھی مقرر کی گئی، مگر اس روز افغانستان کے الیکشن ہو رہے تھے ا ور کسی غلط فہمنی سے بچنے کے لئے آپریشن کو چندروز کے لئے مؤخر کیا گیا، وزیر داخلہ کا یہ بیان اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ضرب عضب کے لئے فوج میدان میں اتری تو وہ تنہا نہ تھی، حکومت اور قوم ا سکی پشت پر تھی تاہم جب آرمی پبلک اسکول کا دل دوز سانحہ ہوا تو حکومت ا ور فوج کا اشتراک کھل کر سامنے آ گیا بلکہ قوم نے بھی اس عمل کا ساتھ کھل کر دیا، قومی قیادت کے مشورے سے نیشنل ایکشن پلان بنا اور وفاق ، اور صوبوں میں اس کے مظابق عمل درآمد شروع ہوا، ضرب عضب آپریشن کی کامیابی پوری دنیا کے لئے مشعل راہ ہے کیونکہ اس وقت دہشت گردی صرف پاکستان کا نہیں پوری انسانیت کے لئے درد سر ہے۔
اسی آپریشن کے دوران عمران خان کی پارٹی نے دارالحکومت میں دھرنا دیا ہوا تھا، ان کے ساتھ کنیڈا سے آنے والے ڈاکٹر قادری بھی شامل ہو گئے تھے مگر جب حالات سنگین ہوئے توعمران خان کے لئے دھرنے سے ہاتھ ا ٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، کنیڈا کا درآمدی ٹولہ واپس چلتا بنا جیسے اسے دہشت گردی سے کوئی سرکار نہ ہو حالانکہ ڈاکٹر طاہر القادری نے دہشت گردی کے خلاف دو سو صفحات کا فتوی دے کر اہل مغرب سے داد وصول کی تھی مگر پاکستان میں دہشت گردی کا ناسور انہیں نظر نہ آسکا۔
دھرنے کے دوران آرمی چیف نے حکومت کے لئے کوئی مسئلہ کھڑا نہیں کیا، جبکہ عمران بار بار امپائر کی انگلی کی طرف دیکھ رہا تھا، یہ سرا سر نادانی تھی کیونکہ یہاں کوئی امپار تھا ہی نہی،اس لئے انگلی کس نے اٹھانی تھی، یہی کچھ عمران خان کو حالیہ لاک ڈاؤن کے دوران درپیش ہوا،ا س کا خٰال تھا کہ وہ ریاست کا پہیہ جام کر دء گا جس کی وجہ سے آرمی چیفگ کو نہ چاہتے ہوئے بھی دخل اندازی کرنا پڑے گی مگر آرمی چیف ایک مدبر انسان تھے، وقتی واہ واہ ان کاکبھی مطمح نظر نہ تھا، ان کی نظر تاریخ پر تھی جس کے صفحات میں وہ زندہ رہناچاہتے تھے اور اپناتذکرہ درخشاں الفاظ میں محفوظ کروانے کے خواہاں تھے۔
آرمی چیف اور وزیر اعظم کے درمیان ایک اشتراک عمل کراچی کے آپریشن میں نظر آیا، یہ شہر ملک کی صنعتی ، کاروباری اور مالیاتی شہہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے مگر یہ شہہ رگ بھتہ خوروں، قاتلوں، ڈاکووں،را کے ایجنٹوں ، اور ٹارگٹ کلرز نے لہو لہا ن کر دی تھی۔وزیر اعظم اپنے کاروباری اور صنعتی پس منظر کی وجہ سے جانتے تھے کہ کراچی میں امن نہیں تو نہ ملکی سرمایہ کار میدان میں اترے گا ، نہ بیرونی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کریں گے جبکہ وہ چین سے اربوں کھربوں کی سرمایہ کاری کے معاہدے کر چکے تھے، انہیں ملک سے اندھیرے دور کرنا تھے، بجلی کے منصوبے پروان چڑھا نا تھے ۔اس لئے وہ کراچی آپریشن کا کامیاب و کامران دیکھنا چاہتے تھے، فوج اور رینجرز نے ان کے ساتھ مکمل تعاون کیا اور آج کراچی وہ نہیں جو تین سال پہلے تھا، الطاف حسین قصہ پارینہ بن چکے ہیں، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ا س شہر کی رونقیں بحال ہو چکی ہیں، اس میں زندگی کی نئی لہر بہر نظر آ رہی ہے۔
سی پیک صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ خطے کی تقدیر بدلنے کا منصوبہ تھا، اس کی مخالفت میں اندرا ور باہر سے سازشیں ہو رہی تھیں، وزیر اعظم اس کو ہر قیمت پر کامیابی سے ہمکنار ہوتے دہکھنا چاہتے تھے، آرمی چیف نے ان سے مکمل تعاون کیا اور سی پیک کی سیکورٹی کے لئے فوج کا ایک الگ ڈویژن کھڑا کرنے کی ہامی بھری، خطرات اور بڑھے تو ایک کی بجائے دو نئے ڈویژن بنانے کا فیصلہ کیا گیا، وزیر اعظم کا خواب شرمندہ تعبیر ہو چکا ، چینی ٹرک گوادر میں تجارتی سامان لائے جو بحری جہازوں میں لاد کر اگلی منزلوں کی طرف روانہ کر دیا گیا، یہ پہلا قدم ہے اور ایک بڑی پیش رفت ہے، بھارت کو یہ ادا ایک آنکھ نہ بھائی ،ا سنے شرارت کی ا ور اپنی ایک ایٹمی آبدوز پاکستانی بحری حدود میں داخل کرنے کی کوشش کی جسے پاک بحریہ کی بے مثال چوکسی نے ناکام بنا دیا۔
بھارت نے ایک محاذاور گرم کر دیا، مقبوضہ کشمیر میں برہان وانی کو ناحق شہید کیا، جس کے رد عمل میں انتفاضہ کی نئی لہر نے جنم لیا، کشمیریوں نے سول نافرمانی کا راستہ اختیار کیا ۔اس تحریک کو دبانے کے لئے بھارت نے اپنی غاصب فوج کو کھلی چھٹی دی، جس نے جبرا ور ستم ڈھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، کشمیری پھر بھی تسخیر نہ ہوئے تو بھارت نے آزاد کشمیر کے بے گناہ لوگوں کو سزا دینے کا فیصلہ کیا اور پوری کنٹرول لائن پر روزانہ اندھا دھند فائرنگ ا ور گولہ باری کا سلسلہ شروع کر دیا، بھارت اس سے بھی بڑی حماقت کر سکتا ہے مگر وہ عالمی محاذ پر تنہا ہے، وزیر اعظم نے حالیہ ستمبر میں جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا، کشمیریوں کی ابتلا بیان کی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کرنے کی اپیل کی۔دوسری طرف آرمی چیف نے فوج کو حکم دیا کہ وہ کنٹرول لائن پر بھارت کو ترکی بہ ترکی جواب ے ، بھارت نے ایک سرجیکل اسٹرائیک کا دعوی کیا مگر آرمی چیف نے تاریخی الفاظ کہے کہ اگر پاکستان نے بھارت میں سرجیکل اسٹرائیک کی تو اس کا تذکرہ دفاعی اکیڈیمیوں کی نصابی کتابوں کا حصہ بنایا جائے گا۔
مگر میں سمجھتا ہوں کہ جنرل راحیل نے حکومت اور فوج کے مکمل تعاون کے ساتھ قیام امن کے لئے جو تاریخ ساز کردار ادا کیا ہے، وہ آنے والی نسلوں کے تعلیمی نصاب کا حصہ بنے گا۔وزیر اعظم نے ایک بہادر، زیرک، مدبر اور جری سپاہ سالار کو مکمل عزت و احترام سے رخصت کیا ہے۔