خبرنامہ

حکومت کی معیاد اور منصوبوں کی معیاد۔۔۔اسداللہ غالب۔

بسم اللہ……تاریخ میں شیر شاہ سوری کو ایک مثالی حکمران خیال کیا جاتا ہے مگر اس کی ٹرم بہت محدود تھی اورا س دوران اس نے ایک سڑک بنوائی جس کی طوالت تو بے اندازہ تھی مگر تھی یہ کچی پکی۔نہ اس زمانے میں روڈ رولر تھے اور نہ مکسر ، سیمنٹ اور تارکول۔مگر اس کو شہرت بڑی ملی۔
پاکستان میں اوّل اوّل نواز شریف کو شیر شاہ کی کاپی کرنے کا شوق چرایا ، انہوں نے ایک موٹر وے کی بنیاد رکھ دی جو ان کے ایک دور حکومت میں تو نہ بن سکی لیکن دوسرے میں مکمل ہوئی۔ ادھر مکمل ہوئی ، ساتھ ہی نواز شریف کی ٹرم ختم کر دی گئی۔ اس سڑک کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔اسے بنایا بھی انتہائی پھرتی میں گیا تھا چنانچہ یہ موٹر وے جب سے بنی ہے تب سے ادھڑ رہی ہے اور اس کی مرمت جاری ہے، کوئی لمحہ ایسا نہیں جب اس کے کسی گوڈے گٹے کی مرمت نہ کی جا رہی ہو، پوٹھوہار کی بھول بھلیوں میں یہ نمک کی طرح بھر بھری ثابت ہوئی ہے۔
شیر شاہ سوری کی نقل میں شہباز شریف نے بھی تعمیر و مرمت کا پیشہ ہی اپنایا۔سستے تنور چلانے کی کوشش تو کامیاب نہ ہو سکی اس لئے کہ یہ سلسلہ عمر عیار کی زنبیل کی طرح دراز تھااور پورے صوبے میں پھیلا ہوا تھا،ا سقدر انتظام و انصرام ایک شخص کے بس کی بات نہیں تھی۔آشیانہ سکیموں اور دانش سکولوں کا جال بھی وسیع نہ ہو سکا کیونکہ یہ کسی کو نظر نہیں آتے تھے چنانچہ ساری توجہ میٹرو بس اور میٹرو ٹرین کے منصوبوں پر مرکوز ہو گئی۔پچھلا الیکشن انہوں نے لاہور میٹرو بس کا منصوبہ مکمل کر کے جیتا، اس کے بعد طعنے سننے کو ملے کہ کیا وہ صرف لاہور شہر کو ہی پنجاب سمجھتے ہیں توراولپنڈی اور ملتان کی قسمت بھی کھل گئی۔ مجھے ان دو شہروں میں میٹرو کے حشر کا اندازہ نہیں لیکن لاہور کی میٹرو تو خادم اعلی کی ایک ٹرم کا ساتھ بھی نہیں نبھا سکی۔ یہ میٹرو روٹ اب جا بجا ادھڑا نظر آتا ہے، سائیڈ کی سڑکیں تو ویسے ہی پرانی سروس روڈز پر بنی ہوئی ہیں جن کے نیچے سیوریج کے نالے بھی ہیں ، ان کے کئی ڈھکن یا تو چور لے گئے ہیں یا بھاری ٹریفک کا بوجھ برداشت نہیں کر سکے ۔ ان کی مرمت کا سلسلہ نئے روز گار کے وسائل پیدا کرنے کاسبب ہے،جب میٹرو چلی تھی تو فلائی اوور اور یو ٹرن بنانے کا دھیان کسی کے ذہن میں نہیں آیا مگر سائیڈوں پر ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں پھنسنے لگیں تو میٹرو منصوبے کی فائل جھاڑ کر اس میں ترمیم و اضافہ کی گنجائش پیدا کی گئی۔اب آپ غلطی سے دائیں لین میں جا رہے ہیں تو اچانک کسی یو ٹرن میں گھس جائیں گے جہاں سے واپسی کے لئے پھر آپ کو کئی کوس کا سفر طے کرنا پڑے گا۔ یہ یو ٹرن اس قدر اچانک سامنے آ جاتے ہیں کہ آپ اپنی گاڑی ان پر چڑھانے سے بچانے کی تگ و دو میں ہلکان ہو جاتے ہیں۔
انڈر پاس کے منصوبوں نے بھی شہرت بہت پائی، لاہور شہر کے انڈر پاس نواز شریف، منظور وٹو، پرویز الہی اور شہباز شریف کی مشترکہ کوششوں سے بنے، اسلام آباد میں ایک بیورو کریٹ نے کمال دکھایا۔ مجھے گوگل پر ترس آتا ہے کہ وہ اس قدر تیزی سے اپنے نقشوں میں کیسے ترمیم کر لیتا ہے، میں نے سہولت کے لئے گاڑی میں نیوی گیشن لگوا رکھا ہے، یہ مجھے جہاں سے مڑنے کو کہتا ہے، وہاں سامنے فولادی جنگلہ ہے۔ میں نے ٹریکنگ کمپنی سے اصرار کر کے گوگل کے تازہ ترین نقشوں کی فراہمی کے لئے آمادہ کیا۔
خادم اعلی کام کے دھنی ہیں ، ان کی نیت پر بھی کو ئی شبہ نہیں کیا جاسکتا مگر بد قسمتی سے انہیں باصلاحیت مشیر دستیاب نہیں ہیں ، بس اردگردکے لوگوں نے اپنے آپ کو امرت دھارا بنا کر ان منصوبوں پر ٹھونس رکھا ہے، میٹرو بس اور میٹروٹرین کے منصوبوں کیلئے کام جن لوگوں کے ہاتھ میں دیا ، کیا مجال ا نہوں نے کبھی کوئی رکشہ یا چنگ چی چلایا ہو۔ ملک میں ایک سے ایک بڑھ کر ٹرانسپورٹر موجود ہے جن کی بسیں گلگت سے گوادر تک چلتی ہیں مگر ان لوگوں سے کوئی مشاورت نظر نہیں آتی۔
میں ایک زمانے میں پشاور گیا، اورگورنر لیفٹننٹ جنرل فضل حق سے نوائے وقت کے لئے انٹرویو کیا، انہوں نے پوچھا، کیوں بچہ، اٹک کا پل پار کرنے کے بعد احساس ہوا کہ کسی ترقی یافتہ علاقے میں داخل ہو گئے ہو، یہ اس زمانے کے حساب سے درست دعوی تھا مگر اب اٹک کا پل پار کرنے سے ڈر لگتا ہے کہ اس سے آگے خستگی ہی خستگی، حضرت عمران خان نے کرپشن اور دھاندلی کا تو پیچھا کیا مگر حکومت کاری جناب کو نہیں آتی۔اندرون سندھ کا حال بھی مت پوچھیں اورکراچی تو کچرے کا ڈھیر ہے۔ کراچی میں کچرے کے سارے حرف موجود ہیں۔کراچی کے فلائی اوور تو بنتے ساتھ ہی ادھڑ جاتے ہیں۔یا اللہ! ایک ہی ملک میں اس قدر عدم توازن اور عدم مساوت۔
اب سی پیک کا شوروغوغا برپا ہے، میں سوچتا ہوں کہ جو قوم لاہور کی ایک رنگ روڈ پچھلے تیس سال میں نہیں بنا سکی وہ کاشغر سے گوادر تک سڑکوں کا جال کیا بچھائے گی اور اگر کوئی امید پیدا ہوئی بھی تھی کہ جنرل راحیل شریف بڑی تگ و دو کرتے نظر�آتے تھے اور نئی نئی سڑکوں پر وزیر اعظم نواز شریف کی جیپ ڈرائیو کیا کرتے تھے، اب یہ دونوں نہیں رہے، رہے نام اللہ کا۔سی پیک کون بنائے گا، چین کہتا ہے کہ وہ بنا کر چھوڑے گا، چلئے دیکھ لیتے ہیں ، چین کیا تیر مارے گا۔ چین سب کچھ کر سکتا ہے مگر ا سے پاکستان میں ایک لیڈر کی حمایت بھی تو چاہئے۔ پاکستان اس وقت لیڈر سے محروم ہے، ہم نے لیڈر سے خلاصی حاصل کی یا اس میں لیڈر کا کوئی قصور ہے، یہ الگ بحث ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک لیڈرلیس قوم ہیں۔
میں نے ابھی کہا کہ ایک عرصہ بیت گیا کہ لاہور کی رنگ روڈ نہیں بن سکی،آپ گوجرانوالہ، وزیر آباد، گجرات کے بائی پاس کا حال دیکھ لیں آپ زارو قطار روئیں گے، لاہور سیالکوٹ موٹر وے کا افتتاح تین وزرائے اعلی اور ایک وزیر اعظم نے کیا مگر یہ کاغذی منصوبہ زمین پر متشکل نہیں ہو سکا۔
بجلی کے منصوبے کچھ تو محترمہ نے نظیر بنا گئیں ، کچھ شہباز شریف اور نواز شریف نے کھڑے کئے مگر سب کا حال نندی پور جیسا ہے، بس آپ افتتاحی تقریبیں دیکھ دیکھ کر خوش ہو تے رہیں،جس کسی نے نواز شریف کو حکومت سے نکالا ہے ، وہ ان کا سب سے بڑا محسن ہے ،نواز شریف نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے وعدے تو کئی کئے تھے مگر حتمی تاریخ مئی دو ہزارا ٹھارہ تھی ،اب مؤرخ لکھے گا کہ نواز شریف کو یہ منصوبے پورے کرنے کی مہلت نہیں دی ۔ مگر شہباز شریف تو اپنی جگہ موجود ہیں ، اب خدا جانے ان کے پاس کوئی اختیار بھی رہنے دیا گیا ہے یا نہیں۔ ان کاآدھے سے زیادہ خاندان بیرون ملک جا چکا، صرف دو افراد باقی ہیں، اور پہاڑ جیسے منصوبے ان کے سامنے ہیں ، خدا کرے کہ یہ ان کو مکمل کر پائیں، میں تو دعا ہی کر سکتا ہوں ۔
میں نے ریلوے کی بات نہیں کی، اسٹیل مل کی بات نہیں کی، پی آئی اے کی بات نہیں کی اور جان بوجھ کر نہیں کی۔کسی حکومت کی زیادہ مخالفت اور زیادہ حمائت اچھی بات نہیں سمجھی جاتی۔