خبرنامہ

خواتین حقوق پر وزیر اعظم کی لچک۔۔اسداللہ غالب۔

دوستوں کی ایک محفل میں خواتین کے حقوق کے بارے نئے قوانین پر دھواں دار بحث جاری تھی، مجھے نجانے کیا سوجھی، میں نے کہا کہ جس طرح برطانوی آئین غیر تحریر ی شکل میں ہے، اسی طرح ہمارے ہاں بھی خواتین کے حقوق کے بارے میں کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں ، بس پارلیمنٹ ایک سطری اعلان کر دے کہ ہر گھرمیں جو غیر تحریری قانون لاگو چلا آرہاہے، وہی ملک کا قانون سمجھا جائے گا۔ بس چندایک سماجی رویوں کی اصلاح کی ضرورت ہے، جو مقام ہم بیٹی کو دیتے ہیں، وہی بہو کو بھی دینا شروع کر دیں، بیوی جو مقام اپنے ماں باپ کو دیتی ہے ، وہی مقام اپنے سسرا ور ساس کو دینا شروع کر دے۔ہاں، ایک چیز کی بزور طاقت مخالفت کرنا پڑے گی اور جس طرح ہم نے پاک چین اقتصادی کوریڈور کی حفاظت کے لئے پورا ایک ڈویژن کھڑا کرنے کا ا علان کیا ہے،ا سی طرح ایک ڈویژن فوج کھڑی کی جائے جو جہیز کی لعنت کو نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بنا کر ختم کرے، جس بارات کے ساتھ جہیز کا ٹرک دیکھیں ،اسے ضبط کر لیا جائے۔اسی طرح جو لڑکے یا اس کے والدین جہیز کا مطالبہ کریں ، ان کو بھی نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کی عدالتوں سے سزائیں دی جائیں۔
خواتین کے ساتھ برا سلوک کئی طریقوں سے ہوتا ہے،ا نہیں وراثت سے حصہ نہیں دیاجاتا، انہیں مرد سے کم تر سمجھا جاتا ہے، لیکن اگر ہم اسلام کے نظام حیات کو سامنے رکھیں تو ہمیں کسی قانون سازی کی ضرورت ہی نہیں۔ حضرت خدیجہؓ سے حضور ﷺ نے شادی کی لیکن اس سے قبل وہ ان کے لئے تجارت کرتے تھے۔ اس دور میں بھی عورت کے ساتھ زیادتیاں بہت ہوتی تھیں اور ان کا آغاز بچی کی پیدائش سے شروع ہو جاتا تھا جسے زندہ ریت میں گاڑ دیا جاتا تھا۔اسلام نے اس بدی کو ختم کیا۔ آج اگر عورت کے ساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی کاا رتکاب ہوتا ہے تو اس کے لئے ہمیں اسلام سے راہنمائی مل سکتی ہے ، یہی وہ نکتہ ہے جسے موجودہ قانون کومنظور کرتے وقت پیش نظر نہیں رکھا گیا، پاکستان بہرحال مسلم اکثریت کی ایک ریاست ہے،ا سے اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر بنایا گیا تھا، متحدہ ہندوستان میں تو ہندو معاشرے میں بیوہ کو ستی ہونے پر مجبور کیا جاتا تھا۔اور کتنی ہی خرافات تھیں جن سے بچنے کے لئے ہم نے الگ ملک کے قیام کے لئے قربانیاں دیں۔میں مولوی نہیں لیکن مسلمان ضرور ہوں اور مجھے آپ میں سے کسی کے مسلمان ہونے میں قطعی شک نہیں ، ہم سب اسلام کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں ، یہ حسن اتفاق ہے کہ اس وقت وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب سخت دین دار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، اس گھرانے میں دھوم دھام سے شادی کا رواج نہیں،مریم نواز کی شادی ایک مختصر مجمع کے سامنے ہوئی، مریم کی صاحبزادی مہر النساکا نکاح تو مدینہ منورہ کی مسجد نبوی میں انجام پایا۔ایک زمانے میں تو وزیر اعظم وہی قوانین پاکستان میں بھی لاگو کرنا چاہتے تھے جو سعودی عرب میں ہیں مگر ان کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں، اب بعض انتہائی لبرل حلقے ان کے گرد اکٹھے ہو گئے ہیں جن کی وجہ سے خواتین کے حقوق کا قانون مسلم معاشرے کے لئے متنازع ہو گیا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ علماء کوئی سیاست کر رہے ہیں، وہ اپنا مذہبی فریضہ ادا کر رہے ہیں اور شکر کی بات یہ ہے کہ جاتی امرا میں مولانا فضل الرحمن کی ملاقات وزیر اعظم نواز شریف ا ور وزیرا علی شہباز شریف سے ہو گئی جس میں وزیرا عظم نے وعدہ کیا کہ وہ علما کے مشوروں کی روشنی میں اس قانون میں ترمیم کے لئے تیار ہیں۔پاکستان کا آئین بھی کہتا ہے کہ کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جا سکتا، ایک حکومتی ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے تشکیل بھی دیا گیا تاکہ وہ تمام قوانین کا جائزہ لے ا ور اپنی سفارشات پیش کرے کہ کس قانون میں اسلام کے لحاظ سے کوئی سقم ہے مگر نظریاتی کونسل کی حیثیت صرف مشاورت تک محدود ہے،اس لئے اس کی کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتیں۔اس پر مستزاد ہمارا جمہوری نظام ہے جس میں ووٹوں کے ذریعے فیصلہ ہوتا ہے اور اقبال کہہ چکا ہے کہ اس نظام میں بندوں کو گنا جاتا ہے، تولا نہیں جاتا۔اس نظام کے تحت کسی روز ملک میں اسلام پر پابندی بھی عائد کی جاسکتی ہے۔مگراس اقدام کے مضمرات کا کسی کو اندازہ ہی نہیں ، ہزاروں داعش وہ طوفان برپا نہیں کر سکتیں جو اس ملک کے سادہ لوح مسلم عوام قیامت کھڑی کر سکتے ہیں۔بھٹو کے زمانے میں یہ تجربہ ہو چکا ہے، آئین میں ترمیم کر کے ملک کے نام سے ا سلام کا لفظ حذف کر دیا گیا تھا اور پاکستان ایک روایتی جمہوریہ قراردے دیا گیا تھا مگر اسی بھٹو نے جمعہ کی چھٹی بھی کی، شراب اور قادیانیوں پر پابندی لگائی ا ور اسلامی کانفرنس بلائی۔
پاکستان کے مسلم معاشرے میں اسلام کے بارے میں جو نظریہ راسخ ہے، اسے آپ بنیاد پرستی کہہ لیں، انتہا پسندی کہہ لیں،متشددہونے کا طعنہ دے لیں مگر اس سوچ کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔آج کی دنیا تو پھانسی کے بھی خلاف ہے، وہ ہاتھ کاٹنے اور سنگسار کرنے کی روادار کیسے ہو سکتی ہے ،لیکن ان سزاؤں کے معطل ہونے کی وجہ ہی سے وہ ساری خرابیاں درآئی ہیں جن پر قابو پانے کے لئے ہم خواتین کے حقوق بارے قانون سازی پر مجبور ہوئے ہیں، ہو سکتا ہے ہم اہل مغرب کے دکھاوے کے لئے ایساکر رہے ہوں لیکن ہم نے اسلام کے بنیادی احکامات کو اپنے قانون کا حصہ بنایا ہوتا تو غیرت کے قتل کی نوبت ہی نہ آتی۔
پاکستان کا مسلم معاشرہ عورت کو وہ عزت و احترام دیتا ہے جو اہل مغرب کے تصور میں بھی نہیں آ سکتا۔اس کے باوجود خواتین مظالم کا شکار ضرور ہیں اور ان کے انسداد کے لئے ہمیں سخت سے سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے، یہ کام مغرب کو دکھاوے کے لئے نہیں، معاشرے کی اصلاح کی نیت سے کرنے کی ضرورت ہے۔
اچھا ہوا کہ ایک قانون بنا، اس میں بھی خرابیاں موجود ہیں ، خرابیاں ملک کے ہر قانون میں موجود ہیں مگر خواتین کے لئے قوانین سازی میں علمائے کرام کی مشاورت شامل کر لی جاتی تو اختلاف کی یہ نوبت نہ آتی۔ یہ بھی اچھا ہوا کہ اختلاف کو رفع کرنے کے لئے وزیرا عظم نے کسی انا کا مظاہرہ نہیں کیا ورنہ پارلیمنٹ میں جس کسی کے پاس اکثریت موجود ہے، وہ ہر قسم کی قانون سازی کا مجاز ہے۔وزیر اعظم نے مسلم معاشرے کے احساسات کالحاظ کرنے میں کسی تامل کا مظاہرہ نہیں کیا، اب علمائے کرام کا فرض ہے کہ وہ اپنی سفارشات میں ایک تو وقت ضائع نہ کریں اور دوسرے اتفاق رائے کا مظاہرہ کریں، خواتین کے حقوق پر اسلامی اسکالروں نے پہلے سے بہت سا کام کر رکھا ہے، نئے سرے سے کسی تحقیق کے بکھیڑے میں پڑنے کی ضرورت نہیں، یہ کام جس قدر جلد ہو جائے،ا سی قدر میری اورآپ کی بیٹی، بہن ، ماں، بہو ، ساس،کے مسائل کے خاتمے میں آسانی پیدا ہو گی۔