خبرنامہ

دشت ظلمت میں ایک دیا…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

دشت ظلمت میں ایک دیا…اسد اللہ غالب

جیسے ہی مجھے یہ کتاب ملی، مجھے وہ ڈاکٹر امجد ثاقب یادآ گئے جو کوئی ایک سال پہلے دشت ظلمت کے اس دیئے میں جلنے والے تیل کے اخراجات جمع کرنے کے لئے یورپ کے سفر پر تھے۔ انہوںنے رات کو ایک کامیاب ڈنر کا انعقاد کیا جہاں ان کی اُمیدوں سے بڑھ کر عطیات کا ڈھیر لگ گیا مگر اگلی صبح انہیں احساس ہوا کہ دشت ظلمت کے اس دیئے کی لو تیز کرنے کے لئے صرف تیل کافی نہیں، انہیں اپنا خون دل بھی اس میں جلانا ہو گا۔ دیار غیر میں دانت کا درد بھی ناقابل برداشت ہوجاتا ہے مگر وہ دل کے درد سے کراہ رہے تھے اور اکیلے تھے ، ان کا بائی پاس آپریشن ہوا، وطن واپسی میں انہیں کئی ماہ لگ گئے۔ مجھے یہ احساس تڑپا رہا تھا کہ وہ گھر سے ہزاروں میل دور تنہا ہیں مگر دوسرے ہی لمحے مجھے ان کے سرہانے کھڑے لاکھوں خاندان نظر آئے، ان کی آنکھوں میں خاموش آنسو تھے اور ہونٹوں پر دعائیں تڑپ رہی تھیں۔
اسی ڈاکٹر امجد ثاقب نے صحت مند ہو کر ساتویں کتاب لکھ دی ہے، یہ کتاب بھی اخوت کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اخوت جو لاکھوں گھرانوں کے تاریک آنگنوں میں اُمیدوں کے دیئے روشن کر چکا ہے۔ میرے بھائی مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ یہ کتاب دشت ظلمت کے سفر کی کہانی ہے ۔ اس میں دکھ، درد اور بے بسی کا ذکر ہے لیکن اسی درد کے افق سے اُمید کا سورج طلوع ہوتا دکھائی دیتا ہے۔مائیکرو فنانس ایکسپرٹ میلکم ہارپر کی رائے ہے کہ میں بر طانیہ میں رہتا ہوں ، میری خواہش ہے کہ میں دنیا بھر سے لوگوں کو لے کر لاہور پہنچوں ، میں ان کو بتانا چاہوں گا کہ دیکھو یہ ہے اصل مائیکرو فنانس۔ساڑھے انیس لاکھ سے زائد گھرانوں تک بلاسود قرضے پہنچانا ایک حقیقی انقلاب ہے۔
اس کتاب کے تین حصے ہیں ، پہلا حصہ سود خوروں کے جبر کا عکاس ہے، یہ شرار بولہبی کی گہری تپش پر مشتمل ہے ، دوسرے حصے میں چراغ مصطفوی کی لو سے روشن ہونے والوں کے قصے ہیں جن کی زندگیوں میں اخوت کی مدد سے تبدیلی نے دستک دی۔ تیسرا حصہ مولانا طارق جمیل اور پروفیسر احمد رفیق اختر کے بیانات ہیں جو مواخات کی افادیت کو نمایاں کرتے ہیں۔
میں پہلے حصے کی کوئی ایک کہانی بھی یہاں بیان نہیں کرنا چاہتا کہ ان کہانیوں کا کرب میری اور آپ کی روح کو لرزا کر رکھ دیتا ہے ، میں اپنی ایک کہانی بیان کرتا ہوں۔ ایم اے انگلش کرنے کے بعد کچھ عرصہ کی ملازمت چھوٹ گئی اور میں بے کار ہو گیا اور نئی نوکری کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ کہیں سے آس پوری نہیںہو رہی تھی، سوچا کوئی چھوٹا سا کاروبار کر لوں ، محلے کی ایک عورت سے پچیس ہزار پکڑے، ان سے کتابوں کی اشاعت کا بیڑہ اٹھایا۔ یہ کاروبار تو کامیاب تھا اس لئے کہ نامور مصنفین کی کتابیں چھپ رہی تھیں اور دھڑا دھڑ بک رہی تھیں مگر ہر ماہ اُدھار لی ہوئی رقم پر پانچ ہزار سود ادا کرنا پڑتا تھا، پچیس ہزار کی اصل رقم پر سال تک ساٹھ ہزار ادا کر چکا تھا مگر اصل زر اسی طرح سر پہ بوجھ بنا ہوا تھا۔ اس کے نتیجے میں کاروبار ٹھپ ہو گیا اور میں دو وقت کی روٹی کا محتاج ہو گیا، تین دن کے فاقوں کے بعد ایک دکان پر جانے کا حوصلہ ہوا ، میری جیب میں اٹھنی کا سکہ تھا، میں نے دکاندار سے کہا کہ آدھی ڈبل روٹی اور دو انڈے دے دو، دکاندار نے مجھے گھور کر دیکھا ور پوچھا کہ نوجوان آخری بار یہ چیزیں کب خریدی تھیں، ظاہر ہے وہ میرا تمسخر اُڑا رہا تھا۔میں بھوک مٹانے کے لئے قریبی تندور پر پہنچا ، ایک روٹی لی اور تندور پر بیٹھی عورت سے التجا کی کچھ دال اس پر رکھ دو۔ سودی نظام نے مجھے اس حالت کو پہنچایا تھا۔ اس کہانی کے بعد بھی آپ کو سودی نظام کی لعنت کے بارے میں مزید جاننے کی خواہش ہو تو ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب کا پہلا حصہ پڑھتے جائیں اور شرماتے جائیں۔ قرآن نے سود کو بلاوجہ حرام قرار نہیں دیا۔
ڈاکٹر امجد ثاقب ایک ذہین فطین انسان ہیں اللہ نے انہیں لکھنے، سوچنے اور اس پر عمل کرنے کی نعمتوں سے نوازا ہے ۔ وہ گورنمنٹ کالج اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے تعلیم حاصل کرتے رہے ۔ سول سروس کے ڈسٹرکٹ مینیجمنٹ گروپ کے لیے منتخب ہوئے۔امریکا سے پبلک ایڈ منسٹریشن اور انٹر نیشنل ڈویلپمنٹ میں ماسٹرز کی ڈگری،اہم سرکاری عہدے،ملازمت سے استعفیٰ، ایشین ڈویلپمنٹ بنک،یو ایس ایڈ،DFID,CIDA،ورلڈ بنک جیسے بین الاقوامی اداروں کی مشاورت اور اخوت،جو دنیا میں قرض حسنہ کا سب سے بڑا پروگرام ہے،کے بانی ہونے کا اعزاز۔ سماجی ترقی کے شعبے میں اخوت ، فائونٹین ہائوس اور پنجاب ویلفیئر ٹرسٹ فار ڈس ایبلڈ کے سربراہ کی حیثیت سے انھوں نے گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں، ان خدمات کے اعتراف کے طور پر صدر پاکستان کی طرف سے ستارئہ امتیاز پیش کیا گیا۔وہ سات کتب کے مصنف بھی ہیں۔علاوہ ازیں پنجاب ایجوکیشن اینڈومنٹ فنڈ PEEF کے وائس چیئر مین ، پی ایم ڈی سی کے ممبر،پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن میں اعزازی کمشنر،بنک آف پنجاب کے ڈائیریکٹر اور یونی ورسٹی آف پنجاب،فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی اور یونی ورسٹی آف ایجوکیشن کے سنڈیکیٹ ممبر بھی ہیں۔حکومت پاکستان نے انہیں اسٹیرنگ کمیٹی برائے وزیراعظم بلاسود قرضہ اسکیم کا چیئرمین بھی مقرر کیا ہے۔ ان تمام اداروں سے ان کی وابستگی رضا کارانہ بنیادوں پر ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب اس تعارف کے محتاج نہیں ہیں لیکن میں نے مناسب سمجھا کہ نئی نسل کو پتہ چلے کہ کس قدر باصلاحیت اور عظیم المرتبت انسان کس قدر دردمند دل کا مالک ہے اور دکھیارے لوگوں کے دُکھ درد کو اپنی جان کا کیسے روگ بنا لیتا ہے۔
اس کتاب کا دوسرا حصہ چراغ مصطفوی کی کراں تا بہ کراں پھیلی ہوئی روشینوں کاا حاطہ کرتا ہے۔ کیوںنہ یہاں میں پھر اپنا ذکر وں اور یہ بتائوں کہ ا س معاشرے کی آس ابھی زندہ ہے، گزشتہ برس میری بینائی رخصت ہو رہی تھی، شروع میں مجھے ایسی مشینری کی ضرورت تھی جو مجھے پڑھنے لکھنے میں مد د ے سکے، یہ کوئی دس لاکھ کا خرچہ تھا، میںنے اپنے دفتر کو ایک ایس ایم ایس کیا اور مجھے دو لاکھ کا قرض حسنہ مل گیا۔ باقی آٹھ لاکھ بھی جمع ہو گئے مگر میں اس مخمصے کا شکار تھا کہ اس قدر مہنگی مشین بھی خرید لوں اور بینائی مزید کمزور ہو جائے کہ مشین بھی مدد نہ کر پائے تو یہ رقم ضائع نہ چلی جائے ، میںنے اپنی معالج ڈاکٹر میمونہ طاہر کے سامنے یہ سوال رکھا، انہوںنے ٹھنڈی آہ بھری اور کہنے لگیں کہ مجھے اگلے لمحے کی خبر ہوتی تو میں دو سال قبل اپنے خاوند کو ہسپتال جانے سے روک لیتی جہاں کرسی پر بیٹھتے ہی انہیں ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ ایک جدید ترین ہسپتال میں ہونے کے باوجود کسی بھی طبی امداد ملنے سے پہلے اللہ سے جا ملے،یہ ایک تلخ اور مایوس کن بات تھی مگر میں نے جیسے تیسے اس مشین کو ایک سال تک استعمال کیا ہے ۔ اب یہ بھی جواب دے رہی ہے مگر میں مایوس نہیں کہ یہ امر ربی ہے ۔ بہر حال ڈاکٹر امجد ثاقب نے کتاب کے دوسرے حصے میں جن مصطفوی چراغوں کا نورانی ذکر کیا ہے ، مجھے بھی ایسے چراغوں کی روشنی نے منور کئے رکھا ہے اور میں اللہ کی ذات کا بے حد شکر گزار ہوں کہ اس نے دُکھی انسانوں کی دستگیری کرنے والوں کی کمی نہیں چھوڑی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب بھی انہی روشن چراغوں میں سے ایک ہیں بلکہ سب سے زیادہ روشنی بکھیرنے والے ہیں، انہوںنے اخوت کے پلیٹ فارم سے لاکھوں خاندانوں کے گھر روشن کئے ۔ میری دعا ہے کہ اللہ انہیں صحت کاملہ اور بلندحوصلے اور کمال ہمت سے نوازے ، میری خواہش تھی کہ ان کے گھر جائوں اور ایک گلدستہ عقیدت ان کی نذر کروں مگر میں اب ان کا گھر تلاش کرنے سے قاصر ہوں کہ میری آنکھیں اس صلاحیت سے محروم ہو چکی ہیں، پھر بھی ڈاکٹر امجد ثاقب میرے اس قدر قریب ہیں جیسے سوج، چاند اور کہکشاں کی روشنی۔ میرے قلم سے نکلنے والے الفاظ پھول بن کر ان کے قدموں میں نچھاور ہوتے رہیں گے۔