خبرنامہ

دلی در بار میں راگ درباری

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

دلی در بار میں راگ درباری

پاکستان کے یوم تکبیر پر بھارت کے ایٹمی عزائم کی بحث نئے وزیراعظم کے ایجنڈے کی غماز ہے۔ شیوسینا کے سربراہ نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ مودی کو ایٹمی بٹن دبا کر پاکستان کو سخت سزا دے دینی چاہئے۔ بھارتی پریس نے ان حالات اور وجوہات کا جائزہ لینا شروع کر دیا ہے جن میں مودی کے لیئے ایٹمی بٹن دبانا ضروری ہوجائے گا۔ ساتھ ہی انڈین میڈیا نے نواز شریف کو نا قابل اعتبار ثابت کرنے کے لئے کہا ہے کہ جس وقت ان کا جہاز پاکستان سے پرواز کر رہا تھا تو عین اسی وقت کنٹرول لائن پر پاکستانی رینجرز نے فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیا اور شام کو جب مودی نے حلف کا آغاز کیا تو اسی وقت پاک رینجرز نے دوسری خلاف ورزی کی۔
مودی کی حلف برداری سے پہلے بھارت میں ایک ٹرین حادثے میں چالیس افراد ہلاک ہو گئے اور مقبوضہ کشمیر میں ایک مگ اکیس بھارتی طیارہ پائلٹ سمیت تباہ ہو گیا شکر کی بات یہ ہے کہ ان حادثات کا الزام پاکستان پر نہیں لگا دیا گیا۔
نواز شریف نے نئی دہلی روانگی سے قبل کہا تھا کہ وہ امن کا پیغام لے کر جارہے ہیں اور دو طرفہ دوستی کے عمل کو وہیں سے شروع کرنا چاہتے ہیں جہاں ننانوے میں اس کا سلسلہ ٹوٹ گیا تھا۔ نواز شریف نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ قیام امن کے لیئے یہ سنہری موقع ہے کیونکہ دونوں طرف کی حکومتوں کو بھاری مینڈیٹ ملا ہے۔
بھاری مینڈیٹ نواز شریف کو نہیں بھول سکتا دیکھئے مودی کا کیا حشر کرتا ہے۔ مودی نے منگل کی دوپہر نواز شریف سے ملاقات میں کہا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی بند کرنا ہوگی۔ اور ممبئی حملوں کے مجرموں کو سزا دینا ہوگی، انہوں نے ان کے ٹرائل پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ ظاہر ہے ایک بھارتی وزیراعظم اور وہ بھی سخت انتہا پسند اس کے علاوہ کیا کہتا مگر میرے ملک کا وزیراعظم جواپنے آپ کو اٹھانوے میں ایٹمی وزیراعظم کہلوانے میں فخر محسوس کرتا تھا اور دھماکے کرنے پرداد وصول کر رہا تھا، آج یوم تکبیر سے ایک روز قبل وہ مودی کے سامنے اعتراف کر رہا ہے کہ دونوں ملکوں نے اسلحے کی دوڑ میں وسائل ضائع کیے ہیں۔
بھارتی میڈیا ہمیشہ کی طرح غرارہا ہے، اس کا دعوی ہے کہ مودی نے ممبئی حملوں کے سلسلے میں نواز شریف پر پانچ تابڑ توڑ حملے کیئے۔ دیکھئے سرتاج عزیز اور دوسرے پاکستانی جو اس میٹنگ میں موجود تھے کبھی اصل کہانی سنائیں گے یا نہیں۔
بھارتی سیکرٹری خارجہ نے تصدیق کر دی ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کے دوران ٹیررازم پر تشویش کا اظہار کیا اور ممبئی حملوں کے مجرموں کے کیس سرعت سے نمٹانے پر زور دیا۔ انہوں نے طنطنہ دکھاتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کشمیر پر ہمارا موقف کیا ہے۔
میرے گھر میں صبح سے بجلی بند ہے اور شام تک بند رہے گی، اس لیئے میں ٹی وی پر مودی شریف ملاقات کا احوال نہیں دیکھ سکا مگر مجھے یوں لگا ہے کہ میرے ملک کے وزیراعظم کو بھارتی وزیراعظم نے ملاقاتوں کی فہرست میں کہیں آخر میں رکھا ہے، ان کے بعد مودی کی ملاقات بنگلہ دیش کی اسپیکر سے ہوئی ہے جس بے چاری کو آدھ گھنٹہ مزید انتظار کرنا پڑا کیونکہ نواز،مودی میٹنگ تیس منٹ کے لیے تھی، جو پچاس منٹ تک طول پکڑگئی نواز شریف نے اپنی ملا قات کو بہترین Excellent قرار دیا ہے۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
انٹرنیٹ پر موجود ایک تصویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی اور نواز شریف مصافحہ کرتے ہوئے مسکرارہے ہیں، باقی ہر تصویر میں مودی کے چہرے پر تو مسکراہٹ لہرارہی ہے مگر نواز شریف گم سم سے دکھائی دیتے ہیں۔
ہمارے وزیراعظم کی ڈاک میں منگل کی صبح سویرے اور مودی سے ملاقات سے گھنٹوں قبل ٹائمز آف انڈیا کی ایک اسٹوری ضرور رکھی گئی ہوگی جس کی سرخی یہ ہے کہ نئے بھارتی وزیراعظم کی انگلیاں ایٹمی بٹن پر ہیں۔ وہ ملک کی نیوکلیئر کمانڈ اتھارٹی کی سیاسی کونسل کا چیر مین بھی ہے جو ایٹمی اسلحے کے استعمال کی اجازت دینے کا اختیار رکھتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وزیر اعظم نے اس اسٹوری کو سرسری طور پر ہی دیکھا ہو گا جبکہ اس میں پاکستان کے لیئے کئی قابل غور نکات موجود ہیں۔ ایک تو یہ کہ بھارت میں اس طرح کی کمانڈ نہیں جیسے امریکہ یا دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں ہے، امریکہ میں صدر کی معذوری کی صورت میں درجہ بدرجہ پندرہ حکومتی عہدیداروں کو نیوکلیئر کمانڈ کے فیصلوں کا اختیارتفویض کیا گیا ہے مگر بھارت میں اگر وزیر اعظم کسی وجہ سے معذور ہوجائے تو اس کی جگہ یہ حساس ترین فیصلہ کون کرے گا، اس کی کوئی وضاحت نہیں۔ بس پھر افراتفری کا عالم ہوگا۔ اس صورت حال میں بھارت کو فرسٹ سٹرائیک کی حکمت عملی پر ہی عمل کرنا ہوگا کیونکہ سیکنڈ سٹرائیک کی تو اس میں صلاحیت ہی نہیں۔
اورشیو سنہا کے صدرٹھاکرے نے یہی آپشن استعمال کرنے کی دھمکی دی ہے۔
ہمارے وزیراعظم یہ اسٹوری پڑھنے کے بعد مودی کے ساتھ چپ سادھ کر نہ بیٹھتے تو اور کیا کرتے۔
تا دم تحریر وزیراعظم نواز شریف بھارتی میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ مودی سے ملاقات بڑی مثبت اور خوشگوار تھی اور سیکرٹریوں کی سطح پر مذاکرات پر اتفاق رائے ہوا ہے۔
اس پریس ٹاک کی تفصیلات آتی رہیں گی مگر ابھی تک کوئی ایک اشارہ بھی ایسا نہیں ملا کہ نواز شریف نے مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیا ہو جیسا کہ آگرہ میں صدر مشرف نے کشمیر کا کور ایشو پہلے حل کرنے پر اصرار کیا تھا۔ ایسا بھی نہیں لگتا کہ وزیراعظم نے بلوچستان میں بھارتی مداخلت پراحتجاج کیا ہو جیسا کہ ان کے پیش رووزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے شرم الشیخ میں من موہن سنگھ سے کیا تھا۔ ہمارے وزیراعظم نے بھارتی لیڈرسے یہ بھی نہیں کہا کہ امریکی انخلا کے بعد بھارت کا افغانستان میں کوئی کردار نہیں۔ اس کے باوجود یہ دورہ بے حد کامیاب رہا۔ سرکاری ڈھول کی تھاپ پر یہی راگ در باری الاپا جائے گا۔
ہمارے وزیراعظم جامع مسجد نئی دہلی گئے۔ اٹل بہاری واجپائی کی خدمت میں حاضر ہوئے مگر انہوں نے چودھری شجاعت حسین کے مشورے پرعمل کرتے ہوئے بھارتی ریاست گجرات کا رخ نہیں کیا جہاں وہ زندہ جلائے جانے والے مسلمانوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھ سکتے تھے کوئی بتائے کہ وزیراعظم کے وفد میں حسین نواز کی نئی دہلی میں کیا مصروفیات رہیں۔ (29 مئی 2014ء)