خبرنامہ

دورہ چین پر دہشت گرد حملے… کا،لم اسداللہ غالب

دورہ چین پر دہشت گرد حملے… کا،لم اسداللہ غالب

ادھر وزیراعظم اور ان کے قافلے کے جہاز نے چین کے لئے اڑان بھری، ساتھ ہی بلوچستان میں سینٹ کے ڈپٹی چیئر مین مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے کو دہشت گردی کانشانہ بنادیا گیا، مولانا تو بال بال بچ گئے مگر ان کے ستائیس کے قریب ساتھی شہید اور چالیس زخمی ہو گئے۔ حیدری صاحب کا تعلق جے یو آئی (ف) سے ہے جس کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ہیں۔ ان کی جماعت سے عمومی طور پر دہشت گردوں نے پچھلے چودہ برسوںمیں کوئی زیادہ چھیڑ چھاڑ نہیں کی ، اس لئے تازہ سانحہ کی سنگینی دو چند ہو جاتی ہے ۔ یہ ایک انتہائی اقدام ہے اور اس کے ذریعے دہشت گردوںنے واضح کر دیا ہے کہ وہ پاکستان اور چین کو سزا دینے کے لئے دوست اور دشمن یا حلیف اور حریف کی تمیز بھی کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
چین پہنچ کر وزیر اعظم نے انتہائی اہمیت کی حامل ملاقاتوں کا آغاز کیا ہی تھا کہ گوادر میں سندھ سے تعلق رکھنے والے دس مزدوروں کو ایک دہشت گرد حملے میں شہید کر دیا گیا۔اس حملے کی ذمے داری بلوچ آرمی نے قبول کی ہے، عام طور پر سمجھا یہ جاتا تھا کی ملکی سیاست میں سندھی اور بلوچی اکٹھے ہیں مگر جہاں پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کا موقع آ جائے وہاں بلوچیوںنے اس امر کی پروا نہیں کہ وہ غریب سندھیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ بس انہیں غرض یہ تھی کہ بلوچستان کی سرزمین پر خون بہنا چاہئے، سو جو بھی ان کے ہتھے چڑھ گیا، اسے معاف نہیں کیا گیا۔
ابھی وزیر اعظم چین ہی میں ہیں اور باقی کے دو دن کیسے گزرتے ہیں خدا ہی جانے مگر ہاتھ اس دعا کے ساتھ آسمانوں کی طرف بلند ہیں کہ اللہ خیر ہی کرے۔
دہشت گردی کی یہ دونوں کارروائیاں اصل میں وزیر اعظم کے دورہ چین کو سبو تاژ کرنے اور ناکام بنانے کی بھونڈی ا ور بزدلانہ کوشش ہیں، دہشت گرد یہ تاثر دنیا چاہتے ہیں کہ جس ملک اور اس کے جس صوبے کے لئے چین اربوں کا سرمایہ فراہم کر رہا ہے ، وہاں لا قانونیت ہے، دہشت گردی کا دور دورہ ہے اور کسی کی جان و مال محفوظ نہیں ہے۔
یہ دونوں وارداتیں ایک ایسے صوبے میں ہوئی ہیں جہاں سے بھارتی حاضر سروس افسر کل بھوشن رنگے ہاتھوں پکڑا گیا، اس نے اعتراف کیا کہ وہ بلوچستان میں دہشت گردی ا ور صوبے میں علیحدگی پسند تحریک کو ہوا دینے کے لئے ایک نیٹ ورک چلا رہا ہے، اس مذموم مقصد کے لئے اس نے اپنا نام بدل کر پاسپورٹ حاصل کیا اور ایران کو راستے کے لئے استعمال کیا، ایران کا اس میں کیا کردار ہے، اس کا ابھی تک اندازہ نہیں ہو سکا تاہم کل بھوشن کی گرفتاری اس وقت ہوئی جب ایرانی صدر پاکستان کے دورے پر پہنچے، انہیں بڑی خفت محسوس ہوئی اور وہ کوئی صفائی پیش نہ کر سکے ، اب تو ایران کے آرمی چیف نے پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکی دے کر واضح کر دیا ہے کہ وہ کس کی بولی بول رہا ہے، سرجیکل اسٹرائیک کی بات بھارت کرتا ہے ،یا امریکہ۔
کون بھول سکتا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اعلانیہ طور پر دھمکی دے چکے ہیں کہ وہ بلوچستان کو حقوق دلوا کر رہیں گے، اس سے پہلے اکہتر میں بھارت نے مشرقی پاکستان کے عوام کو ان کے حقوق دلوائے تھے جس سے پاکستان دو لخت ہو گیا تھا۔ مودی صاحب بلوچستان تک محدود نہیں ہیں، وہ آزاد کشمیرا ور گلگت کے عوام کے حقوق بھی بحال کروانا چاہتے ہیں۔پتہ نہیں وہ سندھ ، پنجاب اور خیبر پی کے کو کیوں بخش رہے ہیں۔ شاید وہ مرحلہ وار منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہیں۔ مگر ہاتھ اس دعا کے ساتھ آسمانوں کی طرف بلند ہیں کہ اللہ خیر ہی کرے۔
بلوچستان کو دہشت گردوں نے اچانک کیوںنشانہ بنایا ۔ شاید اس لئے کہ ہم خوش ہو رہے تھے کہ اس صوبے میں راوی ہر سو چین لکھتا ہے اور کراچی سے گوادر تک رات کے اندھیرے میں بھی مکران ساحلی موٹر وے پر بے دھڑک سفر کیا جاسکتا ہے۔
میں یہ تو نہیں کہتا کہ بلوچستان کے بارے میں ہماری خوش فہمیاں اور طفل تسلیاںغلط ثابت ہوئیں ، اس لئے کہ دہشت گرد تو موقع کی تاک میں رہتے ہیں اور وزیراعظم کے دورہ چین اور بیجنگ میں ایک سمٹ کانفرنس کے پیش نظر وہ اپنے وجود کااحساس دلوانا چاہتے ہیں مگر ہمیں اپنی صلاحیت کا بغور جائزہ ضرور لینا چاہئے کہ کہیں ہم سے تو کوتاہی نہیں ہو گئی، ہم نے تو کہا تھا کہ سی پیک کی حفاظت کے لئے فوج کا ایک ڈویژن خصوصی طور پر کھڑا کیا جائے گا، پھر سننے میں آیا کہ وو نئے ڈویژن بھرتی کئے جائیں گے۔ اگر ان کے لئے ابھی تک بھرتی نہیںہوئی تو دہشت گردوں نے الارم بجا دیا ہے کہ ہم اپنے منصوبے پر آگے بڑھیں اور سی پیک کی سکیورٹی کے لئے جو اعلان کرر کھا ہے، اس کو پورا کریں۔اکیلی ایف سی یا خاصہ داران تو اس پہاڑ جیسے فریضے کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہیں۔
کوئٹہ میں وکیلوں کو نشانہ بنایا گیا تھا تو آسمان سر پہ ا ٹھا لیا گیا تھا اور سوال کیا گیا کہ ہماری سیکورٹی ایجنسیاں کیا کررہی ہیں، اب سیکورٹی ایجنسیاں تو کل بھوشن کو پکڑ چکی ہیں اور ہم اس کی رہائی کے لئے پر تول رہے ہیں ، کیا غفور حیدری کے ساتھیوں اور گوادر کے مزدوروں کا خون کوئٹہ کے وکیلوں کے خون کے مقابلے میں سستا ہے، اس کا جواب اچکزئی صاحب کے ذمے ہے جو ابھی تک حالیہ دہشت گردی کے خلاف نہیں بولے ، تعلق ان کا بھی ا سی صوبے سے ہے جس کی ترقی کے لئے سی پیک اور گوادر کا منصوبہ پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ اور ان کی خاطر وزیر اعظم نے چاروں وزرائے اعلی کے ساتھ چین کا سفر کیا ہے۔سی پیک کوئی معمولی منصوبہ نہیں ہے، یہ ایک عہد آفریں اقدام ہے، یہ تاریخ انسانی کے دھارے کو تبدیل کرنے کا نام ہے۔
چین کو اپنی سمٹ کے موقع پر معلوم ہو جانا چاہئے کہ ا س کے حریفوں کے ہتھکنڈے کیا ہیں اور وہ کیا کچھ کر سکتے ہیں، چین کے صدر اس وقت بہت ناراض ہوئے تھے جب اورمچی کے ایک ہوٹل میں صبح سویرے ناشتہ کرنے والے مزدوروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تھا، اس میںمرنے والوں کی تعداد بہت معمولی تھی مگر دہشت گرد چونکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے گئے تھے اس لئے چین کے صدر نے اعلا ن کیا تھا کہ خنجراب کی چوٹیوں پر آسمانوں کی بلندی تک لوہے ا ورکنکریٹ کی ایک ناقابل عبور دیوار کھڑی کر دی جائے، پاکستان نے چین کے ا س اعتراض کو دور کر نے کے لئے ضرب عضب کا آغاز کیا اور فاٹا کے دہشت گردوں کو چن چن کر ٹھکانے لگا دیا مگر اب جو دہشت گردی بلوچستان میںہو رہی ہے ، یہ در اصل چین کے مفاد کے خلاف ہے اور چین اچھی طرح جانتا ہے کہ اس دہشت گردی میں کون سے ممالک ملوث ہیں، چین کو ان ملکوں کی سرحدوں پر بھی لوہے اور کاکنکریٹ کی دیواریں تعمیر کرنے کے لئے پاکستان کی مدد کرنی چاہئے۔
میں یہ موضوع نہیں چھیڑنا چاہتا کہ ادھر وزیر اعظم نے چین کا رخ کیا ، ادھر بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں شروع کر دیں، ان کی تعداد گنتی سے باہر ہے، پاک فوج کے افسر اور جوان شہید ہو رہے ہیں اور پاکستان ا ورا ٓزاد کشمیر کے لوگ بھی شہادت سے ہمکنار ہوئے ہیں ، بھارت کی یہ کھلی دہشت گردی ہے، وہ بھی واضح کر رہا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کے دورہ چین کو کس نظر سے دیکھتا ہے، ظاہر نظر بد سے دیکھتا ہے۔