دوچار کمیٹیاں کشمیر کے لیے بھی
پاکستان میں تیسری مرتبہ ایک کشمیری وزیراعظم اقتدار میں ہے۔ اب بھی کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہوا تو پھرکب ہوگا۔
دہشت گردی کے خانے کے لئے تین کمیٹیاں دن رات کام کر رہی ہیں، یہ مسئلہ دس بارہ برس پرانا ہے، کشمیر کا تنازع چھیاسٹھ قبل پہلے شروع ہوا، اس کے حل کے لئے کوئی پچاس ایک کمیٹیاں تو بنانا ہوں گی۔
ایک کشمیر کمیٹی کسی کام کی ہوتی تو نوابزادہ نصراللہ خان کے دور میں ہی یہ مسئلہ حل ہو جاتا، ان سے بڑا مذاکرات کار دو بار جنم نہیں لے سکتا۔ مولانافضل الرحمن پھر اس کمیٹی کے چیئرمین بن گئے، وہ ہزار برس تک بھی اس منصب پر براجمان ہیں تو انہیں اس مسئلے سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے، کم از کم اتنی تو نہیں جتنی ایک کشمیری وزیراعظم کو ہونی چاہئے۔
بس ہمارے پاس ایک دفاع پاکستان کونسل ہے، اس کے سربراہ مولانا سمیع الحق ہیں، آزادکشمیر اور پاکستان میں انہوں نے یوم یکجہتی کے جلسوں جلوسوں کا انعقاد کیا۔ وہ طالبان کی طرف سے بھی مذاکرات کار ہیں، کیا ہی اچھا ہو کہ کشمیریوں کا بھی ان پر اعتماد ہو اور وہ انہیں ثالثی کمیٹی میں شامل کر لیں لیکن ایسی کمیٹی کو آگے بڑھنے کے لیے بھارت کی آشیر بادبھی درکار ہے، اس کام کے لیے مولانافضل الرحمن ہی مناسب ہوں گے، بھارت ان پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کر سکتا ہے۔ لیکن کیا تا کہ بھارت کوعرفان صدیقی کا نام پسند آ جائے۔ انکے چہیتے وزیراعظم بھارت کے ساتھ دوستی کا سفر تیز تر کرنا چاہتے ہیں۔
کچھ لوگ تو وا ہگہ کی لکیر مٹانے کی بات کرتے تھے مگر ہمارے وزیراعظم کونرالی ترکیب سوجھی ہے کہ دا بگہ بارڈر چوبیس گھنٹے کھلا رہنا چاہئے۔ سانپ بھی مر جائے گا، لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی مگر مشرف ان کا بھی استاد تھا، اس نے پہلے تو کارگل کے راستے کشمیرکو فتح کرنے کا منصوبہ بنایا، پھر پینترا بدلا اور کنٹرول لائن کو بے حیثیت بنانے کی تجویز پر معاہدے کا ایک مسودہ تیار کرلیا، یہ تو کھنڈت چیف جسٹس افتخار چودھری نے ڈال دی، ایک حرف انکار بلند کیا، پورے ملک کے وکلا سڑکوں پر نکل آئے مشرف کے اقتدار کی ہوا سرک گئی، اور کشمیر معاہدہ کو دن کی روشنی نصیب نہ ہو سکی۔ یہ معاہدہ خورشید قصوری نے کہیں سنبھال رکھا ہے۔ مگر وزیراعظم کے ساتھ ان کا قارورہ نہیں ملتا، انہوں نے بھی ایک حرف انکار بلند کر دیا تھا اور پارٹی فاشزم کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ ورنہ کشمیر پر سرکاری کمیٹی کے لیے موزوں ترین وہی تھے۔
پیپلز پارٹی بھی اس ملک کی ایک مسلمہ قوت ہے، اس کے بانی لیڈر بھٹو نے کہا تھا کہ کشمیر کے لیئے ہزار سال تک جنگ کریں گے محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی کنٹرول لائن پر دوپٹہ لہراتے ہوئے نعرہ لگایا تھا۔ آزادی! آزادی! مگر کس طرح، اس کا نسخہ انہوں نے نہیں بتایا۔ زرداری نے شاید ہی اس مسئلے پر زبان کھولی ہومگر بلاول بھٹوزرداری ایک سیماب صفت نوجوان ہے، وہ طالبان سے مذاکرات کا بھی مخالف ہے اور ظاہر ہے کشمیر پر بھی اپنے نانا کی طرح ہزار سال تک جنگ لڑنے کے حق میں ہوگا۔ اس لیے ہمارے امن پسند وزیر اعظم اسے کسی کشمیرکمیٹی میں کیوں ڈالیں گے۔
تو کیا کشمیر کے نوجوان تن تنہا آزادی کی جنگ لڑنے پرمجبور ہوں گے، کیا کشمیری ماؤں، بہنوں، کمیٹیوں کی بھارتی فوج کے ہاتھوں اجتماعی عصمت دری جاری رہے گی، کیا کشمیر کی گلیوں میں خوف کا پہرا برقرار رہے گا اور اس دوران واہگہ کے بارڈر پر پاکستان کے چینی کے ٹرک اور بھارت کے آلو اور پیاز کے ٹرک آر پار خاموشی سے آتے جاتے رہیں گے۔
پتا نہیں کیوں، پاکستان کشمیر سے لاتعلق ہو گیا، قائداعظم نے تو اسے شہ رگ قرار دیا تھا مگر ہم نے اسے بھولی بسری داستان بنا چھوڑا۔ بھارت ہی نہیں، ہم نے بھی اقوام متحدہ کی وہ قرار دادیں پس پشت ڈال دیں جن میں کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب کا فارمولا وضع کیا گیا تھا۔ پاکستان نے ان قراردادوں پرعمل درآمد کے لیئے عالمی ادارے سے رجوع کرنے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی۔ ہم نے تو اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے ضمیر کو بھی جھنجھوڑنے کی بھی زحمت نہیں کی، ہم صرف کشمیر کانام جپتے ہیں، اسے پاکستان کا حصہ بنانے کے بھی خواہاں ہیں، اس کے پانی سے اپنے سو کے کھیتوں کو سیراب بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے نہ زبانی کلامی جد و جہد کرتے ہیں، نہ کوئی عملی کوشش نظر آتی ہے۔ ہم سے زیادہ بے عمل کوئی اور قوم کہاں ہوگی۔
کشمیر کا مقدمہ انتہائی آسان ہے، ذرا بھی پیچیدہ نہیں۔ آزادی ہند کے فارمولے کے تحت کشمیرمسلم اکثریتی ریاست کے طور پر پاکستان سے ملحق تھی، اسے ہمارا حصہ بنا تھا، جس طرح بھارت نے جونا گڑھ پر دعوی کیا مگر بھارت نے فوجی جارحیت کی اور کشمیر پر قبضہ جمالیا، پاکستانی مجاہد میں تھوڑا سا حصہ بھارتی چنگل سے چھڑانے میں کامیاب ہوگئے، ماراشکر سری نگر ائیر پورٹ پر قبضے کے لیے آگے بڑھ رہا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نہرو بھاگم بھاگ سلامتی کونسل جا پہنچے، جہاں سیز فائر کی قرارداد منظور ہوگئی، اور یہ بھی طے پایا کہ کشمیری عوام خود فیصلہ دیں گے کہ وہ بھارت کے ساتھ جانا چاہتے ہیں یا پاکستان میں شمولیت کے حق میں ہیں، بدقسمتی سے پاکستان کی کوئی حکومت اس فیصلے کو روبہ عمل لانے کے لیے مستعدی کا مظاہرہ نہیں کر سکی۔ بھارت نے اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے لیے فوج میں اضافہ کرنا شروع کر دیا، اب وادی میں ا یکٹوکشمیری کم ہیں اور بھارت فوج کی تعدادزیادہ ہے۔ اس دوران بھارتی فوج نے کشمیری نوجوانوں کو چن چن کر شہید کر دیا ہے کشمیر میں ایسی نسل کشی ہوئی جس کی کوئی مثال دنیامیں اور کہیں نہیں ملتی۔ بھارت نے یہ مسئلہ طاقت،جبر اور فوج کے ذریعے عمل کیا، ہمارے ہاں تین بار وزیراعظم بننے والے میاں نواز شریف نے ہر مرتبہ مذاکرات کا راستہ اختیار کیا۔
دوسری جنگ عظیم کیسے ختم ہوئی، جب امریکہ نے جاپان پر دو ایٹم بم دے مارے، سری لنکا میں بغاوت کیسے ختم ہوئی جب سرکاری افواج نے آخری باغی کا بھی گولی سے خاتمہ کر دیا۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ ہم عرفان صدیقی کے کالموں کے تعویذوں سے کام چلانا چاہتے ہیں۔
بھارت نے کشمیر کا مسئلہ طاقت کے زور پر پیدا کیا اور اسے ختم کرنا ہے تو اس کے لیے ہمیں بھی طاقت کا راستہ استعمال کرنا ہوگا۔ ہمارا ایٹم بم بقول چودھری شجاعت حسین شادی بیاہ پر پٹاخے بجانے کیلئے نہیں اور اگر ہم اسے استعمال نہیں کرنا چاہتے تو کم از کم ہم کشمیری نوجوانوں کے شانہ بشانہ تو کھڑے ہوں، ہمارے ہاتھ میں پتھر بھی کافی ہیں۔ (5 فروری 2014ء)