خبرنامہ

دھرنا گردی اور دہشت گردی۔۔۔۔اسداللہ غالب

بات پہنچی تری جوانی تک۔کہاں پانامہ سے افشا ہونے والی کروڑوں دستاویزات جن میں دنیا بھر کے لاکھوں لوگوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے اور کہاں اس کا رشتہ دہشت گردی سے جوڑ دیا گیا ہے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں پانامہ کو دہشت گردی سے بھی ہزار قدم آگے ٹیکٹیکل ہتھیاروں کے طور پر استعمال کیا جا رہاہے۔ مجھے زرداری حکومت میں کوئی ایسی خوبی نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے اسے پانچ سالہ آئینی ٹرم پوری کرنے دی گئی، صرف ایک خوبی ہے کہ اس دور میں کرپشن عروج پر رہی اور ملکی ترقی کے لئے کوئی ایک منصوبہ تشکیل نہ پا سکا، اس حکومت کے ایک شخص پر ہاتھ ڈالا گیا ہے، اس پر پانچ سو ارب کی کرپشن کا الزام ہے مگر اس نے ڈھٹائی سے صحت جرم سے انکار کر دیا ہے۔ ایک صاحب جوآئی بی کا خزانہ نچھاور کرنے پر مامور تھے، وہ سینیٹر بن چکے، ان کی واحد خوبی یہ تھی کہ جیل کے دنوں میں وہ زرداری صاحب کو نزلہ زکام کی دوائی دے دیا کرتے تھے۔ان لچھنوں والی حکومت کے مقابلے میں نواز شریف کی حکومت آئی جس نے زرداری کے مسلط کردہ اندھیرں کودور کرنے کے لئے دن رات ا یک کر رکھا ہے، چین پاک اقتصادی راہداری کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے تندہی سے کام کیا جا رہا ہے، دہشت گرد وں کو ملیا میٹ کرنے کے لیئے پاک فوج کے آپریشن ضرب عضب کی بھر پور تائید کی گئی ہے اور نیشنل ایکشن پلان پراس سختی سے عمل کیا جارہاہے کہ مسجدوں سے درودو صلوات کی صدا بھی بلند نہیں ہونے پاتی،میٹرو کے بعد اورنج ٹرین کی رونمائی ہونے والی ہے مگر صد حیف ! کہ اپوزیشن اس حکومت کو چین کا سانس نہیں لینے دیتی۔عمران اور کینڈین قادری نے دھرنا دیا اور دارالحکومت کو مفلوج کر دیا، کونسا آئین ہے جو سیاسی احتجاج کے بنیادی حق کی آڑ میں دما دم مست قلندر کا دروازہ کھولنے کی اجازت دیتا ہے۔مگر عمران خان ا ور قادری نے اس حق کو غلط طور پر استعما ل کیا ، یہ دھرنا گردی نہیں تھی، صحیح معنوں میں دہشت گردی تھی اور جب اے پی ایس سانحے کے بعد فوج کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور اس نے دہشت گردی کے خلاف طبل جنگ بجا دیا تو پھر عمراں نے اپنا دھرنا لپیٹنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کی ، اگر یہ ا س کاآئینی حق تھا تو ا س نے یہ دھرنا جاری کیوں نہ رکھا ، مگر عمران خان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ دھرناگردی اصل میں دہشت گردی ہے اور ضرب عضب کا آغاز فاٹا کے بجائے ڈی چوک سے ہو جائے گا تو ہ ڈر کے مارے دم دبا کر ڈی چوک سے بھاگ کھڑا ہوا۔
دہشت گردی کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کو اندھیروں کی طرف دھکیل دیا جائے اور اس ملک کے عوام ترقی اور خوشحالی کے لئے ہمشیہ ترستے رہیں، دھرنا گردی سے بھی یہی مقصد پورا کیا گیا۔پاکستان کے بہترین دوست ملک چین کے صدر کے دورے کو ایک سال تک ملتوی کروایا گیا اور وہ منصوبے جو دو سال قبل شروع ہو جانے تھے، ان میں ناقابل تلافی تاخیر ہو گئی۔اس دوران میں نواز شریف ا ور شہباز شریف چین کے دورے کر کر کے پھاہوا ہو گئے اورا س بھاگ دوڑ میں ان کا سانس پھول گیا۔ ان کی ایک ہی کوشش تھی کہ چین کو اس کے وعدوں پر قائم رکھا جائے۔
اب خدا خدا کر کے حالات معمول پر آ ہی گئے اور ترقیاتی منصوبوں نے تیز رفتاری سے سفر کا آغاز کر دیا تو اپوزیشن کو یہ حرکت ایک آ نکھ نہ بھائی، ا سنے پہلے تو پاک چین اقتصادی راہداری کے خلاف شور مچا کر اسے متنازعہ بنا دیا۔چین حیران اور پریشان تھا کہ اس کی نیک نیتی کا کس بد نیتی سے جواب دیا جا رہا ہے۔
پاک فوج ایک عرصے سے شور مچا رہی تھی کہ بھارتی را پاکستان میں دہشت گردی کر رہی ہے ا ور بلوچستان کی شورش کوہوا دے رہی ہے تاکہ اس کی علیحدگی کا راستہ ہموار کیا جائے۔ کل بھوشن کی گرفتاری کے بعد فوج نے بھارتی دہشت گردی کا زندہ ثبوت سامنے پیش کر دیا مگراپوزیشن نے بھارت کی ا س گھناؤبی مداخلت کو پر کاہ کے برابر حیثیت نہ دی اور اس اثنا میں پانامہ لیکس کا مسئلہ ا ٹھا تو اپوزیشن نے پھیپھڑوں کی پوری طاقت سے چور چور کا شور مچانا شروع کر دیا، اور راز یہ کھلا کہ چور تواپوزیشن کی اپنی صفوں میں چھپے ہوئے ہیں اور عمران خان ان کے جہازوں میں اڑتا پھرتا ہے۔ باقی د نیا میں اگر کہیں کوئی کاروائی ہوئی ہے تو فقط معمول کی تحقیقات ہیں مگر پاکستان میں اس پر ایک گرد باد کھڑا کیا گیا ، کبھی ایک مطالبہ، کبھی دوسرا مطالبہ۔اور مطالبوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔
وہ معاشرہ جو ایان علی کو مجرم نہیں سمجھتا بلکہ اس کے تفتیشی افسر کے سنگین قتل پر خاموش رہا ہے ، وہ معاشرہ جس میں کوئی شخص جامہ تلاشی پر تیار نہیں اور خورشید شاہ پوچھتے ہیں کہ سول کپڑوں میں کسی شخص کو کیسے ایک وی آئی پی کی تلاشی کاحق حاصل ہے، ا س معاشرے میں کون اپنے اکاؤنٹس کی تفتیش کا حق دے گا، چاہے وہ شوکت خانم کے اکاؤنٹس ہوں، بنی گالہ کے اکاؤنٹس ہوں یا کسی دوسرے یاتیسرے کے آف شور اکاؤنٹس۔ یہ تو محض ایک شور ہے جو پاکستان کو پتھر کے دور میں دھکیلنے کے لئے مچایا جا رہا ہے۔تحقیقات کا ارادہ ہوتا تو ریٹائرڈ جج بھی کر سکتا تھا مگر جب ارادہ ہی نہ ہو تو سپریم کورٹ کے سربراہ کی تحقیقات میں بھی رکاوٹ پہ رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے اور وہ بھی ٹی او آرز کے بہانے ۔بھئی، ہونے دو تحقیقات، فاضل عدالت اپنے ٹی او آرز بنالے گی، وزیر اعظم یہ کہہ چکے ہیں مگر جب تالاب کو مزید گدلاکرنے کا ارادہ ہو تو پھر عمران خاں کیوں شروع ہونے دے گا تحقیقات، اسی رویئے کو دیکھ کر وزیر اعظم کوکہنا پڑا ہے کہ دھرناگردی اور دہشت گردی میں کچھ فرق نہیں۔
وزیر اعظم میری مانیں تو جس طرح فوج نے دہشت گردی کے سہولت کاروں کو نشانہ بنا رکھا ہے، وزیر اعظم دھرنا گردی کے کیس سے بھی نیشنل ایکشن پلان کے تحت ہی نبٹیں۔ اس کے خلاف سخت تریں کاروائی کی جائے۔ وزیر ا عظم نے دو تقریریں کر کے دیکھ لیں، ان کاالٹا مذاق اڑایا گیا۔ انہوں نے ہر مطالبہ منظور کیا ،ا سے ان کی کمزوری پر محمول کیا گیا ، اصل میں لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، اس لئے دھرنا گردی کے بھوتوں کے ساتھ دہشت گردوں والا سلوک روا رکھا جائے، ان بھوتوں کا علاج یہی ہے۔