خبرنامہ

دہشت گردوں کا پیغام، جزل راحیل نے اچھی طرح سمجھ لیا…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

دہشت گردوں کا پیغام، جزل راحیل نے اچھی طرح سمجھ لیا…اسد اللہ غالب

آج تک کی تاریخ میں پہلا سانحہ ممبئی میں ہوا اور دوسرا کراچی ایئر پورٹ کے باہر ایک صحافی حامد میر کے ساتھ۔
اس کے علاوہ اس خطے میں شانتی اور سب اچھا۔ باقی سب جھوٹ اور پروپیگنڈا ہے، پاکستان میں نہ تو ساٹھ ہزار بے گناہوں کو شہید کیا گیا، نہ مقبوضہ کشمیر میں سوا لاکھ نوجوانوں کو بھارتی قابض فوج نے گولی ماری۔ پورا سچ یہ ہے کہ پاکستان میں امن، صرف مذاکرات سے ممکن ہے۔ اتوار کی رات کو کراچی ایئر پورٹ پر جو کچھ ہوا، اس کا مقصد مذاکرات کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔ پورا سچ وہ بھی تھا جو ہمارے وزیر داخلہ چودھری نثار نے حکیم اللہ محسود کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت پر بولا۔ ان کا دل دکھی تھا، سو انہوں نے جی بھر کے نوحہ پڑھا۔
ٹائمز آف انڈیا نے کراچی ایئر پورٹ سانحے کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کی، کئی دل جلوں نے ساتھ ساتھ تبصرے بھی جاری رکھے، ایک صاحب نے لکھا ہے کہ پاکستان کو عالمی نقشے سے خدانخواستہ نیست و نابودکر دیا جائے۔ ٹائمز آف انڈیا نے پاکستان کے ایک ایسے چینل کے حوالے سے بھی رپورٹنگ کی جسے پیمر ا کے حکم کے تحت بظاہر بند کر دیا گیا ہے۔ یہ میرے لیئے حیران کن بات نہیں تھی، پھر بھی میں نے برین نیٹ کے ماہر باسط علوی سے پوچھا کہ کیا مذکورہ چینل سٹیلائٹ پر چل رہا ہے۔ انہوں نے بتایا سٹیلائٹ پر تو بند ہے لیکن انٹرنیٹ پر اس کی نشریات بدستور جاری ہیں۔
مجھے اس چینل کے کھلے رہنے یابند رہنے سے کوئی سروکار نہیں، یہ پیمرا کا گھر کا مسئلہ ہے۔ اس نے بھی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا اتوار کے روز کا تازہ ترین یہ بیان پڑھ لیا ہو گا کہ حکومت اس چینل کے ساتھ کھڑی ہے اور اسے بند کرنے کے حق میں نہیں۔
اتوارہی کو جماعت اسلامی کے نئے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ حکومت کو اب تک پتا چل جانا چاہئے کہ امن مذاکرات کی راہ میں کون رکاوٹ ہے۔ معلوم نہیں کہ کراچی ایئر پورٹ پر چھ گھنٹوں تک خون آلود ڈرامے کے بعد بھی وہ اپنے اس بیان پر قائم ہیں یا نہیں۔ جماعت اسلامی کی روایت ہے کہ وہ کوئی بیان جاری کرنے کے بعد اسے واپس نہیں لیا کرتی، بلکہ فوج اگر اس سے معافی مانگنے کا تقاضہ کرے تو وہ صاف انکار کردیتی ہے۔ اسی روایت پر ایک ٹی وی چینل نے عمل کیا ہے اور اس نے دوقدم آگے بڑھاتے ہوئے الٹا فوج سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کھلے عام معافی مانگے۔ اس کی دی گئی مہلت بڑی تیزی سے ختم ہورہی ہے۔
کراچی ایئر پورٹ سانحے کی رپورٹ انتہائی سرعت کے ساتھ وزیراعظم کی خدمت میں پیش کر دی گئی ہے۔ شجاعت عظیم اگر وزیراعظم کے مشیر نہ ہوتے تو کارنامہ انجام نہیں دیا جاسکتا تھا۔ پچھلے چیف جسٹس نے دوہری شہریت کی وجہ سے انہیں پاکستان سے دڑ کی لگانے پرمجبور کر دیا تھا۔ شجاعت عظیم کی رپورٹ میں اے ایس ایف کی کارکردگی کو سراہا گیا ہے۔ حالانکہ شجاعت عظیم جانتے ہیں کہ ملک کے تین بڑے ائیر پورٹ کو درپیش خطرات کے پیش نظر پاک فوج ان کی حفاظت کے لیئے بار بار ریہرسل کر چکی تھی۔ لاہور ایئر پورٹ کی ریہرسل تو اخبارات میں رپورٹ بھی ہوئی تھی۔ اتوار کی شب بھی لاہور کینٹ سے ایئر پورٹ کی طرف جانے والے تمام راستوں پرسخت نا کہ بندی کی گئی تھی، ایسے ہی ایک ناکے سے گزرنے کے لیئے مجھے آدھ پون گھنٹہ لگ گیا تھا اور جب میں نصف شب کو گھر واپس آیا تو ٹی وی پرکراچی سانحے کی بریکنگ نیوز سن کر مجھے کوئی زیادہ اچنبھا نہیں ہوا میرے دل میں دھڑکا پہلے سے موجودتھا۔
کراچی ایئر پورٹ پر کیا ہوا۔ یہ کوئی نیا واقعہ نہیں۔ اسی شہر میں مہران بیس پر پاک بحریہ کے دو اورین طیارے دہشت گردوں کے ہاتھوں تباہ ہو چکے ہیں۔ کامرہ میں دو مرتبہ دہشت گردی کا ارتکاب کیا گیا۔ دوسری واردات میں پاک فضائیہ کے اواکس طیارے کو نشانہ بنایا گیا۔ اورین اور اواکس طیارے دہشت گردوں کے لیے کسی خطرے کا باعث نہیں ہیں، ان کا خوف صرف بھارتی بحریہ اور فضائیہ کو لاحق ہے کیونکہ یہ ان کے خلاف اپنی فورس کی جوابی کارروائی کے لیئے راہنمائی کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ اورین اور اواکس کو کس نے تباہ کیا۔ کراچی ایئر پورٹ سے طالبان کے خلاف کبھی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی اور پاکستان کو بین الاقوامی فضائی رابطے سے کاٹ کر طالبان کو کیا فائدہ میسر آ سکتا ہے، اس کا جواب شاہد اللہ شاہد ہی دے سکتے ہیں لیکن ایئر پورٹ پر حملہ آوروں سے بھارتی ساختہ اسلحے کی برآمدگی سے سارا قصہ کھل جاتا ہے۔ حافظ محمد سعید نے بجا طور پر اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ بھارت کے نئے وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے ایجنڈے پرعمل شروع کر دیا ہے۔
اور مجھے بھی ذرہ بھر شک نہیں کہ کراچی ایئر پورٹ کا سانحہ مودی کی پاکستان کے خلاف اننگز کا آغاز ہے۔
مودی کی شاٹ یا شوٹ کا جواب دینے کے لیئے کم از کم عمران خان کو اپنی اس گھسی پٹی پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی کہ طالبان سے بہر صورت مذاکرات کیئے جائیں۔ اگر عمران خان اپنی اس حکمت عملی پر اصرار جاری رکھیں تو آئندہ جہاں کہیں دہشت گردی کی واردات ہو، وہاں عمران خان کو پیراشوٹ کے ذریعے اتار دیا جائے تا کہ وہ خودکش بمباروں کے ساتھ مذاکرات کا شوق پورا کر لیں۔ انکے ساتھ منور حسن، پروفیسر ابراہیم، سمیع الحق فضل الرحمن بھی ہولیں۔ میری عرفان صدیقی سے برسوں پرانی یاداللہ ہے اس لیئے انہیں اس مقدس مشن میں جھونکنے کی سفارش اور خواہش نہیں کروں گا۔
میرا قلم سوگوار ہے، اس کی آنکھوں سے خون ٹپک رہا ہے، وہ جو اس سانحے میں شہید ہوئے، اللہ ان کے درجات بلند کرے، ان کی دلیری کو قوم یاد رکھے گی اور ان کی قربانی کا جذبہ آنے والی نسلوں کے لیئے مشعل راہ ہو گا۔ ان کے پسماندگان کے غم و اندوہ میں پوری قوم شریک ہے، یہ پہلا سانحہ ہے جس پر قوم کا کوئی طبقہ اپنی الگ رائے کی چھابڑی سجائے نظر نہیں آیا۔
حتی کہ انٹرنیٹ پر چلنے والا ٹی وی چینل بھی رات بھر راہ راست پر رہا۔ اس نے ابھی تک کوئی درفنطنی نہیں چھوڑی۔
اور مجھے اب یقین ہو چلا ہے کہ جنرل راحیل شریف کو دہشت گردوں نے کھلا پیغام دے دیا ہے۔ ویری لاؤڈ اینڈ کلیئر اور یقین رکھیئے Very Much understood.(10 جون 2014ء)