خبرنامہ

دہشت گردی کی جنگ پر کج بحثی اور کج عملی….اسداللہ غالب

دہشت گردی کی جنگ پر کج بحثی اور کج عملی…..اسداللہ غالب

ٹرمپ نے دھمکی کیا دی کہ ہم حواس باختہ ہو گئے۔عمران خان ا ور نواز شریف نے کج بحثی کی یوں ابتدا کی کہ ہم نے اپنی نہیںامریکہ کی جنگ لڑی۔نواز شریف نے کہا کہ اگر نائن الیون کے وقت پاکستان میںجمہوری حکومت ہوتی تو کسی صورت وار آن ٹیرر کا حصہ نہ بنتی۔ عمران خا ن نے کہا کہ وہ تو پہلے بھی کہتے تھے کہ یہ ہماری نہیں ، امریکی جنگ ہے اور ہم خواہ مخواہ اس میں دھنستے چلے جا رہے ہیں، اسی لئے انہیں طالبان خان کا طعنہ سننا پڑا۔ان دونوں قائدین کی بات مان لی جائے تو ثابت یہ ہو اکہ پاکستان نے پندرہ برس تک جھک ماری اور ناحق اپنے چھ ہزار سپاہیوں اور افسروں کو شہید کروایاا ور ساٹھ ہزار کے قریب سویلین کی جانیں بھی ضائع ہو گئیں۔ معیشت کو ایک سوارب ڈالر کا الگ سے ٹیکہ لگوایا۔

مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں مولانا فضل الرحمن دوبارہ یہ نہ کہہ دیں کہ ڈرون سے کتا بھی مر جائے تو شہید ہو گا اور منور حسن کو بھی یہ کہنے کا موقع نہ مل جائے کہ ہم امریکی جنگ کاساتھ دینے والوں کو شہید نہیں مانتے، انہوںنے یہ بیان دیا اور فوج نے مطالبہ کیا کہ جماعت اسلامی اس پر معذرت کرے ، جماعت کی شوریٰ کا اجلاس ہواا ور لیاقت بلوچ نے کہا کہ جماعت معذرت نہیں کرے گی اور وزیر اعظم کو شکایت کرے گی کہ فوج سیاست میں دخل اندازی کر رہی ہے۔
یہ تو تھی کج بحثی اور اب کج عملی دیکھئے کہ امریکہ نے شکایت تو کی کہ حقانی گروپ ا ور افغان طالبان کی سرپرستی کر رہے ہو اور ہم نے ترنت جماعت الدعوۃ ا ور جیش محمد پر پابندیوں کا اعلان کر دیاا ور انکو چندہ دینے والوں کے لئے کروڑوں کے جرمانے عائد کرنے کی دھمکی دی۔ پنجابی میں کہتے ہیں ’’ڈگا کھوتی توں تے غصہ کمہار اوتے‘‘ یہی ہماری انتظامیہ نے کیا، کہاں حقانی گروپ اور کہاں جیش محمد ، ان کا دور پار کا واسطہ نہیں ،اور نہ کسی بھی امریکی بیان میں ان کا نام لیا گیا یا ذکر کیا گیا۔ا ور تواور ہم نے فلاح انسانیت کے لئے بھی چندہ جمع کرنے کو خلاف قانون قرار دے ڈالا۔اس کامطلب یہ ہوا کہ ہم انسانیت کی فلاح نہیں چاہتے اور نہ اس دین کے پیروکار ہیںجو کہتا ہے کہ کرو مہربانی تم اہل زمیں پر۔ خدا مہرباں ہو گا عرش بریں پر۔ دو ورز پہلے لاہور میں ایک علما اور مشائخ کانفرنس ہوئی ،اس میں کلیدی مقرر کے منہ سے نکلا کہ اسلام تو فلاح انسانیت کا دین ہے، پھر فوری طور پر انہوںنے زبان کی اس لغزش کو دور کرتے ہوئے کہا کہ اسلام انسانی فلاح اور نیکی کا دین ہے، گویا فلاح انسانیت کا لفظ بھی غیر قانونی ہو گیا، ابھی پشاور میں دفاع پاکستان کا جلسہ ہوا، اس میں ایک اعتراض یہ وارد ہوا کہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے اس میں شرکت کیوں کی، دوسرا گل یہ کھلا کہ حافظ سعید کواسلام ا ٓباد سے پشاور جانے سے روک دیا گیا، لاچار انہیں جلسے سے فون پر خطاب کرناپڑا ، جس ملک میں دفاع پاکستان کے نام پر جلسہ قابل اعتراض ٹھہرے، وہاں کچھ بعید نہیں کہ کسی روز کوئی یہ نہ کہہ دے کہ یہ جو واہگہ کے اگلے مورچے میںمشین گن لئے ایک جانباز چوکس بیٹھا ہے، وہ اصل میں بر صغیر میں امن ، سلامتی، محبت، یک جہتی شانتی،دوستی اور قربت کے تعلقات کی راہ میں رکاوٹ ہے، یہ میںنے ایسے ہی نہیں لکھ دیا کہ کہیں وطن کے محافظوں کے بارے میں یہ نہ کہہ دیا جائے جبکہ ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ ہم کئی بار اپنی افواج کی دفاع وطن کے لئے کی گئی کارروائیوں پر سخت مطعون کیا ہے، آپریشن جبرالٹر پر ہم نے اپنی افواج کا مذاق اڑایا، مشرقی پاکستان کے دفاع کے لیئے اکہتر میں لڑی جانے والی جنگ کو ہم آج بھی مطعون کرتے ہیں، کارگل کے آپریشن پر ہم اپنی فوج کو دشنام دیتے ہیں اور اگر ہماری زبانیں خاموش ہیں تو اڑتالیس میں کشمیر کے بڑے حصے پر بھارتی جارحانہ قبضے پر خاموش ہیں، ستر بر س سے جاری بھارتی افواج کے کشمیریوں پر وحشیانہ ظلم و ستم پر خاموش ہیں، سیاچن پر بھارت کے جارحانہ قبضے پر خاموش ہیں اور اکہتر میں مکتی باہنی کی کھلی سرپرستی کرنے پر خاموش ہیں ، اور اب مودی کہتا ہے کہ بلوچستان، کشمیر اور آزاد کشمیر بلتستان کے لوگوں کو حقوق دلائے گا تو ہم گنگ بنے بیٹھے ہیں ، ہم نے تو کل بھوشن کی مذمت کے لئے بھی زبان نہیںکھولی۔بلکہ اس لاڈلے کو اس کی ماںا ور بیوی سے ملاقات کروائی حالانکہ وہ عام سویلین قیدی نہیں ، ایک جاسوس اور دہشت گرد ہے، ہمارے سینکڑوںپاکستانی کئی برسوں سے بھارتی جیلوں میں بند ہیں، بھارت کوتوفیق نہیںہوئی کہ ان کی مائوں بہنوں کہ یہ بھی بتا دے کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔
دہشت گردی اور دفاع وطن کے لئے ہم کج روی، کج بحثی اور کج عملی کا شکار ہیں ، اس کے نتیجے میںمجھے سخت تشویش ہے کہ کہیں خدا نخواستہ ہمارے محب وطن عناصر کا حشرمصر کے سید قطب شہید جیسا نہ ہو، کہیں ان کا حشر بنگلہ دیش کے عبدالقادر ملا جیسا نہ ہو اور کہیں سے کوئی اتاترک اٹھ کر ہماری زبان، نسل اور ثقافت تک نہ بدل دے۔
عجب ستم ظریفی ہے کہ دہشت گردی کی جنگ پر پیپلز پارٹی کی قیادت بھی لڑکھڑا گئی جس کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے وائٹ ہائوس میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ یہ پاکستان کی جنگ ہے، اس لئے کہ اس میں ان کی پارٹی کی لیڈرا ور سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا ہے، دہشت گردی کی جنگ پر وہ تمام جماعتیں لڑکھڑا گئی ہیں جنہوںنے پشاور میں ڈیڑھ سو پھول جیسے بچوں کی شہادت کا بدلہ لینے کی قسم کھائی تھی اور نیشنل ایکشن پلان کو متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔
میرا سادہ ساسوال ہے کہ دہشت گردی کی جنگ امریکی جنگ تھی تو جنرل مشرف کے بعد اسے صدر زرداری نے کیوں جاری رکھاا ور ان کے بعد نواز شریف نے کیوں جاری رکھا ہوا ہے، پاکستان کی پارلیمنٹ اور حکومت ایک حکم دے کہ افواج پاکستان اپنی چھائونیوں میں واپس چلی جائیں، اس ایک حکم سے امریکی جنگ کا خاتمہ ہو جائے گا اور ا سکے بعد بہر حال وہ جنگ شروع ہو جائے گی جسے ہم اپنی جنگ سمجھ کر لڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔کیونکہ مغربی سرحد پر امریکی اور نیٹو افواج ا ور مشرقی سرحد پر بھارتی افواج مو ج مستی کے لئے مورچہ زن نہیں ہیں، ان کے کچھ مذموم عزائم ہیں جنکی تکمیل کے لئے انہیں سنہری اورمناسب موقع کا انتظار ہے اور ہم اپنی کج روی، کج بحثی اور کج عملی کی وجہ سے یہ موقع سونے کی طشتری میں رکھ کر اپنے مشترکہ دشمنوں کو پیش کر رہے ہیں۔