خبرنامہ

دہشت گردی کے پس پردہ اربوں کا بزنس کس کا ہے۔۔۔اسداللہ غالب

یہ کارپوریٹ بزنس ہے، اور یہ نیشنل ایکشن پلان کی زد میں آنا چاہئے، وفاق اور صوبوں کو تحقیق کرنی چاہئے کہ دہشت گردی سے جو طبقے فائدہ اٹھا رہے ہیں، کیاوہی تو ان کے سہولت کاراور ممدو معاون نہیں ہیں۔
دنیا میں جنگیں کیوں چھڑتی ہیں ، اس لئے کہ اسلحے کا بزنس فروغ پائے، جو ملک جنگیں چھیڑتے ہیں، وہی اسلحے کے بزنس سے پیسہ کماتے ہیں۔ان جنگوں کے پس پردہ ایسا ایسا از کار رفتہ ا ور دقیانوسی اسلحہ بھی فروخت کر دیا جاتا ہے جو زیادہ دیر پڑا رہے تو اسے زنگ لگ جائے، کیڑے کھا جائیں۔
تو دہشت گردی کی جنگ بھی کسی نہ کسی کا تو کاروبار ہو گا اور اس کے پیچھے بھی تو کسی بنیئے اورآڑھتی کا ہی ہاتھ ہو گا۔
نائن الیون سے ایک نیا سلسلہ چلا۔پاکستان بھی ا س کی لپیٹ میں آیا اور پچھلے تیرہ چودہ برسوں میں اس جنگ نے ہمارا اربوں کا نقصان کیا، یہ کہنا ہے حکومت کا۔ اس لئے کہ جہاں دہشت گردی ہوتی ہے ، وہاں سے سرمایہ بھاگ جاتا ہے۔،کارخانہ نہیں لگتا، لگا ہوا کارخانہ نہیں چلتا، پیسے والے لوگ آف شور کمپنیوں کا سہارا لیتے ہیں اور غریب لوگ فاقوں کا شکار رہتے ہیں۔وہ اپنے بچوں کو نہر میں پھینک دیتے ہیں۔
اس جنگ میں جو ایک عشرے سے زاید عرصے پر پھیلی ہوئی ہے، ساٹھ ہزار بے گناہ پاکستانی شہید ہوئے ، ان میں تین ہزار کے قریب پاک فوج کے جوان اور افسر بھی شامل تھے۔ مگر اسی عرصے میں کیا اتنے ہی لوگ ہسپتالوں میں نہیں مرے، اور اتنی ہی تعداد میں سڑکوں پر حادثات کا شکار نہیں ہوئے، اتنے ہی لوگ باہمی دشمنی اور غیرت کی بھینٹ نہیں چڑھے۔
ہم نے دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے ہر تدبیر کی مگر کیا ہسپتالوں میں علاج معالجے پر بھی کوئی توجہ دی، جواب ہے بالکل نہیں، کیا ہم نے باہمی دشمنیوں کے خاتمے کے لئے کوئی انتظام کیا، جواب ہے ہر گز نہیں ،اور کیا ہم نے ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لئے بھی لوئی ہاتھ ہاؤں مارے ، جواب ہے بالکل نہیں۔ ا س کا مطلب یہ ہو اکہ ہمیں بیماری سے مرنے والوں، حادثات میں جاں بحق ہونے والوں اور دشمنیوں میں جان سے ہاتھ دھونے والوں کی کوئی فکر لاحق نہیں۔ کیوں فکر نہیں ہے، شاید اس کام میں ہمارے کسی طبقے کا کوئی فائدہ نہیں، یعنی اس کی جیب نہیں بھرتی۔ ہم نے ساری توجہ دہشت گردی کی جنگ کے خلاف مرکوز رکھی۔کیا صرف ا س لئے کہ ایک تو اس میں امریکہ سے پیسہ ملتا ہے، اورہم ا س کی گڈ بکس میں آ جاتے ہیں۔
اور پھر اس جنگ کے پیچھے ایک لمبا چوڑا کاروبار بھی تو ہے جو مسلسل پھل پھول رہا ہے۔
آیئے ،دہشت گردی کے پس پردہ کاروبار کی تفصیل پر ایک سرسری نظر ڈالیں۔
سب سے پہلے سیکورٹی ایجنسیاں ہیں جو دھڑا دھڑ کھل رہی ہیں، جو بھی بوڑھے گھروں میں بیٹھے ہیں، ان کو بھرتی کر لیا جاتا ہے، فائر کرنے کے وہ قابل نہیں ہوتے، ان کو جو تنخواہ دی جاتی ہے، ا س سے دوگنی رقم اس شخص یا دفتر سے وصول کر لی جاتی ہے جو ان کی خدمات مستعار لیتا ہے۔
نائن ا لیون سے پہلے ہمارے ملک میں کتنی سیکورٹی ایجنسیاں تھیں اورا س کے بعد سے یہ کھمبیوں کی طرح کیسے اگیں، یہ ہر شخص جانتا ہے۔
ایک کاروبار سیمنٹ کا ہے ، ایک سریے کا ہے، ایک اینٹوں کا ہے، ایک راج، مستریوں کا ہے ایک دیہاڑی دار مزدوروں کا ہے۔ ایک کاروبار سی سی ٹی وی کیمروں کا ہے، ایک کاروبار سیکورٹی دروازوں کا ہے ، ایک کاروبار ہاتھ میں پکڑنے والے اسکینرز کا ہے، کیا گنواؤں اور کیا نہ گنواؤں،۔ یہ شیطان کی آنت کی طرح پھیل رہا ہے ا ورا س سے ہر کوئی نہال ہو رہا ہے۔اب سرکاری عمارتوں خاص طور پر اسکولوں اور کالجوں اور یونیورسٹیوں کو حکم ہوا ہے کہ بارہ فٹ بلند دیوار بنائیں۔ اس دیورا کے اوپر خاردار تار بچھائیں۔کسی نے یہ تماشہ دیکھنا ہو تو پنجاب یونیورسٹی کے ہزاروں ایکڑ رقبےء کے ارد گرد نئی فصیل دیکھ لے۔ اس رقم سے یورسٹی میں درجنوں نئے تحقیقی شعبے قائم ہو سکتے تھے جو اینٹ، گارے، سیمنٹ ، سریئے اور خاردار تاروں کی نذر ہو گئے ۔ ہمارے ہرا سکول کے باہر ایک مورچہ ہے،اس پر ایک سنتری کھڑا ہے، چاروں طرف سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں۔انسان سوچتا ہے کہ یہ اسکول ہیں یا قلعے ہیں۔مارکیٹوں ، پٹرول پمپوں، بنکوں کی شاخوں کے سامنے بھی یہ سارا نظام ہے اورا س کو چیک کرنے کے لئے سارا دن پولیس کی گاڑی متحرک رہتی ہے، اگر کہیں کمی نظرآئے تو اس کا چالان ، یاا س کی پیشی، نجانے کہاں۔ خرچہ ہی خرچہ۔پریشانی ہی پریشانی۔
دہشت گردی کی جنگ ساری دنیا لڑ رہی ہے، امریکہ ، اسپین، فرانس، بلجیئم اور برطانیہ۔ مگر کیا ان کے اسکولوں ، کالجوں اور یونورسٹیوں کے ارد گرد فصیلیں کھڑی کی گئیں، سی سی ٹی وی کیمرے ان ملکوں میں ایک مدت سے استعمال ہو رہے ہیں اور یہ اسٹاف کا نعم البدل ہیں کہ چوری چکاری نہ ہو، ورنہ دہشت گردی ہونے پر آئے تو اسے گے کلب کے باہر بھی نہیں روکا جا سکتا۔محفوظ تریں ایئر پورٹ کے لاؤنج میں بھی نہیں روکا جا سکتا، اس لئے نہیں روکا جا سکتا کہ دہشت گردی کا کوئی علاج نہیں ، کوئی توڑ نہیں۔مگر ان ملکوں نے اپنے ا وپر خوف کو طاری نہیں ہونے دیا، نائن الیون میں تین ہزار جانیں ضائع ہوئیں تو صدر بش نے کہا کہ نکلو، پارکوں کا رخ کرو، ساحل سمندر پر تفریح کرو، سینڈ وچ ا ور آئس کریم کھانے نکلو۔اور ہمیں کسی خطرے کی بھنک پڑتی ہے توپورے ملک کے سارے اسکول ، کالج ا ور یونیورسٹیاں بند۔ اور سیمنٹ ، سریئے، خاردار تاروں، سیکورٹی ایجنسیوں کا بزنس فروغ پذیر۔
ہم یا تو ڈرپوک قوم ہیں یا بے حد حساس یا بے حد ذمے داراور فرض شناس۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ سارے کاروبار کرنے والوں اور دہشت گردوں کا کوئی آپس میں ناطہ بھی ہے، بظاہر ہونانہیں چاہئے۔ لیکن یہ صاف نظرآتا ہے کہ دہشت گردی کی آڑ میں کاروبار خوب ہو رہا ہے۔کبھی کسی دہشت گرد نے کسی سیمنٹ کے کارخانے کو نشانہ نہیں بنایا کہ ا س سے وہ سیمنٹ پیدا ہوتا ہے جو ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے کام آتا ہے، کبھی کسی دہشت گرد نے سریئے کے کارخانے یا ڈپو پر حملہ نہیں کیا کہ یہ لوگوں کی ڈھال کے کام آتا ہے۔کبھی کوئی سیکورٹی ایجنسی بھی نشانہ نہیں بنی۔
میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس سارے بزنس اور دہشت گردی کا کوئی گٹھ جوڑ ہے۔
مگر ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ دہشت گردی نے ہماری معیشت کی کمر توڑ کر ر کھ دی ہے، جو نئے کاروبار چل پڑے ہیں، یہ بھی اربوں کے حساب سے کما رہے ہیں ۔
تو کیا یہ کہا جائے کہ یہ دہشت گرد ہمار ے بھلے کے لئے مارا ماری کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں نئے سے نیا کاروبار فروغ پائے، سریا فروخت ہو، سیمنٹ، ریت، اینٹیں، سی سی ٹی وی کیمرے ، سیکورٹی گیٹ اوراسکینرز دھڑا دھڑ بکیں۔اور سیکورٹی ایجنسیاں کھمبیوں کی طرح اگیں۔
صاحبو! دہشت گردی کی جنگ لڑنے کے لئے فوج ، آئی ا یس آئی، ایم آئی، ایف آئی اے ، آئی بی اورا سپیشل برانچ کافی ہیں ،ان کے علاوہ ملک میں سینکڑوں ایسے محکمے ہیں جو فعال نہیں اور جن کی وجہ سے میرا دعوی ہے کہ دہشت گردی کے مقابلے میں زیادہ اموات ہوتی ہیں۔ ہسپتالوں میں سڑکوں پر، باہمی دشمنی میں۔ان کو بھی تو کوئی بچانے والا خصم سائیں ہونا چاہئے۔
ویسے اگر کسی کے پاس کیلکولیٹر ہو توذرا حساب لگا لے کہ دہشت گردی کی وجہ سے ہماری معیشت کا جنازہ نکلا ہے یا اس دہشت گردی کی وجہ سے ہمارا کاروبار چمکا ہے۔
میں اتنا پتھر دل نہیں ہوں کہ یہ سوچوں کہ جن لوگوں کا بزنس چمکا ہے ، وہ دعا کرتے ہوں گے کہ دہشت گردی ختم نہ ہونے پائے، یہ دعا مانگنا بھی دہشت گردی کی سہولت کاری کے مترداف ہے تو کیا نیشنل ایکش پلان پر عمل درآمد کرانے والے اس طرف بھی دھیان دیں گے کہ اس نئے کارپوریٹ بزنس اور دہشت گردی کا آپس میں کیا تعلق ہے۔اگر کوئی ہے توا س کا توڑکیاجانا چاہیے۔