خبرنامہ

رائے ونڈ ان دی لائین آف ٹیرر…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

رائے ونڈ ان دی لائین آف ٹیرر…اسد اللہ غالب

پنجاب کے معزول اور معتوب وزیر رانا ثناء اللہ جنوبی طالبان کے وجود سے انکاری تھے۔ چیف منسٹر پنجاب شہباز شریف نے طالبان کوعلم دیا تھا کہ وہ پنجاب کو معاف رکھیں۔
رائے ونڈ کے حکمرانوں کو دہشت گردی کے خاتمے کا ایک ہی نسخہ از بر تھا کہ مذاکرات پر مذاکرات کیئے جائیں، ان کے دیہاڑی دار کالم نویس روز لکھتے تھے کہ ہر جنگ کے بعد مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑتا ہے تو کیوں نہ پہلے ہی مذاکرات کر لئے جائیں، عرفان صدیقی اور فواد حسن فواد کو مذاکرات کاری کے لیے کہیں پاتال سے ڈھونڈ نکالا گیا۔
مہینوں تک مذاکرات کا سوانگ رچایا گیا اورلوگ دہائی دیتے رہ گئے کہ حکومت، دہشت گردوں کو ممکنہ فوجی آپریشن کے خلاف مورچہ بندی کا موقع فراہم کررہی ہے۔
رائیونڈ سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کو صرف اپنے موروں اور امرودوں کی سکیوریٹی کی فکر لاحق تھی۔ اس میں وہ کسی ڈھیل کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔
مگر جمعرات کی صبح رائیونڈ کے اردگرد دیہات کے لوگ سحری کے لیئے بیدار ہوئے تو وہ تابڑ توڑ فائرنگ سے ہڑ بڑا کر رہ گئے۔ جاتی امرا کے محلات کی دہلیز پر پنڈارائیاں کی چٹی کوٹھی کسی تو را بورا یا شمالی وزیرستان کے مورچے کا منظر پیش کر رہی تھی، اندر سے ہر طرح کا فائر آرہا تھا اور باہر سفید کپڑوں اور دیہاتی وضع قطع کے چند گنے چنے لوگ دہشت گردوں کے سامنے ڈٹے ہوئے تھے۔ وہ دنیا کی ایک نامورانٹیلی جنس ایجنسی سے تعلق رکھتے تھے، وہی ایجنسی جس کو حامد میر کے قبیل کے لوگ دن رات کوستے رہتے ہیں۔
پنجاب پولیس جس نے ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر کے سامنے سیدھے فائر کر کے موقع پر ایک درجن افراد کو شہید کردیا تھا، پنڈارائیاں کے قیامت خیز فائر کے سامنے ان کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں مگر ایک ملکی انٹیلی جنس ایجنسی کا اہل کار لانس نائیک صابر حسین جان پر کھیل کر ایک دہشت گرد کوجہنم رسید کر چکا تھا، دوسرے دہشت گرد نے راکٹ لانچر سے صابر کے سینئر کو شدید زخمی کر دیا مگر عوام کے ہجوم نے دیکھا کہ یہ بہادرشخص چہرے سے خون کا فوارہ چھوٹنے کے باوجود اپنی گن پر جما بیٹھا تھا اور جب تک اس نے دوسرے دہشت گرد کوچیت نہیں کردیا، وہ مرہم پٹی کے لیے ہسپتال جانے سے انکار کرتا رہا۔
حکمرانوں نے مذاکرات کا سوانگ کیوں رچایا، میں ان کی نیت پیش نہیں کرتا مگر حقیقت میں دہشت گردوں کو مذاکرات کی آڑ میں سنہری موقع مل گیا کہ وہ آخری ہلے کے لیئے اپنے آپ کو تیار کر لیں۔ کون جانتا ہے آخری ہلے کا ٹارگٹ کون ہوگامگر جمعرات کی صبح دس گھنٹے کا لائیو معرکہ جاتی امرا کی چوکھٹ پرلڑاگیا۔
ملک کے اصل حکمرانوں کو دوپہر تک احساس ہو چکا تھا کہ وہ کس قدر گھیرے میں آ چکے ہیں، وزیراعلی پنجاب نے اپنی خاطر شہید ہونے والے سکیورٹی اہل کار صابر حسین کے لواحقین کیلئے ایک کروڑ کی خطیراعانت کا اعلان کیا۔
ہزاروں کنال پرمحیط جاتی امرا کے محلات، اردگرد، تہ در تہ حفاظتی حصار، اس حصار کے اندر جنگلی بلا بھی جھانکنے کو کوشش کرے تو اس کو مزہ چکھانے کے لیئے درجنوں جنگلی بلوں کو شوٹ کر دیا جاتا ہے۔ مگر پنڈ ارائیاں کی چٹی کوٹھی میں موجود دہشت گردوں کا ہدف کیا تھا، اخبارات میں ہی آیا ہے کہ ان کا نشانہ وزیراعظم کے حالات تھے مگر ان کا نشانہ، میں، آپ یا کوئی بھی بے گناہ ہو سکتا ہے، ہر وہ شخص جس کے پاس اپنے بچاؤکے لیئے لاٹھی تک نہیں لیکن میرا اور آپ کا ہم سبھی کا پہرہ، وہ لوگ دیتے ہیں جن کو ہم سخت سست کہتے ہیں، ان کو دن رات کوستے ہیں مگر پنڈ آرائیاں کے مقابلے نے ثابت کر دیا کہ جب ہم سورہے ہوتے ہیں تو ہمارے حقیقی پہریدار جاگ رہے ہوتے ہیں اور جان ہتھیلی پر رکھ کر دہشت گردوں کے سر پر پہنچ جاتے ہیں۔ وہ اپنا آج ہمارے کل کے لیے قربان کر دیتے ہیں۔
وزیراعلی نے ایک کروڑ کی خطیر رقم شہید اہل کار کے اہل خانہ کی نذر کی مگر خون کی قیمت تو کوئی نہیں ہوتی، خون کا سودا تو نہیں ہوسکتا۔ میں اپنی قوم کے ملک ریاضوں، میاں منشاؤوں سے نہیں بلکہ غریب عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ پائی پائی اکٹھی کریں اور قوم کی خاطر جان کی بازی لگانے والوں کے اہل خانہ کے دکھوں کا مداوا کریں، تا کہ کوئی شہباز شریف قومی خزانے کے بل بوتے پر ان پر احسان نہ جتا سکے، شہباز شریف نے بھی کچھ دان کرنا ہے تو اپنی جیب میں ہاتھ ڈالیں۔
پنڈ ارائیاں کے معرکے نے حکمرانوں کی قومی سکیورٹی پالیسی کی قلعی کھول دی ہے۔ جو حکمران اپنی دہلیز تک دہشت گردوں کو پہنچنے سے نہ روک سکیں، وہ عوام کی سکیور ٹی کیا کر پائیں گے۔ ویسے عوام کی سکیورٹی حکمرانوں کی سر دردی ہے بھی نہیں، وہ تو روز چین جاتے ہیں بلٹ ٹرین کے مزے لینے، تر کی جاتے ہیں، میٹروبسیں لینے، جرمنی اور برطانیہ جاتے ہیں نجانے کیا لینے یا دینے۔ پاکستان میں اس وقت آتے ہیں جب کوئی فیتہ کاٹنے کا موقع ملے، تین دن پہلے چیف منسٹر پنجاب نے آزادی چوک مینار پاکستان کے سگنل فری فلائی اوور کا فیتہ کاٹا مگر جمعہ کے روز پھر اسی چوک کوسگنل فری بنانے کے لیئے آدھے لاہور کی بتی بند رکھی گئی، یعنی پچاس لاکھ لوگ بجلی سے گھنٹوں محروم رکھے گئے۔ اگر جمعہ کوبھی اس فلائی اوور کا کام ہونا تھا تو تین دن پہلے فیتہ کاٹنے کی جلدی کیا تھی، کیا یہ خوف ہے کہ چودہ اگست سر پر ہے، کیا عمران کے ڈبے کھلنے کا خوف ہے، کیا قادری کے انقلاب مارچ کا خوف ہے اور اگر کوئی خوف نہیں ہے تو وہ ہے دہشت گردوں کا۔
پنڈ ارائیاں کے معرکے کے بعد وزیر اعظم اور وزیر اعلی کی آنکھیں کھل گئی ہوں گی، اب انہیں اپنی سکیوریٹی اور ساتھ ہی عوام کی سکیوریٹی کا احساس ضرور ہوا ہوگا۔
مگر حکومت کے پاس کوئی پلان ہی نہیں، وفاقی وزیر داخلہ روٹھ کر گھر بیٹھے ہیں صوبے کے وزیر داخلہ خود چیف منسٹر ہیں، انکے پاس سرکھجانے کی مہلت نہیں، انہیں چودہ اگست سے پہلے پہلے دو چارفلائی اوورز کے فیتے اور کاٹنے ہیں۔
میری اور آپ کی حفاظت کے لیے اوپر خدا ہے اور نیچے وہ ادارے جن کے اہلکار اس وقت جاگتے ہیں جب ہم سوتے ہیں اور جب تک ہم سو کر اٹھتے ہیں، ان میں سے کوئی نہ کوئی جام شہادت نوش کر چکا ہوتا ہے۔ شہید صابر حسین تمہیں سلام تمہاری صابر ماں کو سلام تمہارے صابر باپ کو سلام!(19 جولائی 2014ء)