خبرنامہ

راج کرے گی پی ٹی آئی…کالم اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

راج کرے گی پی ٹی آئی…کالم اسد اللہ غالب

تقسیم سے پہلے ایک نعرہ بہت گونجتا تھا کہ راج کرے گاخالصہ باقی رہے نہ کوئی۔اب ا سکی جگہ میںنیا نعرہ تجویز کرتاہوں کہ راج کرے گی پی ٹی آئی باقی رہا نہ کوئی۔گلیاں ہو گئیاں سنجیاں وچ مرزا یار پھرے۔
میں ماہر علم نجوم نہیں ہوں، نہ میرے پاس طوطے ہیں جوفال نکالتے ہیں۔نہ میں سازشی تھیوریوں پر یقین رکھتا ہوں۔مجھے تو جو نظر آتا ہے وہی لکھوں گا۔ پی ٹی آئی نے پہلے مرحلے میں نگرانوں کے لئے ایسے نام دیئے جن کے بارے میں کھلم کھلا کہا جاسکتا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کے گھریلو ملازم ہیں۔پھر پی ٹی آئی نے اسٹریٹیجی بدلی اور بی ٹیم کی فہرست سے نام دے دیئے۔ یہ ایسے لوگ تھے جنہیں ٹیکنو کریٹ کہا جاسکتا ہے۔ مگر ان میں سے بھی کچھ نام ایسے تھے جو غیر جانبدار نہیں تھے یعنی مسلم لیگ ن کے مخالف تصور کئے جاتے تھے۔ ان کی تحریریں اور ان کے ٹاک شوز میں ریمارکس اس امر کی گواہی دیتے ہیں۔پنجاب کے نگران چیف منسٹر ان میں سے ایک تھے، پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے ، یہاں سے ن لیگ کو ہروا دیا جائے اور پی ٹی آ ئی کی جیت کا راستہ ہموار کر دیا جائے تو مشن مکمل ہو جائے گا۔
جس روز پنجاب کی نگران کابینہ نے حلف اٹھانا تھا،مجھے دن کے گیارہ بجے کے قریب ایک فون آیا کہ ا ٓپ کا شاگرد ڈیڑھ بجے حلف لے گا۔ مجھے عام حالات میں انتہائی خوشی ہوتی کہ ایک جاننے والے کابینہ میں شامل ہو رہے ہیں اور مجھے یہ بھی یقین تھا کہ وہ لازمی طور پر وزیر اطلاعات مقرر ہوں گے۔ مگر پچھلے دو تین ماہ میں وہ تین چار بار میرے گھر آ چکے ہیں یہ کہنے کے لئے کہ ن لیگ کا اب کوئی چانس نہیں رہا، میں ا سکی طر ف داری چھوڑوں اور پی ٹی آئی کے حق میں لکھنا شروع کروں۔ ا نہوںنے پیش کش کی وہ میرے پاس عمران خان کو بھی لا سکتے ہیں یا ان سے فون پر بات کروا سکتے ہیں یا وہ لاہور آ ئیں گے تو چائے پر بلا سکتے ہیں۔ میںنے کہا کہ عمران کئی بار میرے گھر آ چکے ہیں اور میںنے ان کی چندہ مہم کابھرپور ساتھ دیا تھا۔ کارگل پر کالم لکھنے کی پاداش میں میری ٹانگ توڑی گئی تھی تو جہاں کئی اور ٹاپ کے سیاسی لیڈرز میری عیادت کے لئے آئے، وہاں عمران خا ن بھی اظہار ہمدردی بلکہ اظہار یک جہتی کے لئے آئے تھے، میں نے انہیں کالم نویسوں سے ملاقات کے لئے گھر مدعو کیا تو وہ تپتی دوپہر میں پسینے سے شرابور ایک چھوٹی گاڑی میں میرے ہاں تشریف لائے ،۔ اسی طرح میں لاہور کے سینئر کالم نویسوں کو ان کے گھر بھی لے گیا تھا جہاں انہوںنے ایک پر تکلف عشایئے کا اہتمام بھی کر رکھا تھا۔اس پس منظر میں عمران سے ملنا تو کوئی اہمیت نہیں رکھتا مگر ا س مرحلے پر میں ان کی طرفداری کرنے سے قاصر ہوں کیونکہ مجھے اب تک ان کا کوئی ایسا کارنامہ نظر نہیں آیا جسے اچھا کہہ سکوں ۔ ہاں وہ الیکشن جیت جائیں اور کوئی ڈھنگ کے دو چارکام کریں تو مجھے ان کی ستائش کرنے میں کوئی عار نہیں ہو گی۔ میری حمائت اور مخالفت کا پیمانہ کسی کی کارکر دگی سے ہے۔ نواز شریف کی بھارت نواز پالیسی اور دہشت گرد ی پالیسی پر میںنے کڑی تنقید کی اور میری کتاب ضرب عضب ا سکی شاہد ہے، مگر نواز شریف نے ضرب عضب کی حمایت کر دی تو مجھے ان کی مخالفت کی کوئی اور وجہ نظر نہیں آتی تھی بلکہ انہیں جس طریقے سے نکالا گیا، مجھے وہ پسند نہیں آیا۔ اب ان کی پارٹی کو ملیا میٹ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں ، یہ پری پول رگنگ ہے اور پی ٹی آئی کے حق میںسارے فیصلے آ رہے ہیں حتی کہ اس کے حامی شیخ رشید بھی رعائت کے حقدار ٹھہرے ہیں، مجھ سے کوئی پوچھے کہ کیا نواز شریف نے کرپشن نہیں کی تو میرا جواب ہو گا کہ ابھی تک کسی ملکی عدالت نے انہیں اس کے لئے مورد الزام نہیں ٹھہرایا، اور میں ذاتی طور پر نوز شریف سے ا سقدر قربت نہیں رکھتا کہ کوئی اپنی بھی رائے دے سکوں ، نواز شریف کے ایک ساتھی سعید احمدکے بارے میںبار بار لکھ چکا ہوں کہ وہ انتہائی دیانت دار ہیں اور میں ان کی صفائی میں خانہ کعبہ کی چوکھٹ پکڑ کرقسم کھا سکتا ہوں۔ مگر ان سب لوگوں کودیوار سے لگایاجا رہا ہے، میں ان کی مدد کیا کروں۔
اب جو نگران سلسلہ چلا ہے تو لگتا یہ ہے کہ یہ پی ٹی آ ئی کے کنٹرول میں ہے، کم از کم پنجاب جیسا بڑا صوبہ تو ا سکے شکنجے میں ہے اور جس طرح عمران خان نے تین گھنٹے کے اندر زلفی بخاری کو قانون کے شکنجے سے نکلو اکر جہاز میں بٹھایا اور ملک سے باہر لے گئے اس سے تو لگتا ہے کہ وفاق کے معاملات بھی عمران کے کنٹرول میںچلے گئے ہیں۔ پنجاب کے چیف منسٹر پر اقربا پروری کا الزام ہے کہ ایک رشتے دار کو کابینہ میں شامل کیا۔ ایک نوجوان بلکہ کم سن وزیر اطلاعات کا پس منظر میں بیان کر چکا ہوں۔ شوکت جاوید اور ظفر محمود بھی میرے جاننے والوں میں سے ہیں مگر میں ان کے سیاسی رجحانات کا علم نہیں رکھتا۔وفاق میں جس طرح عمران خان آج من مانی کر رہا ہے اور آئین اورقانون سے جس طرح کھیل رہا ہے اس سے مجھے جنرل ضیا الحق کے یہ الفاظ یاد آتے ہیں کہ آئین کاغذ کے چند ٹکڑے ہیں ، میں جب چاہوں انہیں بوٹوں تلے مسل سکتا ہوں ، اسی طر ح نواز شریف نے اپنے ایک سابقہ دور میں کہا تھا کہ یہ ا ٓئین میرے راستے میں رکاوٹ ہے۔ اب اگر عمران خان بھی یہی تیور دکھا رہا ہے تو پھر تبدیلی کہاں آئی، ہاں تبدیلی یہ ہے کہ بغیر الیکشن لڑے عمران خان حکومت کے مزے کر رہا ہے۔جیسا کہ افواہیں ہیں کہ الیکشن ملتوی ہو جائیں گے تو عمران خان کا یہ عبوری اقتدار بھی طول پکڑ جائے گا۔
نگران حکومتیں بن رہی تھیں تو کہا گیا کہ ان کا توکوئی بزنس نہیں ہوگا، صرف روز مرہ کے کام نپٹائیں گے مگر اب ان نگرانوںنے دانت دکھانے ہی نہیں بلکہ استعمال کرنے بھی شروع کر دیئے ہیں اور ایک سانس میں کئی تبادلے کر ڈالے ہیں۔ کیاجن لوگوں کو بد لا گیا ہے ان کی نیت پر شک تھا کہ وہ شفاف الیکشن نہیںکروائیں گے، کسی کی نیت سمجھنے کے لئے وہ کون سا آلہ ہے ، پھر کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ ایک اعلیٰ افسر کو آپ بد دیانت کہیں جبکہ اس کے خلاف کوئی الزام نہ ہو۔ کسی کا وفادار ہونا تو کوئی الزام نہیں، بیو روکریٹ کاکام حکم ماننا ہے انہیں نگران بھی جو حکم دیں گے وہ ماننے لگ جائیں گے۔مگر ابھی ان تبادلوں پر اکتفا نہیں ،پی ٹی آئی کے ترجمان نے نادرا کے چیف کوتبدیل کرنے کا بھی مطالبہ کر دیا ہے، یہ مطالبہ نہیں ایک لحاظ سے حکم ہے تاکہ وہ اپنی مرضی کا نادرا چیف لا کر مرضی کے نتائج لے سکے ۔ پی ٹی آئی اتنی ہی طاقتور ہو گئی ہے تو ایک حکم مودی جی کو بھی جاری کرے کہ وہ کشمیر خالی کر دے اور ایک حکم برما حکومت کو دے کہ وہ روہنگیا پر ظلم ختم کرے، پی ٹی آئی ابھی اتنی طاقت ور نہیں کہ میں اس سے کہوں کہ وہ اسرائیل کے دست ستم کو کاٹ کر رکھ دے۔
پی ٹی آئی ابھی سے لاڈ اور نخرے دکھا رہی ہے تو اسے خدا نخواستہ حکومت مل گئی تو کیا کیا قیامتیں نہیں ڈھائے گی ، اللہ خیر کرے اور لوگوں کوہر شر اور بلا سے محفوظ رکھے۔
امید ہے احمد وقاص ریاض اپنے ذکر پر برا نہیں منائیں گے۔یہ ایک امر واقعہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ پی ٹی آئی کے اتنے ہی قریب اور حق میں تھے توا نہیں نگران کابینہ کا منصب قبول نہیں کرنا چاہئے تھا، یا وہ میرے سامنے اس کاا ظہار نہ کرتے۔ الیکشن لڑتے ،جیت کر چاہے وزیر اعلی بن جاتے۔یہ میری ان کے لئے ایک نیک تمنا ہے کہ میں انہیں کہاں دیکھناچاہتا ہوں۔