خبرنامہ

رفیع بٹ کا یوم شہادت…..اسداللہ غالب

رفیع بٹ کا یوم شہادت…..اسداللہ غالب

پاکستان کا پہلا یوم سیاہ گیارہ ستمبر انیس سو اڑتالیس کا ہے جب بانی پاکستان قائد اعظم اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ وہ طویل عرصے سے ایک جان لیوابیماری کا شکار تھے مگر آفریں ہے اس قائد پر کہ انہوںنے اپنی بیماری کو عیاں نہیں ہونے دیا ورنہ پاکستان کی آزاد اسلامی جمہوری مہذب ریاست تشکیل نہ پا سکتی۔

پاکستان کے قیام کے دشمن علی ا لاعلان کہہ رہے تھے کہ نئی مملکت چند روز کے اندر ڈھیر ہو کر رہ جائے گی۔قائد کی رحلت کے دو ہفتے بعد ملک دشمنوںنے سازش کی اور نو آزاد مملکت کی ایئر ویز کے ایک جہاز کو وہاڑی کے نزدیک نشانہ بنایا جس میں ملک کی ممتاز شخصیات شہید ہو گئیں۔ ان میں قائد اعظم کے قریبی ساتھی اور ممد و معاون رفیع بٹ بھی شہید ہو گئے۔وہ بر صغیر کے ایک سر کردہ صنعتکار تھے۔
یہ ملک کا دوسرا یوم سیاہ تھا ۔ چھبیس نومبر انیس سو اڑتالیس۔ رفیع بٹ کا کارخانہ موجودہ قذافی سٹیڈیم کے مقابل گارڈن ٹائون کی وسیع زمین میں پھیلا ہوا تھا جہاں قائد اعظم ایک بار تشریف لائے اور رفیع بٹ نے کارخانے کے دروازے پر اپنے قائد کاا ستقبال کیا، ان کے گلے میں ہار پہنائے اور پھر اندر ایک پر جوش میٹنگ میں رفیع بٹ نے مسلم لیگ کی تحریک کو منظم اور سرگرم کرنے کے لئے خطیر رقم کا عطیہ بھی پیش کیا۔
یہ اس دور کا قصہ ہے جب متحدہ ہندوستان میں صنعت و حرفت میںمسلمانوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر تھا مگر رفیع بٹ نے خداداد صلاحیتوں کو کام میں لاتے ہوئے ایک جدید ترین کارخانہ قائم کیا جس میں آلات جراحی تیار کئے جاتے تھے ا ور جنگ عظیم کی وجہ سے ان کے سامان کی بہت زیاد ہ مانگ تھی اور وہ کثیر پیمانے پر اپنے آلات دوسرے ممالک کو برآمد کرتے تھے، ان کی سب سے بڑی گاہک برطانوی فوج تھی۔
ایک بار پھر ا س دور کا نقشہ سامنے رکھئے، ایک ہزار سال تک بر صغیر پر حکومت کرنے والے مسلمان غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے، ہندو اپنی عیاری ، ہوشیاری اورچوکسی کے باعث انگریز دربار میں بھی پیش پیش تھے اور ملازمتوں پر بھی اس کا قبضہ تھا ۔ چھوٹے بڑے کارخانے بھی ہندوؤں کی ملکیت میں تھے اور ہر کاروبار، درا ٓمد اور برا ٓمد پر بھی ہندوؤ ہی کی اجارہ داری تھی، مسلمان ہر لحاظ سے پس ماندہ تھے، اس حال میں انگریز ہندوستان کو چھوڑ کر چلا جاتا تو مسلمان سراسر خسارے کا شکار ہو جاتے اور ہمیشہ کے لئے ہندوؤں کے قدم چاٹنے پر مجبور رہتے۔ اس خدشے کے پیش نظر قائداعظم اور دیگر مسلم راہنمائوںنے ایک الگ مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا مگر مشکل یہ تھی کہ اس ملک گیر تحریک کو رواں دواں رکھنے کے لئے سرمائے کی کمی تھی ، اگرچہ بنگال کے نواب زادگان نے دامے درمے مدد کی مگر پنجاب میں تمام رئوسا انگریز کے کتے نہلانے پر مامور تھے، بڑی بڑی جاگیریں لینے والی اشرافیہ کس طرح قائد اعظم کا ساتھ دیتی، وہ تو یونینسٹ کے پلیٹ فارم پر مسلم لیگ کے خلاف متحد ہو گئے۔ اس گئے گزرے دور میں رفیع بٹ جیسے کارخانہ داروں کا مسلم لیگ کے ساتھ کھڑے رہنا غنیمت تھا۔
قائداعظم کے اس ساتھی کی شہادت کے سانحے پر نصف صدی سے زائد عرصے تک پردہ پڑا رہا، اس لئے کہ شہید کے بیٹے امتیاز رفیع کو اس سانحے کی تفصیلات تو کیا، اس کی اجمالی تصویر کا بھی علم نہ تھا، وہ اپنے والد کی شہادت کے وقت صرف ایک ماہ کا بچہ تھاا ور اس کی ماں زیتون بیگم اسے بتایا کرتی تھیں کہ اس کا والد ایک عظیم انسان تھا، اس کے وسیع روابط تھے مگر اس سے زیادہ یہ ماں بھی کچھ نہیں جانتی تھی، بس گھر میں تصویروں کا ایک ڈھیر تھا جو امتیاز رفیع بٹ نے بڑے ہونے پر ہال روڈ کے ایک پلازہ میں اپنے دفتر کی دیواروں پر سجا لی تھیں، میں نے ان دیواروں پر ایک نظر ڈالی، ایک پر شکوہ منظر بنتا تھا، میںنے امتیاز سے پوچھا کہ اپنے والد کے بارے میں کچھ مزید بتائو مگر وہ خاموش ہو کر رہ جاتا ۔ اسے صرف ایک بات کا علم تھا کہ اس کے والد ایک ہوائی حادثے میں شہید کئے گئے تھے، میرے لئے یہ اشارہ کافی تھا اور میںنے نوائے وقت کی لائبریری سے پرانی فائلیں کھنگالنا شروع کر دیں ۔ اچانک میںنے ستائیس نومبر انیس سو اڑتالیس کا اخبار دیکھا، ہوائی حادثے کی خبر پورے صفحے پر پھیلی ہوئی تھی، اور لیڈ اسٹوری میں لکھا تھا کہ ایک ہوائی حادثے میں رفیع بٹ بھی شہید ہو گئے، اسی صفحے پر بائیں طرف ایک کونے میں سیاہ حاشیے میں ایڈیٹر نوائے و قت جناب حمید نظامی کی طرف سے تعزیتی شذرہ لکھا تھا تعزیتی شذرہ عام طور پر اخبار کے اداریئے کے صفحے پر اندر ہوتا ہے مگر یوں لگتا ہے کہ رفیع بٹ اپنے زمانے کی ایک ایسی عظیم الشان ہستی تھیں کہ حمید نظامی جیسے بزرگ صحافی نے ان کی تعزیت کے لئے صفحہ اول کاا نتخاب کیا۔ میرے لئے رفیع بٹ کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے یہ کافی تھا، میںنے بزرگ صحافیوں ، میم شین ممتاز احمد خان، عبداللہ ملک ، زیڈ اے سلہری اور ملک تاج الدین سے بات چیت کی، پتہ چلا کہ رفیع بٹ نہ صرف ایک ممتاز کارخانہ دارا ور سرمایہ دار تھے بلکہ صحافت میں اعلی حیثیت کے مالک تھے ، انہوںنے ایک نیوز ایجنسی بھی شروع کی ا ور قائد اعظم کے حکم پر ایک روزنامہ اخبار بھی جاری کیا۔ اس دور میں مسلم لیگ اور قائد کا پیغام پہنچانے والے بہت کم اخبار تھے، ایک نوائے وقت تھا یا زمیندار جس کی آئے روز ضمانت ضبط کی جاتی تھی۔ا س دور میں ایک انگریزی اخبارا ور ایک نیوز ایجنسی کے اجراء نے پنجاب کے علاقے میں مسلم لیگ اور قائد اعظم کو مقبول بنانے میں اہم کردارا دا کیااور انیس سو چھیالیس کے الیکشن میں مسلم لیگ کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی۔
اس تحقیق نے نوجوان امتیاز رفیع بٹ کے حوصلے بلند کئے اور انہوںنے مزید تحقیق کے لئے اپنے ایک دوست شبیر زیدی سے درخواست کی جو تاریخی آرکائیوز سے قائد رفیع خط و کتابت تلاش کر لائے، امتیاز نے جنیوا سے خالد حسن کو بلا کر اپنے والد پر کتاب لکھنے کی درخواست کی ، پھر انہوںنے نامور مئورخ سید رضی واسطی سے رابطہ کیا جنہوںنے برسوں کی تحقیق وتفتیش کے بعد ایٹ قائد سروس کے عنوان سے ایک مبسوط کتاب مرتب کی ہے۔ جس میں نادر دستاویزات شامل کی گئی ہیں۔
آج رفیع بٹ کے یوم شہادت کے اعتبار سے بڑی خبر یہ ہے کہ امتیاز رفیع بٹ نے لندن کے ایک معروف ادارے کو اپنے والد پر ڈاکو منٹری تیار کرنے کا معاہدہ کیا ہے ، اس فلم میں مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کے ایک تابناک،سنہری اور فیصلہ کن دور کاا حاطہ کیا جائے گا۔
رفیع بٹ کی یاد میں ایک تھنک ٹینک کے طور پر جناح رفیع فائونڈیشن کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کے مختلف اہم مواقع پر اجلاس منعقد ہوتے ہیں اور ان میں ملک اور بیرون ملک کے ممتاز دانشو ر اور محقق ملکی اور قومی ایشوز پر بحث وتمحیص میں حصہ لیتے ہیں۔
آج ستر سال بعد ہم رفیع بٹ کی یاد تازہ کر رہے ہیں تاکہ ان کی خدمات اور ان کے تاریخ ساز کردار کو نئی نسلوں کے سامنے پیش کیا جا سکے۔شاعر کہتا ہے کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے۔
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا