خبرنامہ

رمپ صاحب !میرے پاس آپ کے اعتراضات کا جواب نہیں۔۔اسداللہ غالب

امریکی صدر ٹرمپ اگر ٹھیک تیرہ گھنٹے پہلے تقریر کر لیتے تو انہیں ہمارے فوجی ترجمان تمام اعتراضات کا شافی جواب دے سکتے تھے۔
میں اور باقی پاکستانی عوام حقائق سے بے بہرہ اور نا بلد ہیں۔اس لئے ٹرمپ کے کہے ہوئے کو سچ ماننے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ کار نہیں۔
ٹرمپ کا بڑا اعتراض یہ ہے کہ پاکستان امریکہ کو دھوکہ دے رہا ہے۔ پیسے بھی بٹور لیتا ہے مگر جن دہشت گردوں کی سرکوبی امریکی چاہتے ہیں، انہیں پالتا رہتا ہے۔
ظاہر ہے کہ ٹرمپ صاحب سچ بول رہے ہیں کیونکہ جن پاکستانیوں کو امریکہ نے پیسے دیئے اور انہوں نے حکم کی سرتابی کی، ان کی فہرست امریکی کمپیوٹر ٹر میں موجود ہے، ٹرمپ صاحب ذرا تکلیف فرمائیں اور کمپیوٹر کھول کر اس فہرست کا معائنہ کریں اگر اس میں ایک نام جنرل پرویز مشرف کا بھی ہے تو اس شخص کو امریکی ادارے ابھی تک توازتے چلے جا رہے ہیں ، یہ ادارے انہیں لیکچر کی دعوت دیتے ہیں اور معاوضے میں ڈالروں کی بھاری تھیلی عطا کرتے ہیں۔ہپ جنرل صاحب آئندہ امریکہ میں کہیں لیکچر دینے آئیں یا ا نجیو گرافی کے لییئے کسی امریکی ہسپتال سے رجوع فرمائیں تو ان سے پہلے تو پچھلا حساب نبٹا لیجئے، ظاہر ہے آپ کے دیئے ہوئے پیسے ان کے بنک اکاؤنٹوں میں پڑے ہیں اور یہ بھی آپ کی دسترس میں ہیں ،انہیں سر بمہر کرکے اپنے پیسے واپس لے لیجیئے اور خدا کے لئے پاکستانی قوم کو پیسے بٹورنے کا طعنہ واپس لیجیئے۔عام پاکستانی کے اوپر آپ کاایک ڈالر بھی حرام ہے۔
اگر کچھ پیسے آپ نے مشرف کے جانشین جنرل کیانی کو دیئے ہوں جو چھ سال تک اپنے منصب پر رہے اور جن کے دور میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے کلائمیکس پر تھی،اگرچہ ان کے دور میں کیری لوگر بل آگیا تھا جس میں لکھ دیا گیا ہ آئندہ کوئی امریکی امداد حکومت پاکستان یا اس کے ذیلی اداروں کی نہیں دی جائے گی بلکہ این جی اوز کے ذریعے اسے عوام تک پہنچایا جائے گا، پھر بھی جنرل کیانی نے کوئی حصہ وصول کیا ہو تو ان سے کہیں بیٹھ کر حساب کرلیجئے، پتہ نہیں کہ وہ پاکستان میں ہیں یا �آسٹریلیا میں اپنے بھائی صاحب کے پاس۔ وہ ہماری عدلاتوں کی دسترس سے باہر ہیں، ہمرا زور تو وزیر اعظم پر چلتا ہے ، وہ ہم نے چلا دیا اور ایک وزیر اعظم کو گھر بھجوا دیا ہے۔ امریکہ براہ کرم ان آرمی سربراہوں کے معاملات کے سلسلے میں ہم عوام کو ہر گزمطعون نہ کرےء۔
مجھے احسا س ہے کہ ٹرمپ صاحب کے ایک اعتراض میں وزن ہے کہ پاکستان نے آپ کے خلاف دہشت گردی میں ملوث عناصر کی سرکوبی کے بجائے ان کی پیٹھ ٹھونکی۔اس اعتراض میں اس لئے بھی وزن ہے کہ آپ جس کو اپنا دشمن نمبر ایک خیال کرتے تھے، وہ ایبٹ آباد کے مزے لیتا رہا۔مگر وہ افغانستان سے کیسے بچ نکلا، آپ کے سٹیلائٹ تو اس زمین کے ذرے ذرے پر نظر رکھتے ہیں۔ آپ کی سی �آئی اے کے ایک سربراہ نے بڑے تیقن کے ساتھ کہا تھا کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں پناہ گزین ہے اور جس دن اس کا سراغ مل گیا توامریکہ اس پر سرجیکل اسٹرائیک کرنے سے دریغ نہیں کرے گا، شکر ہے کہ اسامہ ایبٹ آباد کی ایک بڑی حویلی میں تھاکہیں موچی دروازے کی پانچویں منزل میں چھپا ہوتا تو آپ کے میزائلوں سے پرانا لاہور ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتا۔
کوئٹہ شوری کا بھی آپ شور مچاتے رہتے ہیں، ملا عمر کو بھی شاید یہیں کہیں شہید کیا گیا اور ان کے بعد ملا اختر منصور تو واضح طور پر پاکستان میں ہی ٹارگٹ کیا گیا۔ ان شواہد کے بعد تو میں آپ کو جھوٹا کہنے کی جسارت نہیں کر سکتا کیونکہ آپ میرے خلاف عالمی عدالت میں چلے گئے تو میں اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہہ سکوں گا۔
ویسے جہاں تک مجھے علم ہے اور جو کچھ فوجی ترجمانوں کے ذریعے سامنے آیا وہ تو یہی تھا کہ ضرب عضب ہو، سوات آپریشن ہو ، فاٹا کا کوئی آپریشن ہو ، یاا ب ردا لفساد ہو، ان میں بلا تمیز دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، میں تو اپنی فوج کے کے کہے پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کرنے پر مجبور ہوں، میں نے وقتی طور پر یحی خان کے اس اعلان کو بھی حقیقت تسلیم کر لیا تھا کہ ایک محاذ پر جنگ بند ہو جائے تو ا س کا مطلب یہ نہیں کہ جنگ ختم ہو گئی، ہم مغربی پاکستان میں جنگ جاری برکھیں گے مگر رہے نام اللہ کا، مشرقی پاکستان ہمارے ہاتھ سے نکل گیا اور کسنجر لکھتا ہے کہ مغربی پاکستان کو بھی اندرا گاندھی ہڑپ کرنے پر تلی بیٹھی تھی، مگر امریکہ نے اسے ایٹمی حملے کی دھمکی دے کر اس خطرناک کھیل سے باز رکھا۔ یہ تو امریکہ کا پاکستان پر سراسر احسان عظیم تھا ورنہ ہم اکہتر میں ہی دنیا کے نقشے سے معدوم ہو جاتے۔ شاید آپ نے ابھی اپنے خادم پاکستان سے کچھ ضروری کام لینے تھے اور ایک کام تو آپ نے یہ لیا کہ اپنی حریف سپر طاقت سوویت روس کا بولورام کروا دیا،دوسرا فریضہ بھی پاکستان بڑے فدویانہ انداز میں نبھا رہا ہے اور جو کام صلیبی جنگوں میں نہیں ہو سکا۔ وہ آپ ہم سے لے رہے ہیں، پتہ نہیں یہ دہشت گرد کہاں ٹرنینگ لیتے ہیں،کس سے لیتے ہیں، ان کو اسلحہ کون دیتا ہے، ہاں ، ویسے داعش کے سلسلے میں آپ نے اپنے پتے دکھا دیئے ہیں اور داعش کے جو عناصر شام میں جہاد کر رہے ہیں، ان کی مالی ا ور فوجی امداد کے بل اامریکی کانگرس منظور کرتی ہے، کیا پتہ حقانی گروپ وغیرہ کو کون پروان چڑھا رہا ہے، اگر یہ کام پاکستان میں ہو رہا ہے تو یقینی بات ہے کہ آپ ہی کے کچھ مخلص خادم یہ نیکی کر رہے ہوں گے تاکہ آپ کو پاکستان کے خلاف شب و ستم کا موقع مل سکے۔ورنہ ہم جانتے ہیں کہ حقانی ہوں یا غیر حقانی سبھی ہماری گردنیں کاٹتے ہیں۔
میں تو اپنے جنرل غفور صاحب سے التماس کروں گا کہ وہ امریکہ کو سمجھائیں کہ وہ بلیم گیم بند کرے۔ جنرل صاحب کے پاس ہر قسم کے دہشت گردوں کی لسٹیں موجود ہیں اور جن جن کے خلاف پاکستان نے اب تک کاروائی کی ہے۔ اس کی ساری تفصیل بھی ہو گی۔ وہ یہ سارا کچا چٹھا ٹرمپ صاحب کے سامنے رکھیں تاکہ ان کی شکایات کا ازالہ و سکے۔ہم عام پاکستانیوں کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ حقانی گروپ کیا ہے ، کہاں ہے، کس کے خلاف لڑتا ہے ، کیوں لڑتا ہے۔ہم ٹرمپ صاحب کو کیا جواب دیں۔
یک دھمکی یہ ہے کہ امریکہ پاکستان کے خلاف حملہ کرے گا۔یہ دھمکی نئی نہیں، امریکہ ا س سے پہلء پاکستان پر کئی حملے کر چکا ہے، ڈرون حملے تو گنے نہیں جا سکتے، سلالہ پر حملہ ہوا اور ایبٹ آباد میں پاکستان کے اقتدار اعلی کی اینٹ سے اینٹ بجائی گئی۔ ہم امریکہ پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ کسی ڈرون کو نہیں مارا، ایبٹ آابد میں اترنے والے ہیلی کاپٹروں کوبھی ٹارگٹ نہیں کیا۔ ہم کیا ، ہماری مجال کیا۔بسم اللہ ! جو مزاج یار میں آئے۔