خبرنامہ

روہنگیا کی تڑپ، آصف جاہ کی تڑپ…..اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

روہنگیا کی تڑپ، آصف جاہ کی تڑپ…..اسداللہ غالب

ابھی شامی مہاجرین کی طرف سے وہ مطمئن نہیں ہو پائے تھے کہ روہنگیا کی آفت نے آن لیا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ دو کشتیوں میں کیسے پاﺅں کا توازن برقرار رکھ سکیں گے۔ مگر یہ کیا ، ان کی ایک کھیپ ترکی بھیجی جا رہی تھی اور دوسری طرف بنگلہ دیش کے راستے انہوںنے روہنگیا کی مدد کے لئے راستہ نکال لیا تھا۔ یہ کام بڑا مشکل تھا، بنگلہ دیش اس سلسلے میں پاکستان سے تعاون تو نہیں کرتا مگر انہوںنے نارائن گنج میں کوئی پرانا شناسا تلاش کر لیاا ور اسے اس نیکی کی نگرانی پر مامور کر دیا، پہلے قدم کے طور پر تین کروڑ کا سامان بھجوا دیا گیا۔ان میں کھانے پینے کی اشیا کی بہتات تھی، خیمے تھے اور چند دیگر اشیائے ضرورت مگر طبی سامان بھیجنے میں انہوںنے کوئی کوتاہی نہیں کی کہ روہنگیا کے لئے راستے کی مشکلات جان لیوا ثابت ہوتی ہیں، ابھی کل ہی ایک کشتی الٹی ہے اور ساٹھ جانیں ضائع ہو گئی ہیں، اس طرح کے حادثات روز کا معمول ہیں، تھائی لینڈ کی طرف جانے والے روہنگیا اکثر سمندر کی طغیانی کی نذر ہو جاتے ہیں، یوں لگتا ہے کہ ان کی کشتیاں حادثاتی طور پر نہیں ڈوبتیں ، انہیں ایک منظم سازش کے ذریعے ڈبویا جا رہا ہے، اصل مقصد نسل کشی کا ہے جسے پورا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی، جو روہنگیا بھارت کی سرحد پار کرنے لگتے ہیں ۔پہلے انہیں ہوائی فائرنگ سے ڈرایا جاتا ہے اور اگر کوئی واپس نہ مڑے تو سیدھی گولیوں سے انہیں بھون دیا جاتا ہے۔

ڈاکٹرا ٓصف جاہ چند ہفتے قبل بتا رہے تھے کہ وہ ایک بار ترکی جا چکے ہیں دوبار ہ جانے کا پروگرام بنا رہے ہیںمگرا س اثنا میں ان کا سٹاف کالج کا کورس آ گیا، اب وہ خود تو کہیں آنے جانے کے قابل نہیں ہیں مگر ان کے پاس جوو قت بچتا ہے، اس کا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتے، جیسے ہی انہوںنے ارادہ کیا کہ روہنگیا کی مدد کی جائے تو ہمیشہ کی طرح اللہ کی راہ میں کھل کر خیرات کرنے والے اعجاز سکا نے تیس لاکھ ہدیہ کر دیئے اور پچاس لاکھ دیگر مخیر دوستوں کی مدد سے اکٹھے ہو گئے، قطرے سے قطرہ ملتا چلا گیا اور یوں ایک خطیر رقم جمع ہو گئی، اب مسئلہ تھا کہ روہنگیا تک پہنچا کیسے جائے۔ میانمار تو کسی کو اپنے ملک میں پر مارنے کی اجازت نہیں دیتا کہ وہاںنوبل انعام یافتہ آنگ سو چی بر سر اقتدار ہیں۔نوبل انعام شاید انہیں برمی مسلمانوں کی نسل کشی کا عمل تیز کرنے کے لئے دیا گیا تھا۔ ہفتے کے روز اس نے اقوام متحدہ کی نگران ٹیم کو میانمار آنے سے روک دیا، بھارت میں بھی جانا ممکن نہیں، بنگلہ دیش روہنگیا کے ہاتھوں خود تنگ ہے اور انہیں واپس دھکیلنے کی کوشش کرتا ہے ، وہ تو اللہ ترک صدر طیب اردوان کا بھلا کرے کہ انہوںنے ذاتی طور پر حسینہ واجد سے اپیل کی کہ وہ روہنگیا کے مسئلے سے پریشان نہ ہوں، ان کی خبر گیری کے تمام اخراجات ترکی برداشت کرے گا۔یہ تو ہو گیا مگر پاکستانیوں کے لئے بنگلہ دیش کا ویزہ لینا آسان نہیں۔ یہ پرانی بات ہے بنگلہ دیش میں الیکشن ہو رہے تھے، میں بنگلہ دیشی سفیر کے پاس پہنچا ، انہوںنے چائے سے تواضع بھی کی ا ور فری ویزہ بھی لگا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ جونہی میں ڈھاکہ ایئر پورٹ پر اترا تو میرے پیچھے ایک خفیہ والا لگ گیا، ہوٹل میں اس نے مجھ سے ملاقات بھی کی اور بتایا کہ وہ میرے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ میںنے اس سے ہنس کر کہا کہ ایساکیوںنہیں کرتے کہ تم میرے ساتھ ٹیکسی میں بیٹھ جایا کرو اور جہاں مجھے جانا ہو ، وہاں تک رہنمائی کر دیا کرو، ڈھاکہ میں تمام ٹریفک بورڈ بنگلہ زبان میں ہیں، کیا مجال کہیں انگریزی کا ایک لفظ تک بھی لکھا ہو، بہر حال اس نے میرا تعاقب جاری رکھا اور جب تک واپسی کے لئے ہوائی جہاز میں سوار نہیں ہو گیا،ا س نے برابر مجھ پر نظر رکھی۔ اس ماحول میں عام پاکستانیوں کے لئے ڈھاکہ جانا آسان نہیں، پتہ نہیں یہ سارک ویزہ کیا بلا ہے کہ جس پر ہمارے بزنس مینوں کے بھتیجے بھانجے بھی ملک ملک گھومتے پھرتے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ ان کے دل میں روہنگیا کی ہمدردی بھی جگائے۔

ڈاکٹر آصف جاہ کا میںنے ابھی تک نام نہیں لکھا مگر نام سے کیا ہوتا ہے، ان کے کام ہی ان کی نیک نامی کا باعث ہیں، تھر میں بھوک سے نڈھال بچے،آواران کے زلزلے میں تڑپتے ہوئے بلوچ بھائی، بالا کوٹ کے زلزلہ زدگان، سوات، مالا کنڈا ور پھر شمالی وزیرستان کے بے گھر، پنجاب ا ور سندھ کے سیلاب میں گھرے لاکھوں لوگ، کون ہے جو آصف جاہ کی مروت سے بہرہ مند نہیں ہوا، میں نے لفظ مروت لکھا تو پشاور سے آصف جاہ کے ایک جانثار مروت صاحب کا فون آ گیا کہ بھائی دعا کرو کہ مجھے بنگلہ دیش کا ویزہ مل جائے تاکہ امدادی سامان کی تقسیم کی نگرانی کا فریضہ خود ادا کر سکوں۔اپنے ہاتھوں سے مستحقین کو دوں گا تو ضمیر بھی مطمئن ہو گا اور ثواب بھی بہتا کماﺅں گا۔

آصف جاہ نے خواہش ظاہر کی روہنگیا کی قیامت بارے عوامی شعور بیدار کر نے کے لئے ایک پروگرام کیا جائے۔ اسی جمعہ کی سہ پہر ایک بڑے ہوٹل میں دوستوں کو مدعو کیا گیا، چھوٹا سا کمرہ دیکھتے ہی دیکھتے بھر گیا مگر آصف جاہ کے خادم خاص شبیر عثمانی جنہیں میںان کاملٹری سیکرٹری کہتا ہوں، انہوںنے سلیقہ مندی سے مزید کرسیاں بھی منگوا لیں اور کھانے پینے کے سامان کی کمی بھی پوری کر دی۔ یہ محفل تین گھنٹے جاری رہی تھی، اس میں اوریا مقبول جان، پروفیسررف رف، معظم علی خان، اعجاز سکہ ،فاروق تسنیم،آسٹریلیشیامسجدکے مدارالمہام مولانا عبدالرﺅف، منشا قاضی ،شارجہ سے فضل الرحمن نے مختصر طور پر اظہار خیال کیا۔اچھا ہوا کہ کوئی صاحب تفصیل میں نہیں گئے ورنہ ہم صرف خون کے آنسو ہی روتے رہتے اور باقی سوچ بچار کے قابل نہ رہتے۔ اس کے باوجود آصف جاہ نے جب یہ بتا یاکہ ایک روہنگیا حاملہ عورت کا سنگین سے پیٹ چاک کیا گیا اور ا سکا بچہ زمین پر پٹخ دیا گیا ۔یقین مانئے کہ حاضرین پر یہ سن کر رقت طاری ہو گئی۔ آسٹریلیشیا مسجد کے مولانا عبدالرﺅف کا میں خاص طور پر ذکر کروں گا جن کی مسجد میں روہنگیا کی امداد کے لئے ڈاکٹرا ٓصف جاہ نے ایک پروگرام کیا اور خطیر رقم جمع کی، جمعہ کے روز مولانا صاحب مزید پانچ لاکھ اکٹھے کر کے لائے۔ مولانا کے بھائی مکرم شیخ میرے راوین دوست ہیں ، بوٹسوانہ میںمقیم ہیں، ان کے انٹرویوز ایک زمانے میں نوائے وقت میں چھاپ چکا ہوں۔شارجہ کے فضل الرحمن نے بھی تین ہزار ڈالر موقع پر پیش کئے ، ان کے مرحوم بھائی جو شارجہ ہی میںمقیم تھے، انہوںنے ڈاکٹر آصف جاہ کو عالمی سطح پر روشناس کرانے میںاہم کردارادا کیا، وہ خیراتی سرگرمیوںمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، اللہ نے ان کی زبان میں خاص تاثیر رکھی تھی اور وہ چشم زدن میںکروڑوں روپے اکٹھے کر لیتے تھے،اب ان کے بھائی فضل الرحمن ان کی کمی کاا حساس نہیں ہونے دیتے ۔

روہنگیا مسلمان عالم اسلام کی بے حسی کا شکار ہے، یہ ستم ظریفی ہے کہ کہیں اسی طرح کا سلوک مسلمانوں کے ہاتھوں غیر مسلموں سے ہو رہا ہے تو اسے اسلامی انتہا پسندی بلکہ اسلامی دہشت گردی کہہ دیا جاتا ہے لیکن کوئی بھی میانمار کے لئے بدھ دہشت گردی کا لفظ زبان پر نہیں لاتا۔ڈاکٹرا ٓصف جاہ نے بتایا کہ جب وہ دو ہفتے قبل بنگلہ دیش میں پہلے پہل روہنگیا کی امداد کے لئے بالواسطہ طور پر پہنچے تو اس وقت ان مظلوموں کی تعداد صرف تین لاکھ تھی مگر اب چند ہفتوں کے اندر برمی افواج ان پر اس قدر مظالم ڈھا رہی ہیں کہ صرف بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کی تعداد آٹھ لاکھ تک پہنچ چکی ہے، ویسے کراچی میں بھی کئی برسوں سے تین لاکھ کے قریب روہنگیا پناہ گزین ہیں ، انتہائی پرامن لوگ ہیں کیا مجال کبھی کوئی شکائت پیدا ہونے دیں۔ڈاکٹرآصف جاہ نے کہاکہ ہم تو کراچی کے ان مظلوموں کے مسائل سے بے خبر اور لاتعلق ہیں، بنگلہ دیش، بھارت ا ور تھائی لینڈ تک پھیلے ہوئے ان مظلوموں کی کیا مددکر پائیں گے۔
بہر حال فرشتہ صفت ڈاکٹر آصف محمود جاہ تن من دھن کی بازی لگائے ہوئے ہیں، دکھی انسانیت کی تلاش میں رہتے ہیں اور جب تک مقدور بھر ان کی مسیحائی نہ کر لیں۔ وہ چین کی نیند سونے کا خیال تک ذہن میں نہیں لاتے۔یہی ان کا ستارہ امتیاز ہے۔