خبرنامہ

ریاست مدینہ کی چند جھلکیاں…اسد اللہ‌غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ریاست مدینہ کی چند جھلکیاں…اسد اللہ‌غالب

یہ کالم قطعی سیاسی نہیں ہے بلکہ نبی اکرم ؐ کی حیات مبارکہ کے چند پہلووںکااحاطہ کرتا ہے۔ اور میری اپیل ہے کہ کوئی ا ور بھی اس پر سیاست نہ کرے۔ تاجدارؐ ریاست مدینہ کا حجرہ مبارک ہی ان کی ابدی آرام گاہ ہے۔یہ چند مربع فٹ پر محیط ہے۔اماں عائشہؓ فرماتی ہیں حضورؐ اس میں نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو میرے بیٹھنے کی جگہ نہ رہتی۔ یہاں شہنشاہ دو جہاں ؐ نے ہجرت کے بعد زندگی بسر کی اور یہیں وہ اپنے اللہ سے جا ملے۔آخری لمحات کی کچھ جھلکیاں مولانا طارق جمیل کی ایک ویڈیو سے میںنے اخذ کی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وصال کی شب تاجدار ریاست مدینہ ؐ کے گھر کے چراغ میں تیل نہیں تھا اور اماں عائشہ ؓ پڑوسی سے تیل ادھار لے کر آئیں۔بیماری کے شروع کے دنوں میں آپ ؐ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اعلان کیاکہ اگر کسی نے ان سے کوئی قرض یا بدلہ لینا ہے تو وہ حاضر ہیں، قیامت کے روز ان کے لئے ایسا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس پر ایک بدو ا ٹھا ۔ اس نے کہا کہ آپ میرے تین درہم کے مقروض ہیں۔ آپ نے فرمایا ضرور آپ کا مقروض ہوں گا مگر ذرا یاد دلا دیجئے۔ بدو نے کہا کہ آپ ایک رو زمسجد میں تشریف رکھتے تھے۔ ایک سائل آیا۔آپ کے پاس دینے کو کچھ نہیں تھا۔ آپ نے مجھ سے کہا کہ اگر کچھ رقم پاس ہو تو اسے عنائت کر دیں ، میں بعد میں ادا کردوں گا۔ حضور ؐ نے فرمایا ۔ ہاں ہاں مجھے یاد آ گیاا ور اپنے چچیرے بھائی عبداللہ بن عباس ؓ سے کہا کہ وہ ان کی جگہ یہ قرض لوٹا دیں۔ ایک اور روائت کے مطابق ایک بدو نے کہا کہ آپ نے فلاں جنگ میں مجھے نیزے سے کچوکا لگایا تھا جس پر مجھے بہت تکلیف ہوئی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے بھی نیزہ چبھو کر بدلہ لے لیجئے۔ بدو نے کہا کہ نہیں ،اس وقت میرے جسم پر قمیض نہیں تھی۔ آپ نے اپنی قمیض اوپر چڑھا لی۔ بدو آگے بڑھا اور مہر نبوت چوم لی۔ حسن نثار نے ایک کالم میں لکھا تھا کہ حضور ؐنے رحلت فرمائی تو ان کی زررہ بکتر وغیرہ ایک یہودی کے پاس گروی تھے۔ حسن نثار نے اس کا نتیجہ یہ نکالا تھا کہ قرآنی حکم ہے کہ اپنے گھوڑے تیار رکھو تو آپ نے ادھار پکڑ کر بھی ضرورت کا دفاعی سامان خریدا۔مجھے ایک سچے عاشق رسولؐ علامہ عبدالستار نیازی کے شاگرد خاص اور میرے یار دلبر ڈاکٹر اجمل نیازی نے بتایا تھا کہ ایک بار تاجدار ریاست مدینہ ؐ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک نیم پاگل سی عورت وہاں آئی ۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ اس نے انگلی کے اشارے سے آپ کو اپنی طرف آنے کے لئے کہا۔ آپ اٹھ کر ا سکے پاس چلے گئے۔ واپس آئے تو صحابہ کرام ؓ نے کہا یہ تو نیم پاگل عورت ہے ۔ اس کی بات سننے کیوں چلے گئے۔ تاجدار ریاست مدینہ ؐ نے فرمایا اگر اس نیم پاگل عورت کی بات کوئی بھی نہیں سنتا تو کیا میں بھی نہ سنوں ، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔مدینہ کی ریاست کے تاجدار جب تک مکہ میں رہے۔ شب وروز ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے رہے۔ وہ گلی سے گزرتے تو ان پر کوڑا پھینک دیا جاتا۔ خانہ کعبہ میں سجدے میں جاتے تو ان پر اوجھری ڈال دی جاتی۔طائف گئے تو شہر کے نوجوان ان پر پتھر لے کر ٹوٹ پڑے۔ آپ کے جسم سے اتنا خون بہا کہ جوتیاں گیلی ہو گئیں۔ ایک پہاڑی کی آڑ لی تو اوباشوںنے چوٹی سے ایک پتھر لڑھکا دیا۔ جو حضور ؐ کے کندھوں کے پاس آ کر چٹان میں پیوست ہو گیا۔ پندرہ سو سال گزر گئے، یہ پتھر آج بھی اسی طرح اٹکا ہوا ہے۔ کائنات کے مالک نے اپنے بندے پر ا س قدر ظلم دیکھا تو ایک فرشتہ بھیجا جس نے کہا کہ آپ حکم دیں میں دو پہاڑوں کے بیچ طائف کا پورا شہر پیس کر رکھ دوں مگررحمت للعالمینؐ نے جواب دیا۔ کہ ان کو سمجھ نہیں۔ یہی لوگ راہ راست پرآئیں گے اور اللہ کے دین کا پرچم سر بلند کریں گے۔مکہ والوں کے لئے حضورؐ اور ان کے ساتھیوں کا وجود برداشت سے باہر ہو گیا تو انہیں ایک گھاٹی میں قید کر دیا ۔ جہاں نہ پانی تھا ، نہ کھانے کو کوئی شے۔ وہ پتے نچوڑ کر پیاس بجھاتے ۔آخر حضورؐ کو ہجرت کی آزمائش سے گزرنا پڑا۔ آبائو اجداد کا شہر چھوڑنا پڑا۔ ہجرت کے ا س سفر کا حال کسی مئورخ نے مکمل طور پر نہیں لکھا مگر اتنا پتہ چلتا ہے کہ خون کے پیاسوں اورتعاقب کرنے والوں سے بچنے کے لئے وہ ایک غار میں لیٹ گئے۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے ان کا سر اپنی گود میں رکھا اور غار کے ایک سوراخ کو بند کرنے کے لئے اس میں اپنی ایڑی رکھ دی جہاں سے ایک سانپ آیاا ور اس نے صدیق اکبر ؓ کو ڈس لیا۔ تکلیف کی شدت سے ان کی آنکھوں سے ا ٓنسو ٹپکے اور حضور ؐ کے رخسار مبارک پر گرے تو آپ نے ماجرا پوچھا اور اپنا لعاب مبارک زخم پر لگا دیا جس سے تکلیف فوری رفع ہو گئی۔ غار کے باہر معجزانہ طور پر مکڑی نے جالہ بن دیااور ایک کبوتری اس پر بیٹھ گئی۔ اس کے پروں کے نیچے انڈے تھے۔، تعاقب کرنے والوںنے یہ منظر ضرور دیکھا مگر سوچا کہ ایسی حالت میں کوئی شخص اندر کیسے جا سکتا ہے۔

کفار نے مدینہ میں بھی آپ ؐ کو چین نہ لینے دیا اور بدر کا میدان سج گیا۔ ریاست مدینہ کا سربراہ ؐ ذاتی طور پر اس غزوہ کی کمان کر رہا تھا۔ عددی اور اسلحے کی کمی کے باوجود جذبہ ایمانی سے یہ جنگ جیت لی گئی۔

پھر جنگ احد کا میدان گرم ہوا۔لشکر مدینہ نے بازی جیت لی اور یہ کہنا غلط ہے کہ تیر اندازوںنے حضور ؐ کی حکم عدولی کی اور لوٹ مار میں لگ گئے۔ یہ ان جید صحابہ کرام ؓ کی قطعی عزت افزائی نہیں اور نہ کوئی دفاعی تجزیہ کار یہ کہہ سکتا ہے کہ جنگ خندق میں مدینہ کا لشکر ایک آندھی چلنے کی وجہ سے شکست سے بچا۔

تاریخ کو مسخ کرنا بڑا آسان ہے مگر تاریخ بنانا بے حد مشکل ، ہم اگر ریاست مدینہ بنانے کے خواہاں ہیں تو پہلے قدم کے طور پر اپنے گھروں کو نبی اکرمؐ کے حجرہ مبارک کے رقبے کے مطابق سکیڑیں اور دوسرے قدم کے طور پر قرآنی حکم پر عمل کریں کہ اپنے گھوڑے تیار رکھو۔ اور ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہونا چاہئے کہ اسنے جس کسی کا جو ادھار دینا ہے۔ ریاست کا ہی دینا ہے تو پہلے اسے ادا کریں۔ جس کو ہم نے کبھی تکلیف پہنچائی ہے تواسے بدلہ لینے کی اجازت دیں۔

اگلے قدم کے طور پر ہم خلیفہ اول سیدنا ابوبکر ؓ کی پیروی کرتے ہوئے ان لوگوں کے خلاف اعلان جنگ کر سکتے ہیں جو زکواۃ یعنی ریاست کا ٹیکس ادا نہیں کرتے، لیکن یہ پہلا قدم نہیں ہو سکتا۔ اس سے پہلے ہمیں حضور اکرم ﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنا اپنا قرض ادا کرنا چاہئے اور خلیفہ اول پر جو پابندی عائد کی گئی تھی کہ حکمرانی کرنی ہے تو مدینے میں اپنی دکان بند کریں۔ خود کوئی تجارت نہ کریں

یہ ہے ریاست مدینہ کا ایک سادہ سا خاکہ۔ ورنہ باقی سب شعبدہ گری ہے۔

سلام اس پر کہ ٹوٹا بوریا جس کا بچھونا تھا

سلام اس پر کہ جس کے گھر میں چاندی تھی نہ سونا تھا

سلام اس پر جو بھوکا رہ کے اوروں کو کھلاتا تھا

سلام اس پر جو فرش خاک پر جاڑے میں سوتا تھا

سلام اس پر۔ سلام اس پر۔