خبرنامہ

زلزلے، زخم اور زندگی۔۔۔اسداللہ غالب…اسداللہ غالب

یہ عید قرباں کا دن ہے، آصف محمود جاہ اپنے خاندان کے پیاروں کو چھوڑ کر کہیں ستم زدگان کے ساتھ عید منانے نکلے ہوں گے، میرا قلم ان کے شریک سفر ہے۔
انہیں گزشتہ برس ستارہ امیتاز ملا،ایدھی کو یہی امتیاز قوم نے دیا۔ آصف جاہ اس امتیا زکے بعد میرے جیسے ہما شما کی پہنچ سے دو ر ہو گئے، مگر یہ ستارہ امتیاز تو ڈاکٹراجمل نیازی کو بھی ملا تھا، وہ تو ہمہ وقت ادھر ادھر دستیاب رہتے ہیں، آصف جاہ کے چاہنے والے شاید زیادہ ہیں ، وہ ان میں کھو کر رہ گئے، کہیں ایک سال بعدہاتھ آئے ہیں ا ور وہ بھی اسو قت جب ان کی نئی کتاب۔۔ زلزلے، زخم اور زندگی ۔۔منصہ شہود پر آئی ہے، قابل ذکر کتاب تو اللہ، کعبہ اوربندہ کاا نگریزی ایڈیشن ہے۔حج کا سفرنامہ ہر کوئی لکھتا ہے مگرآصف جاہ نے اسے اللہ اور کعبہ کی قربت میں لکھا ہے بلکہ مکمل ہی کعبہ کے سائے میں کیا، تو اس کے ہر ہر صفحے پر نور کا ظہور ہے۔
زلزلے ، زخم اور زندگی بھی ایک سفرنامہ ہے ۔ یہ حج اکبر کا سفرنامہ ہے، انسانیت کی خدمت کو حج اکبر ہی کہا جاتا ہے، دل بد ست آور کہ حج اکبرا ست، یہ میں نے نہیں کہا، تاریخ نے کہا ہے اور تاریخ میں ہی لکھا ہے۔
آصف جاہ کو ستارہ امتیاز ملا ہی انسانی خدمت کے شعبے میں، اور انسان سیلاب کی زد میں ہو ، زلزلے کے ہاتھوں خانماں برباد ہو،پیاس سے اس کی زبان کانٹا بن گئی ہو اور وہ کسی صحرا میں ہڈیوں کے ڈھانچے کی شکل میں تڑپ رہا ہو، آصف جاہ ہر جگہ اس مجبور و مقہور انسان کی خدمت میں کوشاں رہے ہیں، اسی کی توصیف کے لئے ریاست نے انہیں ستارہ امتیاز کا اعلی تریں اعزاز عطا کیا، اور وہ اس اعزاز کے بعد خاموش ہو کر نہیں بیٹھ گئے کہ اصل اجر تو اللہ کے پاس ہے اور اللہ کو راضی کرنے کے لئے وہ مسلسل انسانی خدمت میں مصروف ہیں، پہاڑوں پر، ریگستانوں میں اور دریاؤں کے کناروں پر۔وہ سرکاری افسر ہیں ، بہت اعلی افسر مگر افسری ان کے پاؤں کی زنجیر نہیں بنی ، وہ افسری کو بھول کر امدای ٹرکوں کے قافلوں کے ساتھ کئی کئی ہفتوں کے لئے گھر سے نکل کھڑے ہوتے ہیں، ان کا محکمہ بھی ا ن کی ستائش کرتا ہے اور انہیں اگلے گریڈ میں ترقی بھی ملی۔ایف بی آر کے چیئر مین سے لے کر کسٹمز کے کلکٹر جنرل تک سبھی ان کی خدمات کے رطب اللسان نظر آتے ہیں ا ور دامے درمے سخنے ان کے ہم رکاب رہتے ہیں، آصف جاہ نے اپنے محکمے کی نیک نامی میں بھی اضافہ کیا ہے۔
نئی کتاب کا موضوع پاکستان مں آنے والے چند مشہور زلزلے ہیں آصف جاہ نے کوئٹہ کے زلزلے کی جھلک بھی پیش کی، یہ بڑی خوفنا ک ہے۔1935 میں آنے والے ا س زلزلے نے اس شہر کو الٹ پلٹ کر دیا،ہر طرف لاشیں تھیں بلکہ لاشیں ملبے تلی دبی تھیں اورقدرت بھی ان پر آنسو بہا رہی تھی۔ یہ زلزلہ سے زیادہ ایک قیامت تھی جس نے کوئٹہ کے شہریوں کو آن کی ٓن میں دبوچ لیا۔ اس زلزلے کا آنکھوں دیکھا حال خود آصف جاہ تو نیں لکھ سکتے تھے کہ ا س وقت ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے لیکن ان کی نیکیوں کے ایک ساتھی محمدعظیم کے والد بزرگوار حاجی محمد اسماعیل نے اس کا آنکھوں دیکھا حال لکھا جو اس کتاب کا سب سے دلچسپ حصہ ہے۔اس کے بعد جتنے بھی زلزلے آئے، ان میں ڈاکٹرآصف جاہ نے امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور جو دیکھا اسے بلا کم و کاست لکھ بھی دیا، انہوں نے موت کی آنکھیں ڈال کر بچ جانے والوں کی داستان تحریر کی ہے اور زخم خوردہ لوگوں کے مصائب اور ان کی حرماں نصیبی کارونا بھی رویا ہے۔ دو ہزار پانچ کا زلزلہ بھی کسی قیامت سے کم نہیں تھا،ا س میں بالا کوٹ کا تاریخیٰ شہر صفحہ ہستی سے مٹ گیااور ابھی تک بحالی کامنتظر ہے، یہ زلزلہ اس وقت آیا جب اسکولوں میں بچے سبق پڑھ رہے تھے، ان کی کتابیں بستوں سے نکل کر بکھر گئیں۔یہ اوراق پریشاں میں تبدیل ہو گئیں۔ آصف جاہ کو امدادی کاموں مں شدید مشکلات پیش آئیں کیونکہ راستے ٹوٹ پھوٹ گئے تھے، سواری دستیاب نہ تھی اور اونچی چوٹیوں کا سفر بھی در پیش تھا مگرآصف جاہ نے ہمت نہ ہاری ا ور ان لوگوں کی ہمت بندھائی جو بے ہمت ہو گئے تھے۔
آواران کا زلزلہ تو کسی امتحان سے کم نہ تھا، ایک ایسا علاقہ جہاں اجنبی کو دیکھتے ہی فایر کھول دیاجاتا ہے، جہاں پاکستان کاقومی ترانہ گانے کا کسی میں حوصلہ نہیں، آصف جاہ نے یہاں دوا بھی فراہم کی اور اپنی خیریت کی دعا بھی جاری رکھی، ان کی بے لوث خدمت کا نتیجہ یہ نکلا کہ خیموں میں ا سکول کھلے ا ور ہر صبح کا آغاز قومی ترانے سے ہوتا اور ننھے منے ہاتھ پاک پرچم کو سلامی دیتے اور فخر سے سینہ چوڑا کرتے۔
گزشتہ برس چترال ا ور شانگلہ میں زلزلہ آیا۔ یہ ساراعلاقہ دشوار گزار تھا، اور موسم کی سختی اس پر مستزاد، مگر آصف جاہ نے حوصلہ نہیں ہارا، وہ کئی مرتبہ چوٹیوں پر چڑھتے ا ور اترتے ہوئے پھسلے بھی جن کی جھلکیاں فیس بک پر ساتھ ہی ساتھ نظرآتی رہیں۔انہوں نے خیمے بانٹے، بیماروں کا علاج معالجہ کیااور مسمار مسجدوں ا ور اسکولوں کی از سر نو تعمیر کی۔
آصف جاہ کی خدمات اپنی جگہ مگر جو مخیر حضرات ان سے تعاون کرتے ہیں، اصل ثواب تو وہ کما جاتے ہیں، ان میں سے اکثر اپنی شناخت بھی ظاہر نہیں کرتے اور اجر کی تمنا اپنے اللہ سے رکھتے ہیں ۔
زلزلے، زخم اور زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہوئے مجھے بھی اپنی ایک داستاں یاد آ جاتی ہے جو 1976 میں پتن کے زلزلے سے وابستہ ہے، یہ سال کی آخری شب کے آغاز میں آیا، اس نے پتن کے پہاڑوں کو ریزہ کر کے رکھ دیا، جانی نقصان اس لئے کم تھا کہ علاقے میں آبادی بہت کم تھی مگر کسی کا گھر سلامت نہ رہا تھا، میں نے ماہنامہ اردو ڈائجسٹ کے لئے ا س زلزلے کی کوریج کی اور پتن کا سفر کیااور اپنی آنکھوں سے اس تباہی کا مشاہدہ کیا ۔ زلزلہ زدہ علاقے میں گھومتے گھومتے اچانک مجھے محسوس ہوا کہ کسی نے پیچھے سے میری گردن پر رائفل کی نالی رکھ دی ہے، میں ا س شخص کی زبان نہیں جانتا تھاا ور وہ میری زبان نہیں سمجھتا تھا، خدا ہی جانتا ہے اس کے شکنجے سے مجھے کیسے رہائی ملی۔
زلزلے،زخم اور زندگی ایسے ہی ہولناک قصوں کا مجموعہ ہے، یہ جذبوں کی داستاں بھی ہے اور خدمت انسانی کے ولولوں کے لئے مہمیز کا اکام دیتی ہے۔