خبرنامہ

سالانہ اقتصادی جائزے کے اطمینان بخش پہلو….اسداللہ غالب

سالانہ اقتصادی جائزے کے اطمینان بخش پہلو
28 اپریل 2018

کسی بھی حکومت کے لئے اس کی ٹرم کاآخری سال انتہائی کامیاب نتائج دکھاتا ہے مگر موجودہ حکومت کو اپنے آخری دوسالوں میں کئی جھٹکے لگے، وزیراعظم اپنے عہدے سے معزول ہوئے اور نیوز لیکس کی وجہ سے کئی حکومتی وزراء کو بھی ہٹانا پڑا جس سے سیاسی استحکام کی مثالی صورت حال دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس کے باوجود حکومت نے طے شدہ اہداف حاصل کرنے میںکوئی کسر نہیں چھوڑی اور سالانہ شرح نمو میں اضافے کی رفتار برقرا رہی۔ رواں مالی سال کے دوران اقتصادی شرح نمو 5.8 فیصد، زرعی شعبہ کی شرح نمو 3.8 فیصد، مینوفیکچرنگ کے شعبہ کی شرح نمو 5.8 فیصد، خدمات کے شعبہ کی شرح نمو 6.4 فیصد اور بڑے صنعتی اداروں کے شعبہ کی شرح نمو 6.25 فیصد رہی ہے، افراط زر کی شرح 3.8 فیصد تک کم ہو گئی جبکہ پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور اقتدار کے دوران افراط زر کی شرح 11.88 فیصد تھی، بجٹ خسارہ 8.2 فیصد سے 5.5 فیصد تک کم ہوا ہے، ایف بی آر کے ٹیکس محصولات کی وصولی 3900 ارب روپے سے زائد رہی ہے جو جی ڈی پی کے 11 فیصد سے بڑھ جائے گی۔ جمعرات کو وزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے پرہجوم پریس کانفرنس کے دوران اقتصادی جائزہ جاری کیا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر و معاون خصوصی برائے محصولات ہارون اختر، وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل اور اعلیٰ افسران بھی موجود تھے۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات احسن اقبال نے کہا کہ 2013ء میں ریاست اور معیشت بحران کا شکار تھی، ملک میں بے روزگاری عروج پر تھی، 2008ء سے لے کر 2012ء کے دوران قومی معیشت کی شرح نمو اوسطاً 2.5 سے 3 فیصد رہی، قومی معیشت توانائی بحران کے باعث تنزلی کا شکار تھی، ملک کا معاشی حب کراچی بھتہ خوروں کے ہاتھوں یرغمال تھا، مسلم لیگ (ن) نے پانچ سال کے دوران سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) کو 300 ارب روپے سے بڑھا کر ایک ہزار ارب روپے کیا جو ہمارے ترقیاتی ایجنڈے کا حصہ ہے، اعلیٰ تعلیم کا بجٹ 13 ارب روپے سے 47 ارب روپے تک بڑھایا گیا، مختلف اقدامات کے نتیجہ میں ملک میں 11 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 66 سال کی تاریخ میں پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی استعداد 18 ہزار میگاواٹ تھی، اسی طرح مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 1750 کلومیٹر طویل نئی موٹرویز کی تعمیر شروع کی جبکہ ہمارے پاس پہلے سے 550 کلومیٹر موٹروے موجود تھی، ہمارے ہمسائے ملک میں موٹروے کی کل لمبائی 1450 جبکہ پاکستان کی موٹرویز کی کل لمبائی 2250 کلومیٹر ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں انتہا پسندی اور سیکورٹی مسائل کے خاتمہ کے لئے اپنے بجٹ اور وسائل سے اخراجات کئے جن کے نتیجہ میں آج پاکستان ایک محفوظ ملک بن چکا ہے۔ ہمارے دور حکومت میں توانائی کے شعبہ میں ریکارڈ سرمایہ کاری کی گئی، توانائی کی صورتحال بہتر ہوئی تو معیشت میں نئی جان پڑ گئی جس کے نتیجہ میں زراعت اور صنعت کے شعبوں نے نمایاں ترقی کی ہے۔ ان کے بقول قومی معیشت کی رواں سال شرح نمو 5.8 فیصد رہی جو گزشتہ 13 سال میں سب سے زیادہ ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ اگر گزشتہ مالی سال کے دوران سیاسی عدم استحکام پیدا نہ کیا جاتا تو ہماری اقتصادی شرح نمو 6.1 فیصد سے بڑھ جاتی، ملکی معیشت نے سیاسی بحران کی وجہ سے معاشی قیمت ادا کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف مسائل کے باوجود 5.8 فیصد کی اقتصادی شرح نمو قابل فخر ہے، یہ وہ اعداد و شمار ہیں جن کو عالمی بینک سمیت کئی دیگر عالمی ادارے بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اگر توانائی بحران کے خاتمہ کے لئے درکار عرصہ کو بڑھایا جاتا تو شاید میکرو اکنامک اشاریئے مزید بہتر ہوتے لیکن ہمیں سالانہ 20 لاکھ روزگار کے مواقع پیدا کرنے تھے جن کے لئے معاشی ترقی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے چار سال کے دوران توانائی کے شعبہ پر بھاری سرمایہ کاری کی اور مختصر مدت میں بجلی کی فراہمی کی جس سے ہماری صنعتی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا جس کی طلب کو پورا کرنے کے لئے نتیجہ کے طور پر درآمدات کا دبائو بڑھا۔ انہوں نے کہا کہ امن و امان اور توانائی کے شعبہ کی بہتری سے ہمارے بند کارخانے چل پڑے ہیں، پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ریکارڈ سرمایہ کاری ہوئی ہے اور توانائی کی طلب بھی بڑھی ہے، یہ سب معیشت کے حوالے سے مثبت اشاریئے ہیں۔ 5 سال کے دوران حکومت نے ترقیاتی ایجنڈے کے تحت سی پیک پر عملدرآمد کو یقینی بنایا ہے جو خواب سے حقیقت بنا اور 46 ارب ڈالر سرمایہ کاری کے اس منصوبے سے اب تک 29 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جا چکی ہے، یہ سرمایہ کاری توانائی، بنیادی ڈھانچے، ریل، روڈ سمیت بندرگاہوں پر کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ تو پورے سال کے اعداد و شمار کا تخمینہ ہوتا ہے اور تنخواہوں میں اضافہ یا ٹیکس میں کمی یا دیگر اقدامات کو صرف تین ماہ کے لئے محدود نہیں کیا جا سکتا، آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرنا منتخب حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مفتاح اسماعیل کے بقول مالیاتی خسارے میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی ہے جو مالی سال 2013ء میں جی ڈی پی کے 8.2 فیصد سے 2017ء میں 5.8 فیصد کم ہوا، اخراجات کے مقابلے میں محاصل میں نمایاں اضافہ کے نتیجہ میں مالیاتی خسارے میں کمی ہوئی ہے۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ دسمبر 2017ء کے اختتام پر کل سرکاری قرضے 22820 ارب روپے تھے، مجموعی قرضے پچھلے سال جی ڈی پی کے 60.2 فیصد تھے جو رواں سال 61.4 فیصد رہے ہیں، 2013ء کے مقابلے میں بیرونی قرضے جی ڈی پی کے تناسب سے کم ہوئے ہیں۔ قرضوں سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے لگائے گئے ہیں جو پیداوار دے رہے ہیں۔ جاری اخراجات کم اور ترقیاتی اخراجات بڑھائے ہیں۔ وزیراعظم کی جانب سے برآمدات کے فروغ کے لئے دیئے گئے پیکج کے نتیجہ میں ملکی برآمدات میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم موجودہ حکومت کی معاشی کارکردگی پر فخر کر سکتے ہیں، پانچ سال پہلے پاکستان مسلم لیگ(ن) اور اس کی قیادت کی جانب سے عوام سے کئے گئے وعدے پورے کئے گئے ہیں۔ اس موقع پر ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر و معاون خصوصی برائے ریونیو ہارون اختر خان نے کہا کہ موجودہ حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات کے نتیجہ میں گوشوارے داخل کرانے والوں کی تعداد 14 لاکھ ہو گئی ہے جو امید ہے کہ اس سال 15 لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔ قبل ازیں وفاقی وزیر احسن اقبال اور مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اقتصادی جائزہ برائے مالی سال 2017-18ء کی دستاویز کی رونمائی کرتے ہوئے باقاعدہ طور پر اس کا اجراء کیا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس جائزے کے پیش نظر نیا سالانہ بجٹ قوم کی توقعات پر کس حد تک پورا اترتا ہے۔