خبرنامہ

سردار اسلم سکھیرا کی کتابیں مطالعے کی مشین پر….اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

سردار اسلم سکھیرا کی کتابیں مطالعے کی مشین پر….اسد اللہ غالب

کتابیں تو مطالعے کی میز پر ہوتی ہیں ، میںنے مشین کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ نظر کی خرابی کے بعد اگر کچھ پڑھنے میں مدد مل سکتی ہے تو ایک مشین کے سہارے، مگر مشین پر پڑھنے کا کیا مزہ، روانی سے نہیں پڑھا جاسکتا، بس کوئی لفظ سمجھ میں آگیا ، کوئی ایک سطر بڑی تگ و دو کے بعد پڑھ لی۔چلئے یہ بھی غنیمت ہے۔
کسی فقیر سے سوال کیا گیا کہ دو اور دو کتنے ہوتے ہیں تو اس نے کہا کہ دو روٹیاں۔ میں ان دنوں بھارت کی آبی جارحیت کے مسئلے پر لکھ رہا ہوں ، ا سلئے میںنے عید کے موقع پرسردار اسلم سکھیرا سے سوال کیا کہ وہ اس موضوع پر میری مدد کریں انہوں نے اپنی تین کتابیں مجھے تھما دیںکہ ان میں سے آپ کو بہت کچھ مل جائے گا۔ اب جو میں نے ان کتابوں کی ورق گردانی شروع کی تو اس مسئلے پر بہت سا مواد مل گیا ہے۔ سردار صاحب نے یہ سارے کالم نوائے وقت میں لکھے اور اب ان کو کتابی صورت میں شائع کر دیا ہے، ایک کتاب کا نام تو ان کے کالموں کے لوگو، عرض تمنا پر رکھا گیا ہے۔ دوسری کتاب ہے جوش جنوں اور تیسری سلگتے راز۔ پہلی کتاب عوام کو در پیش مسائل سے متعلق ہے۔ سردار صاحب برسوں اعلی افسر شاہی کا حصہ رہے مگر انہوںنے عوامی مسائل کو ایک عام ا ٓدمی کی نظر سے دیکھا اور ان کا حل اپنے تجربے کی روشنی میں تجویز کیا۔ سلگتے راز میں بھارت، امریکہ اور افغانستان کے گٹھ جوڑ کا قصہ زیر بحث لایا گیا ہے۔ اس کا خلاصہ کسی اور وقت پیش کروں گااور جوش جنوں وہ کتاب ہے جو آج میرے کالم کا موضوع ہے۔ اس میں پانی کے مسئلے کا ہر اعتباراور ہر زاویئے سے جائزہ لیا گیا ہے۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ انہی دنوں چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی آبی مسئلے پر غورو خوض شروع کر رکھا ہے، وہ کالا باغ ڈیم کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنا چاہتے تھے مگر جب انہوںنے دیکھا کہ یہ ایک ٹیڑھی کھیر ہے تو انہوں نے متبادل تجاویز کوسامنے رکھا اور ان سطور کو تحریر کرنے کے دوران انہوں نے خوش خبری سنائی ہے کہ وہ دو بڑے آبی ذخائر پر قومی لیڈرشپ کو متفق کرنے میںکامیاب ہو گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے راہنما نائیک صاحب نے چیف جسٹس کو اس پر مبارکباد پیش کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اس معاہدے کے لئے انہیں تاریخ میںیاد رکھا جائے گا، چیف جسٹس کا فارمولہ یہ ہے کہ قرض خوروں سے کہا جائے گا کہ وہ پچھتر فیصد رقم واپس کر دیں ، باقی کی پوچھ گچھ نہیں ہو گی ورنہ پورے قرضے کی وصولی کے لئے مقدمہ چلے گا۔ ان کا خیال ہے کہ لوگ اتنی بڑی رقم واپس کر دیں گے جس کی مدد سے دونوں بڑے ڈیم کسی بیرونی امداد یا قرضے کے بغیر تعمیر کئے جا سکیں گے۔
میںنے بات سرداراسلم سکھیرا کی کتابوں سے شروع کی تھی۔ ایک لکھنے والے کی حیثیت سے ان کے سینے میں حب الوطنی سے معمور دل دھڑکتا ہے۔ اس لئے انہوںنے بھارت کی آبی جارحیت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ سردارا سلم سکھیرا میرے مرشد محترم مجید نظامی کے یونیورسٹی فیلو تھے اور انہوںنے نظامی صاحب کو پولیٹیکل سائنس سوسائٹی کی صدارت کامنصب لینے میں مدد کی تھی۔ ان دونوں کی گہری دوستی کا میں عینی شاہد ہوں، سردار صاحب نوائے وقت کے لئے باقاعدگی سے لکھتے تھے اور تیز زبان استعمال کرتے تھے مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کے کالم میں کوئی تبدیلی کی گئی ہو۔وہ ہفتے میں ایک دو مرتبہ ضرور دفتر تشریف لاتے اور تادیر نظامی صاحب سے گفتگو کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریر پر نظامی صاحب کے نظریات کی گہری چھاپ ہے اور اس نے ان کی تحریر کو وزنی بنا دیا۔بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف نظامی صاحب نے اگلے مورچوں میں بیٹھ کر جنگ لڑی اور جوش جنوں میں شامل کالم اس امر کا بین ثبوت ہیں کہ سردار اسلم سکھیرا بھی نظامی صاحب کے شانہ بشانہ اس جہاد میںمصروف رہے۔سکھیرا صاحب کو یہ فکر لاحق ہے کہ پانی کی کمی دور کئے بغیر پاکستان کی بقا ممکن نہیں، پانی ہماری زندگی اور موت کا سوال ہے۔بھارتی لیڈروں کا کہنا ہے کہ و ہ پاکستان کا پانی روک کر اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے۔سردار صاحب اپنے کالم بعنوان میں زمانے میں ترا غم ہوں بعنوان وفا میں لکھتے ہیں کہ کنٹرول لائن کو مستقل سرحد بنانے کے لئے ایک دبائو موجود ہے جس کا مطلب یہ ہو گا کہ چناب ، جہلم اور سندھ تینوں دریا مکمل طور پر بھارت کے تصرف میں چلے جائیں گے، بھارت تو شور مچا رہا ہے کہ سندھ طاس کامعاہدہ پاکستان نے خود ہی بے اثر کر دیا کیونکہ منگلا ور تربیلا کے بعد اس نے کوئی آبی ذخیرہ نہں بنایا۔ اس کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنے تینوں دریائوں کا پانی سمندر میں پھینک کر ضائع کر رہا ہے جس کامطلب یہ بھی ہے کہ پاکستان کو ان کے فالتو پانی کی ضرورت نہیں۔ وہ بڑی تیزی سے ان پر ڈیم کے بعد ڈیم بنائے چلے جا رہا ہے۔اس کی کوشش ہے کہ و ہ پاکستان کو ان دریائوں کے پانی کی ایک بوند تک نہیں دے گا۔ جس سے ا سکی زمین بنجر ہو جائے گی ا ور پاکستان کی معیشت خود بخود تباہ ہو جائے گی۔سردارا سلم سکھیرا کے کالم کا عنوان ہی بڑا درد انگیز ہے، ایک کالم ہونٹ جلیں یا سینہ سلگے ترس کوئی کب کھاتا ہے میں سردار صاحب نے صدر مشرف کی طرف سے بھارت کے لئے خیر سگالی کے پیغامات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب پاکستانی وفد بھارت پہنچا تو اسے بتایا گیا کہ بیاس ، راوی اور ستلج تو وہ پہلے ہی لے چکا ہے ، اب وہ چناب اور جہلم پر بند باندھ کر پاکستان کے لئے ان دریائوں کا پانی بھی روک لے گا۔ رنجیت ڈیم بنا کر ا سنے راوی کا پانی بیاس میں ڈال لیا ۔ سلال، بگلیار وغیرہ ڈیموں سے وہ چناب اور جہلم کے پانی کو اپنے کنٹرول میں کر رہا ہے۔ کیا یہ جواب ہے مشرف کے خیر سگالی پیغام کا۔
سردار صاحب نے پانی کے مسئلہ کا ذکر ہر تیسرے کالم میں چھیڑا ہے ۔راہ مے خانہ کا ہر نقش ہے اک راز لئے کے عنوان سے لکھے گئے کالم میں حافظ ظہر حسین جو یونائیٹڈ انٹرنیشنل واٹر اسمبلی کے کو آرڈی نیٹر تھے ، کا ایک بیان نقل کرتے ہیں کہ بھارت نے زلزلے کا فائدہ ا ٹھاتے ہوئے چناب اور جہلم پر ڈیموں کی تعمیر کاسلسلہ تیز کر دیا ہے اور عنقریب ان کی تکمیل سے پاکستان کے وسطی اور جنوبی پنجاب کے متعدد اضلاع پانی کی کمی کا شکار ہو جائیں گے۔ صرف بگلیار ڈیم کی وجہ سے پاکستان تیس ملین ایکڑ فٹ پانی سے محروم ہو جائے گا۔ سردار صاحب نے ایک انجینئر کا یہ بیان بھی نقل کیا ہے کہ قائد اعظم نے کہا تھا کہ جو دریا کسی دوسرے ملک کو بھی سیراب کرتے ہوں، ان کا پانی عالمی معاہدوںکی رو سے نہیں روکا جا سکتا مگر قائد کی وفات حسرت آیات کے بعد اس اصول پر ہم نے پہرہ نہیں دیا اور اپنے تین دریا بھارت کو دان کر دیئے۔ اپنے ایک کالم میں انہوںنے سخت احتجاج کیا ہے کہ بھارت نے پاکستان کے حصے کے دریائوں پر سلال ، بگلیار، وولر،اور کشن گنگا جیسے بڑے ڈیم تعمیر کر لئے ہیں۔یہ پاکستان کے خلاف آبی جارحیت ہے جس پر ہم نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
میں کہتا ہوں کہ پاکستان کی خاموشی مجرمانہ ہے ۔ اس جرم میں ہم سب شریک ہیں مگر سردار اسلم سکھیرا ایک لکھنے والے ہیں ،انہوںنے تو اپنا فرض پوا کر دیا،اب ہم اپنے حصے کا قرض اتاریں۔