سرمایہ افتخار پر ایک نظر….! اسد اللہ غالب….انداز جہاں
اس کائنات میں ان گنت کہکشائیں دلوں کے اندھیروں کو جگمگادیتی ہیں۔ میں ایک نئی کہکشاں پھوٹتے دیکھ رہا ہوں۔ اس کا مرکز و محور افتخار سندھو کی ذات ہے۔میں ان کی کس کس خوبی کا ذکر کروں۔ ان کا کردارہر لحاظ اورہر پہلوسے انسانیت کے لئے فخر کا باعث ہے۔ ان کے ارد گرد نئے ستارے ضوفشانی کررہے ہیں۔ جیسے جیسے ان کا حلقہ احباب پھیل رہا ہے ، ان کے گرد کہکشاں کا دائرہ بھی افق تا افق وسیع ہورہا ہے۔ میرا ان سے تعارف کوئی ڈیڑھ عشرہ پہلے ہوا۔وہ میرے کالم پڑھ کر مجھے فون کرتے ، اور اپنے سیرحاصل تبصرے میں ان نکات کی تفصیل بیان کرتے ، جو میرے وہم و گماں میں بھی نہیں ہوتے تھے۔ ان کے لب و لہجے میں دیہاتی پن غالب تھا۔ لیکن ان کی باتیں عقل و شعور اور منطق سے لبریز ہوتیں۔ میرا جی چاہا کہ میں اس انسان سے کچھ سیکھنے کی کوشش کروں ، چنانچہ انہیں پی سی آئی اے کے دانشوروں کی محفل میں کئی مرتبہ مدعو کیا ، ہم حیران تھے کہ دیہات کی فضاؤں میں ایسا دانشور کیوں چھپا بیٹھا ہے۔ اب وہ میرے کالموں کا موضوع بن گئے ہیں۔ ان کی راست گوئی پر ہر کوئی عش عش کر اٹھتا ، وہ ایک سیدھے سادھے کاروباری شخص ہیں ، اگر وہ کاروبار میں نہ الجھتے تو وہ اس صدی کے مجدد کہلاتے، انہوں نے اپنے فارم ہاؤس پر ایسے مذاکروں کا اہتمام کیا جو دل و دماغ پر انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ وہ قرآن فا?نڈیشن کے بھی سربراہ ہیں۔ وہ روزانہ گھریلو زندگی کا آغاز درس ِ قرآن سے کرتے ہیں ، انہوں نے کم و بیش ہر تفسیر کا مطالعہ کررکھا ہے۔ احادیث کے ذخیرے پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ وہ اپنی گفتگو میں آیت نمبر اور حدیث نمبر اس روانی سے بیان کرتے ہیں ،جیسے پہاڑی کی اوٹ سے ایک چشمہ گنگناتا ہوا نکلتا ہے۔
وطن عزیز کے علما ءوفضلاءسے ان کی ذاتی اور تفصیلی ملاقاتیں رہی ہیں۔ مگر وہ سب سے زیادہ علامہ جاوید غامدی سے متاثر ہیں۔ ہر آنے جانے والے کو غامدی صاحب کی تفسیر کا سیٹ ہدیہ کرتے ہیں۔ انہوں نے فراخدلانہ اعلان کررکھا ہے کہ کسی کو قرآن پاک یا اس کے ترجمے یا اس کی کوئی تفسیر پڑھنے کا شوق ہو تو وہ فرمائش کرنے والے کے گھر تک یہ بیش قیمت کتب تحفے کے طور پر بھیج سکتے ہیں۔ قرآن پاک سے اللہ نے انہیں ایسا عشق عطا کیا ہے کہ کوئی شخص کروڑوں کی بزنس ڈیل کیلئے ان کے دفتر میں آئے تو چند لمحے بعد ہی وہ بات چیت کو قرآن پاک کے ذکر کی طرف موڑ دیتے ہیں اور پھر گھنٹوں قرآن پاک کے حوالے سے روزمرہ کے مسائل کا حل بیان کرتے ہیں۔ افتخار سندھو کی شخصیت ہزار رنگوں سے مزین ہے۔ کوئی دوسرا شخص ان کے کردار کا مکمل احاطہ نہیں کرسکتا۔ اچھا ہوا، کہ اب انہوں نے خود ہی قلم اٹھالیا اور اپنی آپ بیتی خود لکھ ڈالی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ اس کا نام سرمایہ افتخار رکھیں کہ ان کے دامن میں جو کچھ بھی تھا، وہ انہوں نے اس کتاب میں سمیٹ دیا ہے۔ سرمایہ افتخار ‘ایک دیہاتی شخص کی سادگی کا بھی عکس ہے ، اور ایک کاروباری شخص کی تہہ در تہہ کامیابیوں کا انبار بھی۔ یہ کتاب ایک سادہ منش انسان کے علم وفضل سے بھی لبریز ہے۔
افتخار سندھو نے اپنی آپ بیتی کتاب میں اپنے احساسات،مشاہدات،تجربات اور واقعات کا خلاصہ قلمبند کیا ہے۔ پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا حافظہ بلا کا ہے ، وہ کسی واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے تمام جزئیات کا خیال رکھتے ہوئے اختصار کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ سندھوصاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایسا شخص کبھی کامیاب نہیں ہوتا جسے ناکامی کا خوف کامیابی کی چاہت سے زیادہ ہوتا ہے۔ میں نے اپنی ناکامی کے خوف سے آزادہوکر اپنا سفر جاری رکھا۔ وہ ایک دردمند پاکستانی ہیں۔ یہ کتاب بھی ایسے ہی دردمندانہ جذبات میں ڈوب کر لکھی گئی ہے۔ وہ ایسے روایتی پاکستانیوں کی طرح نہیں ،جن کے ہاتھ میں کوئی خارش ہوتی ہے تو وہ تصور کرلیتے ہیں کہ آج گھر بیٹھے ان کے ہاتھ دولت لگے گی۔ جبکہ اس کے برعکس انہوں نے اپنے سرمائے کی بنیاد محنت پر رکھی ، جو آج بھی جہد مسلسل کی طرح ان کے ہر قول و فعل میں نظر آتی ہے۔ وہ نہ صرف گفتار بلکہ کردار کے بھی غازی ہیں۔ سندھو صاحب غیرمعمولی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود دیہاتی ماحول میں پلے بڑھے ، مگر شہری ماحول میں بھی اپنے گاؤں کی مٹی اور ہریالی سے عشق کرتے ہیں۔ وہ اردو میں تقریربھی کررہے ہوں تو ایسے گماں ہوتا ہے جیسے پنجابی بول رہے ہوں۔ پنجاب ، پنجابی ان کا پہلا عشق ہے۔ ملک میں ہونےوالی کرپشن پر نیب سے زیادہ ان کی نظر ہے۔وہ پاکستان کے محروم طبقات سے لگاؤ رکھتے ہیں اور اسلام میں فرقہ بندی کے سخت مخالف ہیں۔ اکثر تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمارے سیاسی طالع آزماؤں کو اسلام سے زیادہ اسلام آباد کی فکر ہے۔ ان کی کتاب دراصل وطن عزیز کے مختلف شعبوں کو کھاجانے والی دیمک کیخلاف ایک ایف آئی آر ہے۔ دیکھا گیاہے کہ اکثر شخصیات آپ بیتی لکھتے ہوئے اپنے بارے میں سچ کو ایک طرف رکھ دیتی ہیں، مگر سندھو صاحب نے اپنی زندگی کے کسی اچھے ،برے پہلو کو خفیہ نہیں رکھا۔ سندھو صاحب کی اس کتاب کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس کا سحر قاری کو اپنی گرفت میں لئے رکھتا ہے ، جھوٹ کے حوالے سے انہوں نے قومی سطح کے تضادات کو بھی خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے ، مثلاً وہ کہتے ہیں کہ 65ءکی جنگ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ دشمن نے رات کے اندھیرے میں اچانک پاکستان پر حملہ کردیا، جبکہ میری والدہ نے بتایا کہ میں 12جولائی 1965ءکو پیدا ہوا تو ایم ایس کو جنگ کے خطرے کے پیش نظر ہسپتال خالی کروانے کا حکم دیدیا گیا،اور ایک ماہ بعدیعنی6ستمبر 1965ءکو پاک بھارت جنگ چھڑگئی،یعنی ہمارے عسکری حکام کو قبل از وقت پتہ تھا کہ اس سے پہلے ہم رن آف کچھ اور آپریشن جبرالٹرتک جو کچھ کررہے تھے ، اس کے نتیجے میں بھارت کا حملہ یقینی تھا۔
افتخار سندھو مزید لکھتے ہیں کہ 71ءکی جنگ بھی دراصل 65ءکی جنگ کا ہی تسلسل تھا اور ہماری اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے ملک دولخت ہوا اور پھر بچے کھچے پاکستان کو بھی اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں ناکام رہے ، پاکستان ابھی تک معاشی استحکام کی منزل کو ترس رہا ہے۔ ہر پیدا ہونے والا بچہ لاکھوں روپے کا مقروض ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آزادی تو ہم نے حاصل کرلی ، مگر ہم نے ابھی تک آزادی کی منزل کی سمت کا تعین ہی نہیں کیا۔ سمت کا تعین ہوجائے تو گرتے پڑتے منزل پر پہنچ سکتے ہیں۔ ہماری سب سے بڑی خرابی کرپشن نہیں ، سیاسی طالع آزماؤں کا جھوٹ ہے۔ جب تک ہم جھوٹ بولنا نہیں چھوڑیں گے ، ترقی نہیں کرسکتے۔سندھو صاحب ہر بات کو منوانے کیلئے دلیل کا سہارا لیتے ہیں اور دلیل کو ہی مانتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ میں زندگی میں سا ت بار موت کے منہ سے بچا۔ جن میں سے چار دفعہ تو پانی میں ڈوبتے ڈوبتے بچ گیا۔ ہر دفعہ کوئی نہ کوئی مسیحا ان کو موقع پر آکر بچالیتا۔ اور تین ٹریفک حادثات میں بھی میں بال بال بچا۔ افتخار سندھو سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا نہیں ہوئے ، بلکہ انتہائی غریب گھرانے میں جنم لیا، مگر اپنی محنت اور اللہ پر بھروسے پر آج ایک بہت بڑی کاروباری شخصیت ہیں۔ میں نے شروع میں کہا ہے کہ افتخار سندھو نے علم و ادب کی فضائے بسیط میں ایک نئی کہکشاں کو جنم دیا ہے ، اس کہکشاں سے سرمایہ افتخار کی ایک ایک سطر جگمگ جگمگ کررہی ہے۔ خدا کرے کہ یہ کتاب جلد مارکیٹ میں آئے اور لوگوں کو ایک سچے انسان کے اندر جھانکنے کا موقع ملے۔