خبرنامہ

سر خوشی اور سر شاری کا نغمہ…..اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

سر خوشی اور سر شاری کا نغمہ…..اسد اللہ غالب

آج پہلا فون آیا، یہ اوئل صبح کا وقت تھا،لائن کے دوسری طرف میرا بارہ سالہ پوتا عفان بن عمار تھا،اس نے انتہائی معصونانہ مگر جذبات سے معمور لہجے میں بتایا کہ دا داجان ، وفاق المدارس کے حفظ قرآن ٹیسٹ میں میرے سو میں سے سو نمبر آئے ہیں۔

میں ایک الوہی خوشی سے سرشار ہو گیا، آسمانوں کی طرف دیکھا، ساتویں آسمان کی بلندیوں پر نور کا ایک ہالہ چمکا۔ میری جبیں خود بخود اس نور کے سامنے جھک گئی، یہ سجدہ شکر تھا۔عفان کی زندگی کی یہ پہلی کامیابی ہے اورمیری اکہتر سالہ زندگی کی بھی یہ پہلی کامیابی کی بڑی خبرہے ۔عفان کو ابھی نہیں پتہ کہ کامیابی کیا ہوتی ہے۔ اس نے تین سال قبل کریسنٹ اسکول میں مدرز ڈے کے ایک اجتماع میںیہ نظم سنائی تھی، میری ماں مجھ کو تیری دعا چاہئے۔ تیرے آنچل کی ٹھنڈی ہوا چاہئے تو ہال میں جو بچے ماؤں سے محروم ہو چکے تھے، ان کی آ نکھوں سے آنسووں کی جھڑی لگ گئی تھی۔مجمع میں سینکڑوں مائیں بھی موجود تھیں ، انہیں ایسے لگا جیسے گرم گرم آنسووں کے متلاطم سمندر میں غوطہ زن ہیں، یہی وہ وقت تھا جب عفان بن عمار کی دای ماں ایک ماہ آئی سی یو میں گزارنے کے بعد آخری سانس لے رہی تھی۔ میں اس کے سرہانے کھڑا تھا۔اس منظر کی تاب نہ لا سکا اور الٹے قدموں باہر نکل گیا۔ دروازے پر میرے دو بیٹے کھڑے تھے۔ میں نے انہیں کچھ نہیں بتایا۔اور کمرے میں جا کر نماز کی ادائیگی میں مصروف ہو گیا۔ میرا خیال تھا کہ کوئی دعا جو اب تک نہ مانگی ہو، وہ اپنے اللہ کے حضو پیش کروں۔مگر دعا کا وقت گز ر گیا تھا۔ عفان بن عمار کی دادی ماں نے نئی اور ابدی زندگی کو سامنے پا کر اسے سینے سے لگا لیا تھا۔ اس کے کانوں میں ننھے عفان کی آواز گونجتی رہے گی ۔ میری ماں مجھ کو تیری دعا چاہئے ،تیرے آنچل کی ٹھنڈی ہوا چاہئے ، تیرے آ نچل کی ٹھنڈی ہوا چاہئے۔ عفان کے لئے دادی ماں کی دعاقبول ہو چکی تھی۔ اس نے چند برس قبل دعا کی تھی کہ اس کا پوتا قرآن حفظ کرے، اللہ نے اس بیٹے کو ایک خاص نعمت سے نوازا ہے،۔ اس کے گلے سے الوہی نغمگی گونجتی ہے۔ یہ نغمگی پہاڑوں سے کھیلنے والے جھرنوں سے بھی پھوٹتی ہے ۔فیس بک پر ان دنوں تلاوت قرآن کی ایک وڈیو وائرل ہو رہی ہے، یہ ایک افریقی قاری شیخ نورین کی تلاوت ہے جس کی قرات کا اپنامنفرد حسن اور انداز ہے۔میں اسے بار بار سنتا ہوں اور دوستوں کے ساتھ شیئر کرتا ہوں۔شیخ نورین کی آواز میں تلاوت قرآن سن کر ایک حقیقی سر خوشی ا ور سرشاری کا احساس ہوتا ہے۔
میری زندگی کی ایک چھوٹی سی خوشی پانچویں جماعت کے ریزلٹ کا علان سن کر ان والدین اور عزیز واقارب کومحسوس ہوئی تھی جو فرروری کی ایک یخ بستہ صبح کو قصور شہر کے ایک ا سکول میں کھڑے تھے میرا نام سب سے پہلے پکارا گیا تو سب کی نظریں مجھے تلاش کرنے لگیں، یہ تلاش میرے نام کی وجہ سے تھی ۔ میں طویل قطار کے درمیان کھڑا تھا، ننگے ٹھٹھرے ہوئے پاؤں اور سردی سے بجتے ہوئے دانت ۔مجھے یوں لگا کہ سبھی لوگوں کو میرا نام سن کر اور مجھ ننھے سے ایک طالب علم کو دیکھ کر خوشی ہوئی ہے اور میں بھی اس پر خوش ہوا تھا۔خوشی ایک مہکارہے ، ایک صدا ہے ، ایک گونج ہے۔ ایک نغمہ ہے۔کبھی آپ نے برسات میں سیاہ گھٹاؤں کی مسکراہٹ دیکھی ہے، اس مسکراہٹ پر خود گھنے سیاہ بادل بھی جھوم جھوم اٹھتے ہیں اور ان کی کڑک اور گرج سے اس کا اظہار ہوتاہے۔وہ جو موسموں کے دیوانے اور فرزانے ہیں، ان کی سرخوشی اور سرشاری کا عالم دیدنی ہوتا ہے۔ چند روز پہلے مجھے وحید رضا بھٹی نے خوشی کی ایک بڑی خبر سنائی کہ ناصر کاظمی کے بیٹے باصر کاظمی کا تحریر کردہ ڈرامہ بساط کیمبرج کے اردو کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔باصر کاظمی مانچسٹر یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے استاد ہیں ، ایک بڑے شاعر کا بیٹاخود بھی ایک بڑا شاعر ہے اوراس نے بڑے شاعروں کی اردو غزلوں کا انگریزی میں ترجمہ کر کے ان شہہ پاروں کو زندہ جاوید اور لا فانی بنا دیا ہے۔ایسے ہی ایک ذہین فطین مستنصر میر بھی ہیں ، وہ امریکہ میں ہوتے ہیں، غالب اور اقبال کا ترجمہ کر کے انہوں نے اپنا نام روشن کیا ہے اور مجھ جیسے ان کے کلاس فیلو ان پر رشک کرتے ہیں، انہوں نے سی ایس پی کیا۔ کہیں ڈی سی لگے۔ اس نوکری کو چاکری سمجھا اور اپنے آپ کو علم کی جستجو کے لئے وقف کر دیا، ان کی تلاش کا سفر انہیں سات سمندر پار لے گیا، انہیں مسلم دنیا کے چند بلند پایہ اعلی مفکروں میں شمار کیا جاتا ہے، یہ میرے ملک کے لئے بھی خوشی اور سرشاری کی بات ہے۔میں نے نادرا کے چیئر مین عثمان مبین کی والدہ محترمہ کا تذکرہ کیا تھا۔ جب انہوں نے بتایا کہ ان کے بیٹے نے کیمرج کے امتحان میں پانچ جی پی اے لئے اور پھر ایم آئی ٹی سے اکٹھے دو مضامین میں گریجو ایشن کی تومجھے ممتا کے لہجے سے خوشی کے جھرنے پھوٹتے نظر آئے تھے۔ ایک سرخوشی سقراط کے ہونٹوں پر بھی اس لمحے کھیل رہی تھی جب اس نے زہر کا پیالہ پیا تھا۔ اور کہتے ہیں کہ جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔بھٹو کو پھانسی کے پھندے نے امر بنا دیا ۔ ہر کسی کی سر خوشی اور سرشاری کی کیفیت اپنی اپنی ہوتی ہے۔ہم نے عفان بن عمار کی خوشی کودو مرتبہ انجوئے کیا ہے،ایک بار جب اس نے حفظ قرآن مکمل کیا اورا سکے اسکول دارارقم نے ایک خوبصورت محفل سجائی۔ اس میں برادرم لیاقت بلوچ،امیر العظیم، جاوید قصوری اور علامہ ابتسام الہی ظہیر نے شرکت کر کے ہماری خوشیوں کو دوبا لا کیا تھا۔قرآن کا پہلا نزول غار حرا میں ہوا اور ا سکی تکمیل تیئیس برس میں ہوئی۔ عفان بن عمار نے اسے ایک برس سے کم مدت میں حفظ کر کے اپنے اسکول کا ریکارڈ بنایا۔ اس پر اسکول کے قاری صاحبان اور مالکان کی خوشی دیکھنے والی تھی۔
قرآن خالق کائنات کا کلام ہے۔ عفان بن عمار کے ذہن میں اس کلام کی نعمت محفوظ ہو گئی ہے۔اس نعمت کی سرخوشی اور سرشاری کی نغمگی سے میر ا، انگ انگ محظوظ ہو رہا ہے۔افریقہ کے شیخ نورین اور اپنے پوتے عفان بن عمار کی تلاوت سننا اب میرا معمول بن گیا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ کبھی غار حرا میں جانا نصیب ہو جس کے نصیب میں پہلی وحی الہی لکھ دی گئی تھی۔میں غار حرا کی خاموشیوں میں اس پہلی وحی کی نغمگی کو اپنے رگ و پے کا حصہ بنانا چاہتا ہوں۔