خبرنامہ

سعید احمد بے آواز نہیں…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

سعید احمد بے آواز نہیں…اسد اللہ غالب

جے آئی ٹی کی تشکیل کے بعد سے میں نے پانامہ پیپرز پر لکھنے سے گریز کیا ہے۔ مگر میرا پختہ موقف ہے کہ پانامہ پیپرز ایک الزام نامہ ہے اور اس کا بار ثبوت پانامہ پیپرز مرتب کرنے والے کے کندھوں پر ہے یا پاکستان میں اس کے نمائندے بھی موجود ہیں جو اس کا اعزاز تو حاصل کر رہے ہیں مگر کسی کورٹ ا ٓف لاء میں نہ تو انہیں طلب کیا گیا ہے، نہ انہوں نے کسی عدالت میں خود پیش ہو کر ان الزامات کا کوئی ثبوت پیش کرنے میں دلچسپی دکھائی ہے ۔ بہر حال یہ معاملہ پانامہ پیپرز کے مرتبین اور عدالت کے مابین ہے۔ وہ جو پسند فرمائیں ، وہی کریں۔ میں اس پر اعتراض کرنے والا کون ہوتا ہوں۔
جے آئی ٹی کا کردار کیا ہے، اس پر تبصرہ کیا تو جا سکتا ہے اور فریقین ہر پہلو سے اعتراضات بھی اٹھا رہے ہیں اور دا دو تحسین کے ڈونگرے بھی برسا رہے ہیں مگر میری بھی وہی رائے ہے جو متحدہ اپوزیشن کی ہے کہ عدالت کے فیصلے کا انتظار کیا جائے۔ ایک اعتراض کا جواب البتہ فوج نے دے دیا ہے کہ جے آئی ٹی میں ایم آئی اور ا ٓئی ایس آئی کے نمائندے سپریم کورٹ کے حکم اور اس کی ماتحتی میں کام کر رہے تھے، اس میں ان نمائندوں کے اداروں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے تاہم فوج نے سازش کے الزامات کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ یہ تبصرے کے لائق نہیں ہیں۔
مگر ایک شخص جسے بے آواز سمجھ لیا گیا ہے اور کوئی بھی ٹی وی کیمروں کے سامنے اس کا دفاع نہیں کر رہا جبکہ فریق مخالف بار بار ان کو مطعون کرتے چلے جا رہا ہے۔ میں اس شخص کے بارے میں جوکچھ ماضی میں کہہ چکا ہوں اسے دہرانے کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ اس کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
یہ شخص سعید احمد ہے جسے راوین سعید احمد چمن کے نام سے جانتے ہیں اور پہچانتے ہیں۔ پچھلے دو روز میں مجھے امریکہ ا ور پاکستان سے فون موصول ہو رہے ہیں۔گجرات سے غضنفر علی گل نے کہا ہے کہ اس شخص نے اپنی محنت اور ذہانت کے بل بوتے پر زندگی بسر کی اور اس نے کوئی پیسہ نہیں جوڑا ، وہ حق حلال کی کمائی پر گزارا کرتا رہا اور اس کی ا ولاد بھی اس کی حلا ل کی روزی پر پلی بڑھی ۔ اس کے حق میں آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ امریکہ سے خواجہ عرفان انور نے بھی اسی پریشانی کے عالم میں کال کی ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو میری طرح سعید احمد کو اسو قت سے جانتے ہیں جب وہ میٹرک میں فرسٹ کلاس فرسٹ کے اعزاز کے ساتھ فرسٹ ایئر میں داخل ہوا۔ وہ والدین کے سائے اور شفقت سے محروم تھا اور ایک چھوٹے سے گھر میں اس کی خالہ اس کی پرورش کر رہی تھی۔ سعید احمد نے اپنے تعلیمی ریکارڈ قائم رکھا اور ہر امتحان میں یہی ا عزازحاصل کیا۔ وہ مجلس اقبال جیسی اعلی ادبی معیار کی سوسائٹی سے وابستہ رہا اور کالج کے مؤقر ادبی مجلے راوی کا بھی ایڈیٹر رہا۔ اس نے ایکچوئری کیا اور پھر بنکاری ا ور سرمایہ کاری کے اعلی کورسز کے لئے امریکی یونیورسٹیوں سے بھی رجوع کیا۔ میری دانست میں اس نے کبھی کوئی کاروبار نہیں کیا، کوئی صنعت نہیں لگائی، ہو سکتا ہے، اس کی زندگی خوش حال ہو ۔ اس کی وجہ اس کی پیشہ ورانہ صلاحیت ہے، اسے پاکستان میں فیصل بنک کے بانی صدر کا منصب پیش کیا گیا مگر اس نے اسے قبول نہیں کیا۔ موجودہ دور میں اسے اسٹیٹ بنک میں اسلامی بنکاری کے فروغ کے لئے پاکستان ا ٓنے کی دعوت دی گئی، یہ ایک نیکی کا کام تھا، اس لئے وہ پاکستان چلا آیا، بعد میں اسے اسٹیٹ بنک کا ڈپٹی گورنر کامنصب پیش کیا گیا اور یہاں اپنی ٹرم گزارنے کے بعد اسے نیشنل بنک کا صدر مقرر کیا گیا، اس تقرری کے لئے مروجہ طریق کار اختیار کیا گیا۔ اور وزیر خزانہ نے تین مناسب نام وزیر اعظم کو ارسال کئے ، اس کے بعد وزیر اعظم کی صوابدید ہے کہ وہ جس کو چاہے مقرر کر دیں۔ آرمی چیف کی تقرری بھی اسی طریق کار کے تحت کی جاتی ہے اور دیگر اہم تقرریوں کا فیصلہ بھی اسی طریقے پر کیا جاتا ہے اور یہ طریقہ ہر حکومت اختیار کرتی ہے۔
جہاں تک غیر سودی ا ور اسلامی بنکاری میں اس کی مہارت کا تعلق ہے تواس میں کسی کے لئے اعتراض کی گنجائش نہیں ، نہ ان کی اس مہارت پر کوئی انگلی اٹھا سکتا ہے۔ مولانا نقی عثمانی اس میدان کے شناور ہیں اور عالم ا سلام میں غیرسودی بنکاری کے ماہر تسلیم کئے جاتے ہیں، سعید احمد کی ان سے ا ور ان کے خاندان سے قربت ڈھکی چھپی نہیں۔ پاکستان میں یہ ان کا واحد رشتہ ہے جو کالج سے نکلنے کے بعد میرے علم میں ہے، کالج کے دوستوں سے بھی ان کا رابطہ کم کم ہے اور پاکستان کے سیٹھ طبقے کو نہ وہ جانتے ہیں، نہ ان میں سے کسی کے ساتھ ان کے مراسم ہیں۔ اسحق ڈار ان کے کلاس فیلو ہیں اور شاید نواز شریف بھی، لندن میں نوازشریف کا دل دا ل چاول کھانے کو چاہتا ہے تو وہ سعید احمد کے گھر جاتے ہیں اور بلا تکلف بھابھی صاحبہ سے فرمائش کر دیتے ہیں۔ سعید احمد کس قدر امیر ہیں ، اس کا اندازہ مجھے ان کی ایک بار پاکستان ا ٓمد سے ہوا، وہ اپنی بیوی کو دانتوں کے علاج کے لئے لاہور میں شادمان کے ایک معمولی سے ڈینٹسٹ کلینک میںلائے تھے۔ اگر وہ پیسے والے ہوتے تو دانتوں کا علاج لند ن میں بھی ممکن تھا، انہوںنے مجھے بھی اس کلینک سے علاج کی سفارش کی ، میں وہاں گیا بھی مگر جس کمرے میں مجھے مشین پر بٹھا کر انتظار کرنے کو کہا گیا، وہ اس قدر گرم تھی کہ میں وہاں سے کسی کو بتائے بغیر بھاگ نکلا۔ مجھے بہت بعد میں پتہ چلا کہ کلینک کے ڈاکٹر صاحب نے سعید احمد کو میرے اس فرار کی داستان سنائی۔
سید احمد سوشل میڈیا پر موجود ہیں ، ان کا واٹ ایپس اکائونٹ قرآنی آیات ا ور ان کی تشریح، احادیث مبارکہ اور صحابہ کرامؓ کے اسوہ حسنہ سے بھرا ہوتا ہے۔ ایک بار انہوں نے میرے بارے میں لکھا کہ کالج کے دنوںمیں وہ مجھے اپنامینٹر سمجھتے تھے۔ یہ پڑھ کر میری بیگم صاحبہ نے کہا کہ کیا آپ اب ان کے لئے مثالی نمونہ نہیں بن سکتے۔ فیس بک پر میںنے ان کی اب تک صرف دو تصاویر دیکھی ہیں، ان میں وہ مسجد نبوی میں روضہ رسول ﷺ کے سامنے نوافل اد اکرتے نظر آتے ہیں ، ان کے ایک طرف اسحق ڈارا ور دوسری جانب نواز شریف کھڑے ہوتے ہیں،پاکستان آمد کے بعد ان کی ایک تصویر اور منظر عام پر آئی ہے جو شاید اسٹیٹ بنک نے ان کے پروفائل کے ساتھ جاری کی تھی۔نورانی چہرہ، شانت آنکھیں اور عجز و انکسار کا پیکر۔
میں یہ سب اس لئے لکھ رہا ہوں تاکہ خدا کے سامنے جواب دے سکوں کہ جب اس شخص کی برائیاں بیان کی جا رہی تھیں تو میں نے اس کی نیکیوں کا ذکر کر کے اپنا فرض ادا کیا۔ آج ہر کوئی میاں شریف، نواز شریف، شہباز شریف، حسین نواز، حسن نواز، مریم نواز، طارق شفیع کا دفاع کر رہا ہے مگر سعید احمد کا دفاع کرنے والا کوئی نہیں اورجو دفاع میرے پاس امانت کے طور پر محفوظ ہے، میںنے پبلک کے سامنے رکھ دیا ہے، میں کسی جے ا ٓئی ٹی یا عدالت کو متاثر نہیں کرنا چاہتا، مجھے عدلیہ کااحترام عزیز ہے مگر ہر طرف چیخ چنگھاڑ جاری ہے تو جس حد تک میری معلومات ہیں ، وہ میں نے قارئین کے سامنے پیش کر دی ہیں، اگر تفتیش کے دوران عدلیہ کو سعید احمد کے بارے میں کوئی منفی شواہد ملے ہیں تو وہ ان کے مطابق فیصلہ کرنے کا کلی اختیار رکھتی ہے اور یہ سب کچھ میرے لئے بھی حیران کن اور پریشان کن ہو گا۔