خبرنامہ

سعید احمد کے لئے دعا گو ہوں….اسداللہ غالب

مجھے معلوم ہے کہ میرا یہ بے مایہ کالم میرے دوست کی کوئی مدد نہیں کر سکتا، وہ اپنے دفاع ا ور صفائی کے لئے کروڑوں کا وکیل کر سکتا ہے۔مگر میں اپنا فرض کیوںنہ نبھاﺅں!

نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے، میاں نواز شریف جی ٹی روڈپر مارچ کے دوران بار بار پوچھتے رہے کہ انہیں کیوں نکالا گیا، ان کی پکار پر کسی نے کان نہیں دھرے اور انہیں نیب کے شکنجے میں کس دیا گیا، ابھی ان پر بڑی بڑی آفتیں آ سکتی ہیں کیونکہ وہ احتساب کے عمل کا نہیں، انتقام کے عمل کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔اور یہ انتقام خالی ان کی ذات کے خلاف نہیں، ان کے پورے خاندان کے خلاف ہے، ا س عمل کو احتساب کہہ لیں ، انصاف کہہ لیں یا انتقام سمجھ لیں۔بھٹو کو جس کیس میں پھانسی ہوئی، اس میں نہ کبھی پہلے کسی کو پھانسی دی گئی، نہ بعد میں۔ لیاقت علی خان کو گولی ماری گئی، کسی نے آج تک اس کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی۔،مرتضی بھٹو کو سیدھی گولیوں سے ایک مصروف شاہراہ پر بھون دیا گیا، کسی نے اس قتل عمد کا کھوج نہیں لگایا، محترمہ بے نظیربھٹو کو سر عام دہشت گردی میں شہید کر دیا گیا، ان کی جائے شہادت کو فوری طور پر دھو ڈالا گیا، جو قاتل لیگ تھی، اسے نائب وزیر اعظم بنا لیا گیا، مشرف پر قتل کا شبہہ تھا ، وہ آزاد پھر رہا ہے ، اس کے لئے کسی نے ریڈ وارنٹ جار ی کرنے کا تکلف نہیں کیا۔ مولوی تمیز الدین کی اسمبلی ٹوٹی ، وہ عدالتوںمیں خوار ہوتے پھرے، یحییٰ خان نے ملک توڑا، اس سے کسی نے باز پرس نہیں کی، ضیا نے ملک میں فرقہ بندی، انتہا پسندی، کلہ فنڈ ،ہیروئن اور کلاشنکوف مافیا کو فروغ دیا، اس سے کسی نے حساب نہیں مانگا، مشرف نے آدھی رات کو امریکی فون کال پر کسی سے مشورہ کئے بغیر ملک کو وارا ٓن ٹیرر کے دوزخ میں دھکیل دیا ، اس کی وجہ سے معیشت کھوکھلی ہو گئی، ایک سو بیس ارب کا ٹیکا لگ گیا، ایک لاکھ کے قریب لوگ شہید یا زخمی یا معذور ہوئے، امریکہ کہتا ہے کہ پاکستانی پیسہ کھا گئے اور الٹا دہشت گردوں کو پالتے پوستے رہے ، مگر مشرف سے کوئی پوچھنے کی جرات نہیں کر سکتا کہ امریکی پیسہ کہاں ہے۔۔ مگر نوازشریف اور ان کے خاندان کو انتقام کی چکی میں جھونک دیا گیا ہے، تو کون ہے جو انہیں بچا سکے، میرے لئے دکھ کی بات یہ ہے کہ گندم کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے اور اس وقت اندیشہ ہے کہ میرے دوست کوبھی کوئی گزند نہ پہنچ جائے۔ میں نے لاکھ کہا کہ میں اس کی بے گناہی کی ¿قسم خانہ کعبہ میںکھا سکتا ہوں، پہلے زمانے میں گنجلک تنازعات قسم پر ختم ہو جاتے تھے، میرے بارے میں کوئی کہہ سکتا تھا کہ میں باسٹھ تریسٹھ پر پورا نہیں اترتا ، مگر سعید احمد نے پہلی جماعت سے بی اے آنرز تک کی تعلیم لاہور کے تعلیمی اداروں میں حاصل کی، ایک اشتھار دے دیا جاتا کہ جو کوئی باسٹھ تریسٹھ پر پورا اترتا ہے ا ور اس کی بے گناہی کی قسم کھانے کو تیار ہے تو مجھے یقین ہے کہ کم ازکم ہزاروں ایسے لوگ ہوں گے جو سعید احمد کی قسم کھانے کو تیار ہو جاتے مگر اب معاملہ قسم سے آ گے نکل چکا ہے، کردار کشی سے بھی آگے نکل چکا ہے ، اب تو فیصلے سنانے کی دیر ہے، ٹکٹکیاں سامنے نظر آ رہی ہیں۔جب ملک کا فنکشنل وزیر خزانہ ملزم بنا دیا جائے تو سعید احمد بے چارہ کس کھیت کی مولی ہے۔
میں سعید احمد کو پیر کی صبح ملا، اس نے چند دوستوں کو ناشتے پر مدعو کیا تھا۔، چھ سات افراد ہوں گے ،ان میں سے میں صرف ایک کو جانتا ہوں، خواجہ خورشید انور کے فرزند خواجہ عرفان انور۔ ا مریکہ اور پاکستان میں بیک وقت پائے جاتے ہیں، امریکہ میں کیا کرتے ہیں ،مجھے معلوم نہیں، باقی چند افراد کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ سب سعید احمد کے گورنمنٹ کالج کے کلاس فیلو تھے۔ میں ان سے ایک سال ا ٓگے تھا، اس لئے عرفان انور کے سوا کسی سے واقف نہیں، ایک صاحب واشنگٹن سے تشریف لائے تھے۔پیشے کے لحاظ سے بینکر، ایک پولیس سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ ناشتے کے بعد مجھے ایک گھنٹہ سعید احمد سے تخلئے میں بھی ملنے کا موقع ملا اور میں نے جے آئی ٹی سے بھی بڑھ کر اس پر جرح کی۔ اس کا موقف تھا کہ وہ بے گناہ ہے ، اس نے جے آئی ٹی ا ور عدا لت کے سامنے سچ بولا ہے اور اگر اسے سچ بولنے کی پاداش میں کوئی سزا ہو جاتی ہے تو اسے اس پرکوئی افسوس نہیں ہو گا، وہ اسے مشیت ایزدی سمجھ کر خندہ پیشانی سے قبول کرے گا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں آپ کی بے گناہی کی شہادت دینے کے لئے آخری بارلکھنا چاہتا ہوں،اس نے مجھے سختی سے منع کیا کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا، الٹانقصان ہو سکتا ہے۔ میں یہ سطور اس کی مرضی کے برعکس اورا س کا اعتماد مجروح کرتے ہوئے لکھ رہا ہوں اور ایک بار پھر شہادت دیتا ہوں کہ روئے زمین پر لاکھوں پارسا ہوں گے مگر سعید احمد جیسا پارسامیںنے ذاتی طور پر اور کوئی نہیں دیکھا، وہ نمازی ہے، پرہیز گار، سنت رسول کااتباع کرتا ہے ا ور سوشل میڈیا پر نیکیوں کا پرچار کرتا ہے، وہ ا یسی وڈیو ڈھونڈ کر شیئر کرتا ہے جن میں فلسطینیوں، کشمیریوں اور روہنگیا مسلمانوں پر سنگین مظالم کی تفصیل دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
سعید احمد کا تعلیمی کیریئر شاندار اور قابل رشک ہے۔ وہ ہمیشہ فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن لیتا رہا ۔ اس نے ایکچوئری کی، اس نے ساری عمر اعلی عالمی مالیاتی اوربینکاری اداروں کی ملازمت کی، اسے فیصل بنک کا بانی صدر بننے کی پیش کش ہوئی مگر وہ پاکستان میں اب آیا ہے جب اس سے کہا گیا کہ وہ ملک کے بنکاری نظام کو اسلامی بنیادوں پر استوار کرے، تاکہ اسے سود کی لعنت سے پاک کیا جا سکے۔،یہ ہنر اس نے مولانا تقی عثمانی سے سیکھا ہے جن کی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف ہے۔ اس مقصد کے لئے انہیں ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بنک تعینات کیا گیا، مگر اب نیشنل بنک کی بگڑتی حالت کو سدھارنے کے لئے اسے موجودہ منصب پر فائز کیا گیا، اس نے اس بنک کی حالت کیا سدھارنا تھی کہ جس روز سے اس نے چارج سنبھالا ہے، اسے عمران خان نے چارج شیٹ کرنا شروع کر دیا۔ عمران خان کی ہر کوئی سنتا ہے ، اس لئے سعید احمد کو جے آئی ٹی کے سامنے بھی پیش ہونا پڑا جہاں یہ بے پر کی ا ڑائی گئی کہ اس پر گبھراہٹ طاری ہو گئی اور وہ کولیپس ہو گیا اور اسے طبی امداد دینے کے لئے ایمبو لینس اور ڈاکٹر کو بلانا پڑا، سعید احمد کہتا ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے، میں کیوں گھبراﺅں گا، مجھے خوف ہے تو صرف اپنے خدا سے،میڈیا میں یہ جھوٹ بھی شائع ہوا کہ ا س نے ایک اکاﺅنٹ کھولا اور خالی چیک بک پر دستخط کر کے اسحق ڈار کے حوالے کر دی، اس نے کہا کہ میں جے آئی ٹی اور عدالت کو ایک ایک حقیقت بتا چکا ہوں ادر اگر اس پر کوئی پکڑ ہوتی ہے تو میں اسے بھگتوں گا ، اپنے رب کی رضا سمجھ کر اسے بھگتوں گا، مجھے نہ کوئی غم ہے ، نہ ملا ل ، نہ دکھ اور نہ کوئی گبھراہٹ۔ مگر میں جانتا ہوں کہ میں بے گناہ ہوں ،اس لئے اپنا کام معمول کے مطابق انجام دے رہا ہوں، مجھے بلیم گیم کے ذریعے پریشان کرنے کی ضرور کوشش کی جاتی ۔
یہ ہے سعید احمد کے بارے میں سارا سچ۔ میں ایک اخبار نویس ہوں اور حقائق لکھنا میرا پیشہ اور فریضہ ہے۔ سعید احمد کی بھلائی کی دعا کرتا رہوں گا۔
میرااور اس کا کوئی موازنہ نہیں، وہ اس ملک کا حاکم ہے، اعلی تعلیم یافتہ ہے۔اس کے دنیا بھر میں رابطے ہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کے سامنے میری کوئی حیثیت نہیں، اس لئے ا س سے درخواست کی ہے کہ وہ مجھے آئندہ اپنی بارگاہ میں نہ طلب کیاکرے۔میں احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہوں۔