خبرنامہ

سوشل میڈیا ، دہشت گردوں کا نیا ہتھیار… اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

سوشل میڈیا ، دہشت گردوں کا نیا ہتھیار… اسد اللہ غالب

پاکستان میں سوشل میڈیا دہشت گردوں کے ہاتھ میں آیا تو انہوں نے اس کے ذریعے تباہی و بربادی کا بھیانک کھیل کھیلا۔ساری دنیا انٹرنیٹ کے ذریعے تعلیم عام کر رہی ہے۔سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے معلومات کا دائرہ وسیع کر دیا گیا ہے ، اب لوگوں کو گھر بیٹھے روزگار میسر آتے ہیں ،لوگ کروڑوں کا بزنس چلاتے ہیں۔یونیورسٹیاں اور کالج، بلکہ پرائمری سکول میں بھی گھروں میں بیٹھے طالب علم کلاسیں لے رہے ہیں۔ویڈیو کانفرنسیں ہو رہی ہیں ‘یو ٹیوب ٹویٹر فیس بک انسٹا گرام نے دنیا کو ایک گلوبل ویلیج میں تبدیل کر دیا ہے جس سے انسانوں کے باہمی رشتے استوار ہو رہے ہیں اور وہ لمحہ بہ لمحہ مضبوط سے مضبوط تر ہو رہے ہیں۔مگر جب یہی سوشل میڈیا غیر ذمہ داروں کے ہاتھ میں چلا جائے تو یہ ایسے ہے جیسے بندر کے ہاتھ میں استرا دے دیا جائے اسی طرح دنیا میں تخریب کاروں ،شورش پسندوں ،دہشت گردوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے قیامتیں برپا کر دی ہیں۔سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ استعمال نے چھوٹے بچوں کا مستقبل تاریک کر دیا ہے۔ہر گھر میں بچے موبائل فون، ٹیب یا لیپ ٹاپ پر جھکے دکھائی دیتے ہیں جس سے ان کی نظریں خراب ہورہی ہیں اور انہیں چھوٹی عمر میں ہی عینکیں لگ گئی ہیں۔وہ جھگڑالو بن گئے ہیں۔چیخ چیخ کر بولنا ان کی عادت ہو گئی ہے۔وہ والدین اور اپنے استادوں کے نافرمان بنتے جا رہے ہیں۔یہی حال بڑی عمر کے لوگوں کا ہے ، موبائل فون کو بستر پر لیٹے لیٹے استعمال کرتے ہیں تو ان کے بازو اور گردن کے پٹھے کھنچ جاتے ہیں۔معاشرے میں ہر طرح کے لوگ ہیں ، بری ذہنیت والے ، سوشل میڈیا کے ذریعے دوسرے لوگوں کی عزتیں اچھالتے ہیں۔خفیہ طریقوں سے لڑکیوں کی برہنہ تصویریں یا فلمیں تیار کی جاتی ہیں اور انہیں سوشل میڈیا پر وائرل کرکے شریف گھرانوں کو بلیک میلنگ کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور خاندانوں کے درمیان لڑائی جھگڑے عام دیکھنے میں آ رہے ہیں۔انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا جب سے بڑے ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ لگا ہے تو انہوں نے اسے ففتھ جنریشن وار کا ذریعہ بنا لیا ہے۔وہ جنگیں جو میدانوں میں ،فضا?ں میں اور سمندروں میں لڑی جاتی تھیں اب وہ موبائل فون کی چھوٹی سی سکرین پر لڑی جا رہی ہیں۔مخالف ملکوں کے عوام کو ایک طوفانی پروپیگنڈے کے ذریعے گمراہ کیا جاتا ہے۔ان کی سوچ میں بگاڑ پیدا کیا جاتا ہے۔ان کی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جاتا ہے۔ان میں رنگ و نسل ،فرقہ بازی ، صوبائیت، زبان و ثقافت کے اختلافات کو ہوا دے کر ان کے درمیان پھوٹ ڈالی جاتی ہے۔ اس شیطانی کام کے لیے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم استعمال کیے جاتے ہیں۔انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا نے ملکوں کی سرحدیں مٹا کر رکھ دی ہیں اور سپر پاور یا منی سپر پاور اپنے استعماری عزائم کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہو رہی ہیں۔ذہن سازی کے ذریعے قوموں کو غلام بنایا جا رہا ہے۔یہ استعماری اور نو آبادیاتی نظام کی ایک نئی شکل ہے۔جس کا زہر آہستہ آہستہ پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔وطن عزیز میں سوشل میڈیا نے ایک سونامی کی شکل اختیا ر کر لی ہے۔عمران خان اور ان کی تحریک انصاف نے سوشل میڈیا کو اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے استعمال کیا ہے۔اس سے خاص طور پر نوجوانوں کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔عمران خان نے سوشل میڈیا کو اپنے بھیانک سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے آلہ کار بنا لیا ہے۔ اس نے آئینی ، قانونی اور اخلاقی حدوں کو پامال کرکے رکھ دیا ہے اور نو جوان لڑکے لڑکیوں کو دن رات پروپیگنڈے کے ذریعے یہ باور کرا دیا ہے ان کی بیروزگاری ،معاشی بدحالی اور مہنگائی صرف اور صرف فوج کے ادارے نے پھیلا رکھی ہے۔ اصولی طور پر کسی بھی ملک کی جغرافیائی یا نظریاتی سرحدوں کے دفاع کے لیے ایک مضبوط اور ڈسپلن کی پابند فوج کا ہونا ضروری ہے۔پاکستانی فوج بھارت اور دیگر عالمی طاقتوں کو کھٹکتی ہے۔جب سے ہماری بہادر اور پیشہ ورانہ فوج نے اپنے دفاع کو یقینی بنانے کے لیے جوہری صلاحیت کامیابی سے حاصل کر لی ہے تب سے پاکستان دشمن قوتوں کی ایک ہی سوچ ہے کہ اب پاکستان کو روایتی جنگ کے ذریعے زیر نہیں کیا جا سکتا۔اس لیے پاکستانی فوج کو کمزور کرنا ان کی سازشوں کا ایک بڑا ہتھکنڈا بن گیا ہے۔پاکستان مخالف قوتیں ایک عالمی سازش کے تحت فوج اور عوام کے درمیان تفریق پیدا کرنے میں مصروف ہیں وہ فوج کے اندر پھوٹ ڈالنے کے لیے کوشاں ہیں۔تاکہ وہ اپنے مذموم عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں۔عمران خان اور تحریک انصاف کی شکل میں انہیں پاکستان کے اندرسے ایک ایسا آلہ کار مل گیا ہے جس نے نوم مئی کو وہ کھیل کھیلا ہے جو پاکستان دشمن قوتیں پچھلے پچھتر سال میں انجام نہیں دے سکیں۔عمران خان اور ان کے پیرو کار شبانہ روز فوج کو بدنام کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔عمران خان اپنے بھٹکے ہوئے پیروکاروں کا نت نیا بیانیہ فراہم کر رہے ہیں۔کبھی وہ آرمی چیف کو میر جعفر اور میر صادق کی طرح غدار قرار دیتے ہیں کبھی وہ انہیں نیوٹرل اور جانور کہہ کر ان کی تذلیل و تضحیک کرتے ہیں ،کبھی وہ فوج کے کاروبا ری اداروں کو ٹارگٹ کرتے ہیں۔انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے ایک منظم سازش برپا کی اور نو مئی کو ان کے مکروہ عزائم کھل کر سامنے آ گئے۔انہوں نے چند گھنٹوں کے اندر دو سو فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔لاہور کے کور کمانڈر ہا?س کو شعلوں کی نظر کیا گیا اور اسے خاکستر کر دیا گیا۔اس گھر میں موجود قائد اعظم کے نوادرات کو مٹا ڈالا گیا۔کہیں آئی ایس آئی کے دفاتر پر چڑھائی کی گئی ،کہیں ملک کے فضائی اڈوں پر یلغار کرکے لڑاکا طیاروں کو جلانے کی کوشش کی گئی۔کہیں نشان حیدر پانے والوں کے مجسمے روند ڈالے گئے۔اور کہیں پاک فوج کے شہدا کی بے حرمتی کی گئی۔اس میں اب کوئی شک باقی نہیں رہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے دہشت گردوں ، تخریب کاروں اور بلوائیوں کے جتھوں کو یہ سارے ٹارگٹ فراہم کیے گئے تھے۔ سوشل میڈیا کا اس قدر غلط استعمال انسانی تاریخ میں دیکھنے میں نہیں آیا۔یقینی طور پر یہ سارا کچھ ففتھ جنریشن وار کی ذیل میں آتا ہے۔پاکستانی قوم کو ایک نیا چیلنج درپیش ہے سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم ہماری آزادی اور قومی سلامتی کو زیر و زبر کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ہمیں اس چیلنج سے نبرد آزما ہونا ہے۔امریکہ نے نائن الیون کے بعد قومی سلامتی کے نئے اصول وضع کیے اور ہوم لینڈ سکیورٹی اداروں کو بے مہابہ اختیارات دے دیے گئے۔امریکی عوام کے ایک طبقے نے اسے آزادی اظہار کے منافی قرار دیا۔اس پر امریکی صدر نے سوشل میڈیا کے مالکان کی ایک میٹنگ بلائی اور انہیں خبردار کیا اگر انہوں نے اپنے اداروں پر سنسر نہ لگایا تو ان مالکان کو جیل کی کال کوٹھریوں میں پھینک دیا جائے۔اسی طرح برطانیہ میں بچوں کے ساتھ جنسی آزادی کی دیڈیو وائرل ہوئی اور خود کشی کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا گیا اور برطانوی وزیر اعظم نے بھی سوشل میڈیا مالکان کو یہی دھمکی دی تھی کہ وہ یا تو سینسر شپ نافذ کریں یا جیلوں میں جانے کی تیاری کریں۔پاکستان کو بھی اسی طرح اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ وہ بے لگام سوشل میڈیا کو نکیل ڈالے یا اپنے قومی اداروں کو دہشت گردوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہونے دے۔ملکی مفاد بارے فیصلہ کرنے میں اب کوئی تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔