خبرنامہ

سول ملٹری تناؤ:ولے بخیر گزشت۔۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

صڈ شکر کہ کسی ایک مسئلے پر لوگوں کو سکون کا سانس لینے کا موقع لا ہے۔حکومت ا ور فوج دونوں کی طرف سے کہا کیا گیا ہے کہ نیوز لیکس کا مسئلہ متفقہ طور پر حل ہو گیا ہے۔ فوج نے اپنا ٹویٹ واپس لے لیا ہے جس میں حکومتی کاروائی کو نامکمل قرار دیتے ہوئے مسترد کیا گیا تھا اور حکومت نے نیا نوٹی فیکیشن جاری کر دیا ہے جس پر فوج نے بھی اطمینان کاا ظہار کیا ہے۔
یہ مسئلہ کسی اخبار میں متنازعہ خبر کی اشاعت سے پیدا ہوا، فوج نے کہا کہ خبر من گھڑت ہے اور جس نے یہ حرکت کی ہے، اسے منظر عام پر لایا جائے، فوج نے اس کے لئے ایک ہفتے کی ڈیڈ لائن دی ۔ مگراس ڈیڈ لائن پر کوئی اصرار نہیں کیا، اس دوران میں جنرل راحیلہ شریف ریٹائر ہو گئے اور نئی فوجی کمان نے ایک بار پھر مطالبہ کیا کہ اس من گھڑت خبر کے ذمہ داروں کے خلاف تحقیقاقت مکمل کی جائیں ۔ شور شرابہ جاری رہ ا، اس دوران تحقیقات بھی ہوتی رہیں مگر کوئی نتیجہ سامنے نہیں آ رہا تھا، فوج نے اس پراندر خانے کیا رد عمل ظاہر کیا، اس کا کسی کو علم نہیں مگر عوام سمجھ رہے تھے کہ ا س ملک میں جس طرح سابقہ تحقیقات کا حشر ہوا ہے، اس بار بھی وہی ہو گاا ور اس مسئلے کو وقت کی گرد میں دفن ہونے دیا جائے گا۔بہر حال وزیر اعظم نے تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں ایک کاروائی کی ، فوج کو یہ اقدام پسند نہ آیا اور ایک نیا جھگڑا کھڑا ہو گیا کہ فوج نے ٹویٹ کیوں کیا، وزیر داخلہ نے اسے جمہوریت کے لئے زہر قاتل کہاا ور سول سوسائٹی اور میڈیا نے بھی خوب خوب حاشیہ آرائی کی، اس جلتی آگ پر ہر کوئی تیل تو ڈال رہا تھا، اسے بجھانے والاکوئی نہ تھا۔ فوج اور حکومت کے ٹکراؤ کو اندرون ملک اور بیرون ملک مزید شہہ دنے والے بہت تھے ، حکومت اس حد تک سچی تھی کہ اس کی فوج پر بالا دستی ہونی چاہئے مگر خفیہ ہاتھ اس بالادستی کے علاوہ کچھ اور بھی چاہتے تھے۔ وہ یا تو فوج کو اس حد تک ذلیل و رسو کرنا چاہتے تھے کہ اسے سرینڈر کرنا پڑے اورعوام کے اندر اس کی کوئی عزت اور حرمت باقی نہ رہے، اور اس امر کی کوشش کرنے والے بھی بہت تھے کہ فوج کو اشتعال دلا کر اسے حکومت کی بساط لپیٹنے پر مجبور کر دیا جائے اور جمہوریت کا بوریا بستر بھی گول ہو جائے۔ میں کسی پر الزام عائد نہیں کرتا مگر دھرنے کے دنوں میں عمران خان نے کئی بار کہا کہ امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے۔مگر فوج نے تحمل ، بردباری اور قانون کے راستے پر چلتے ہوئے کسی بکھیڑے میں پڑنے کی ذرا بھی کوشش نہ کی،اب بھی فوج نے کسی انا کا مظاہرہ نہیں کیا اور ملک ، قوم، اور جمہوریت کی خاطر اپنا ٹویٹ واپس لینے میں پہل کی ہے، کوئی ا سے فوج کی سبکی کہتا رہے، کوئی اسے سرینڈر سے تشبیہہ دیتا رہے مگر فوج نے تماشہ نہیں لگنے دیا، اس لئے کہ تماشہ لگانااس کا مقصود نہ تھا۔ ،گرحکومت کو بھڑکایا گیا کہ اس کی سبکی ہو گئی،ایک ماتحت ادارے نے باغیانہ روش اختیار کی، کچھ لوگ تو حد سے بڑھ گئے کہ ایک اسٹینو گرافر کی کیا جرات کہ وہ حکومت کو آنکھیں دکھائے۔
داد دینی چاہئے کہ حکومت بھی کسی انگیخت میں نہیں آئی، ایک اصولی مسئلہ اپنی جگہ پر درست تھا کہ حکومت کو فوج پر بالا دستی حاصل ہے ، بظاہرا س بالا دستی کو فوج نے چیلنج نہین کیا تھا ، وہ تو حکومت ہی سے مکمل کاروائی کے لئے کہہ رہی تھی مگر آفرین ہے فونوں فریقوں پر کہ کہیں کوئی غلط فہمی پیدا بھی ہوئی تو اس پر افہام و تفہیم سے قابو پا لیا گیا ، میں نے تو کہا تھا کہ اسحق ڈار کا فائر بریگیڈ کہاں ہے، پتہ چلا کہ وہ امریکہ اور جاپان کے دورے پر تھے ، واپس آئے تو انہی نے مذاکرات کار کے فرائض انجام دیئے، فوج سے بار بار ملے ا ور وزیر اعظم نے بھی پانچ دنوں میں پانچ اجلا س اسی مقصدکے لئے کیئے ، بال آخر جوش پر ہوش و حواس کو بالا دستی حاصل ہوئی اور معاملہ بخیر وخوبی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔
مگرگھر پھونک تماشہ دیکھ والے عناسر کو ابھی چین نہیں۔،کہتے ہیں کہ حکومت ا ور فوج آپس میں مک مکا نہیں کر سکتے تھے، اور یہ بھی مطالبہ ہے کہ جن کے خلاف ایکشن لیا گیا ہے، ان کا گناہ بتایا جائے، اور جس اخبار نے خبر چھاپی ، اس کے خلاف کیا کاروائی ہوئی۔کوئی اسے قومی سلامتی کا مسئلہ قرار دے کر عوام کو درمیان میں لے آتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ حکومت اور فوج ہی کے درمیان تھا اور دونوں نے جیسے بہتر سمجھا اسے حل کر لیا ، اب آپ چڑ چڑ کرتے ہیں۔یہ تو آپ کی عادت ہے۔
اس ایک واقعے نے اس اصول کو واضح کر دیا کہ حکومت کو فوج پر بالا دستی حاصل ہے۔یہ بالا دستی ہونی بھی چاہئے ۔ایسی ہی بالا دستی حکومت کو ہر ریاستی ادارے پر ہونی چاہئے مگر عملی طور پر ایسا نہیں ہے ، دنیا میں بھی نہیں ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے سامنے سی آئی اے تن کر کھڑی ہے۔وہ ایک منتخب آئینی صدر پر ا؛لزام لگا رہی ہے کہ اس نے روس کی مدد سے صدارتی الیکشن میں دھماندلی کی۔ امریکہ میں اس اختلاف اور بلیم گیم کے ہوتے ہوئے کہیں ہا ہا کار نہیں مچی ہوئی۔اب ٹرمپ اور ایف بی آئی کے درمیان ٹھن گئی ہے اور ایف بی آئی کے نئے قائممقام سربراہ نے حکومت کا یہ الزام مسترد کر دیا ہے کہ سابق سربراہ کو ادارے کے ملازمین کا اعتماد حاصل نہیں تھا۔ یہاں بھی مسترد کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں مگر امریکہ والے وہ شور شرابا نہیں مچا رہے جو پاکستان میں شب وروز دکھائی دیا اور سننے میں آیا۔
پاکستان میں سرکاری ادروں کے ملازمین ہڑتال کرتے ہیں ، یہ ہڑتال ان کا حق ہے، بساا وقات وہ جلسے جلوس بھی منعقد کرتے ہیں، اس میں پولیس تشدد بھی ہوتا ہے ، پھر حکومت اور ملازمین میں مذاکرات ہوتے ہیں اورکبھی تو مسئلہ حل ہو جاتا ہے، کبھی ملازمین حکومتی پیکیج کو مسترد کر دیتے ہیں اور جب تک تھک نہین جاتے ، ہچر مچر جاری رہتی ہے۔ ینگ ڈاکٹرز آئے روز ہڑتالیں کرتے ہیں ، خادم ا علی مذاکرات بھی کرتے ہیں اورڈراؤ دھمکاؤ کی نوبت بھی آتی ہے مگر یہ مسئلہ برسوں سے معلق چلا آ رہا ہے اور حکومت کو ینگ ڈاکٹرز پر بالا دستی حاصل نہیں ہو سکی۔ ینگ ڈاکٹرز کے ساتھ ساتھ حکومت تو سینئر ڈاکٹروں کی پرائیوہٹ پریکٹس پر پابندی نافذ کرنے میں ناکام رہی ہے۔حکومت کو تھانہ کلچر بدلنے میں کامیابی نہیں ملی ، نہ پٹواری کی بالادستی کو چیلنج کیا جاسکا ہے، اس ماحول میں اگر فوج جیسے ادارے نے حکومت کی بالا دستی کو مان لیا ہے تو اس کو داد دی جانی چاہئے نہ کہ اس کو مزید طعن و تشبیع کا نشانہ بنایا جاتا رہے۔
اس ایک مثال سے ان لوگوں کے منہ بھی بندہو جانے چاہءءں جو اٹھتے بیٹھتے فوج کو کوستے ہیں کہ وہ داخلہ اور خارجہ پالیسی کی تشکیل پر حاوی ہے، اسی لئے حکومت کوئی وزیر خارجہ اور مضبوط وزیر دفاع مقرر نہیں کرتی، عرض یہ ہے کہ کسی محکمے کی وزارت کا فیصلہ وزیر اعظم کی صوابدید ہے۔اور وہ اس حق کو استعمال کرنے میں کلی طور پر آزاد ہیں۔اور انہوں نے کبھی ایسی شکائت نہیں کی کہ ان کو یہ حق استعمال نہیں کرنے دیا جارہا ۔وزیر اعظم وفاق کے سارے فیصلے کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور یہ فیصلے کرتے نظر بھی آ رہے ہیں۔موٹر ویز بن رہی ہیں، بجلی کے کارخانے لگ رہے ہیں ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے قرضے لئے جارہے ہیں ، چین سے قرضے لینے میں تو صوبے بھی آزاد ہیں اور وہ میٹرو بسیں اور میٹرو ٹرینیں چلا رہے ہیں۔ کوئی اگر اپنا یہ اختیار استعمال نہیں کرتا تو آئین یا کوئی ادارہ ان کے راستے میں حائل نہیں ہے۔
ویسے جب عدلیہ خود مختار ہے، ارسا اور نیب خود مختار ہے، نیب تو ا س حد تک خود مختار ہے کہ اس کے سربراہ نے پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے اصرار کے باوجود کہا کہ وہ حدیبیہ کے فیصلے کو چیلنج نہیں کریں گے تو اس سے بڑی خود مختاری اور کیا ہو سکتی ہے۔ اور مزید سنیئے کہ سندھ کے چیف منسٹر کہتے ہیں کہ انہیں پانی نہ ملا تو وہ باقی صوبوں کے ساتھ راستے بلاک کر سکتے ہیں۔ یہ آزادی انہیں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے آئین نے دی ہے تو ا س ماحول میں صرف اور صرف فوج پر کاٹھی ڈالنے کا شوق سول سوسائٹی کو کیوں چرایا ہے، اور جب حکومت اور فوج تصادم نہیں چاہتے تو انہیں کن گھناؤنے مقاصد کے تحت بھڑکایا جا رہا ہے۔یہ دشمن کا ایجنڈہ ہے۔ براہ کرم اس ایجنڈے کو مسترد کر دیں ۔ جب غیر ملکی دشمن مل کر بھی فوج اور حکومت اور فوج اور عوام کو نہیں لڑا سکے تو آپ بھی صبر کریں۔ ٹھنڈ رہنے دیں۔ دہشت گردی کی جنگ حکومت ا ور فوج مل کر لڑ رہی ہے، سی پیک کی تکمیل میں حکومت ا ور فوج میں مکمل اشتراک کار ہے۔ کراچی اور بلوچستان کے حالات سدھارنے میں حکومت ا ور فوج میں مکمل اتفاق رائے ہے۔ تو پھر بقول وزیر داخلہ۔۔ نیوز لیکس جیسے ایک چھوٹے مسئلے۔۔ میں فوج کو ینگ ڈاکٹرز اور سینئر پروفیسروں جتنا حق تو دے دیں۔
اور یاد رکھئے جنرل راحیل زبردستی سعودی دفاعی کمان کے سربراہ نہیں بن بیٹھے، انہیں بھی حکومت ہی نے وہاں جانے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔