خبرنامہ

سویلین بالادستی کا مطالبہ…اسداللہ غالب

سویلین بالادستی کا مطالبہ…اسداللہ غالب

ایک ہی روز دو بیان چھپے ہیں ، ایک سابق وزیر اعظم میاںمحمد نواز شریف کاا ور دوسرا موجودہ آرمی چیف کا۔نواز شریف کہتے ہیں کہ ہم نے عدلیہ کے فیصلے کو مان لیا، اب ملک میں اصولی طور پر سویلین حکومت کی بالادستی کو مانا جائے۔اور آرمی چیف کہتے ہیں کہ ہم ایک ایسے پاکستان کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں کوئی شخص قانون سے بالا تر نہیں ہو گا۔ یہ اصول ویسے تو قائد اعظم طے کر چکے ہیںاور دنیا کے ہر مہذب جمہوری ملک میں اس اصول کو مانا جاتا ہے۔آج سے صدیوں پیشتر ہمارے نبی محترم نے بھی یہ اصول طے کر دیا تھا کہ ا سلام میں کسی گورے کوکالے پر، کسی آقا کو غلام پر ، کسی امیر کو غریب پر بالادستی حاصل نہیں ہے، اسلام کی نظر میں سب برابر ہیں ، اللہ کے نزدیک درجہ اس کا زیادہ ہے جو زیادہ متقی ہے۔

کلمہ تو ہم میں سے ہر شخص پڑھتا ہے، نبی اکرم کو بھی سبھی مانتے ہیں ، قائد اعظم کو بھی مقدم خیال کیا جاتا ہے مگر عملی طور پر ہمیں ان میں سے کسی کی تعلیمات سے سرو کار نہیں۔
بد قسمتی سے ہمارے ملک میں قانون کی حکمرانی کا فقدان ہے ا ور ہر کوئی دوسرے پر غالب آنے کی کوشش کرتا ہے۔
اداروں کا ٹکراﺅ بھی شروع دن سے جاری ہے۔اور ہماری ستر سالہ آزادی ( یا محکومی) کی تاریخ میں بیشتر عرصہ فوجی جرنیلوں نے حکومت پر قبضہ جمائے رکھا۔ ایوب خان نے گیارہ سال تک چام کے دام چلائے، یحییٰ خان کو صرف دو سال ملے مگر اس نے صدیوں کا کام کر دکھایا اور ملک کو دو لخت کر دیا اور اپنی فوج کی ایک کور کو بھارت کاجنگی قیدی بنوا دیا۔ ضیا الحق بھی گیارہ برس تک حکمران رہے اور شہید ہو کر دنیا سے رخصت ہوئے، اسلام حادثے میںمرنے والے کو شہید مانتا ہے۔مشرف کی باری آئی تو وہ بھی گیارہ سال تک اقتدار سے چمٹا رہا، ایوب ، یحییٰ اور ضیاءکو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا، مشرف ابھی حیات ہیں اور ان پر لاتعداد مقدمے قائم ہیں۔دستور کی پامالی کا جرم ہرمارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے نیکی سمجھ کر انجام دیا۔جب آئین ہی طاق نسیا ں کی نذر کر دیا جائے تو پھر عام قانون کی کیاا ہمیت تھی۔
آج مشرف عدالتوں سے مفرور ہیں۔ اپنے جرائم کی صفائی دینے سے گریزاں ہیں، عدالتوں کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں کرتے اور اپنے بھگوڑے پن کو جنرل راحیل کے سر رکھتے ہیں ، شاید جنرل راحیل کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہو کہ مشرف کس وقت ملک سے فرار ہوئے۔
اب جبکہ ملک میں احتساب کے ایک نئے دور کاا ٓغاز ہو ااور حکومت وقت کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے، حکومت ہی نہیں پورا حکمران خاندان مقد مے بھگت رہا ہے ا ور وزیر اعظم کو نااہل کیا جاچکا ہے تو لا محالہ ملک میں آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ فوجی آمروں کا بھی احتساب کیا جائے، ایوب ، یحییٰ اور ضیا کابعد از مرگ ٹرائل کیا جا سکتا ہے ا ور مشرف تو حیات ہیں، انہیں عدالتوں کے سامنے پیش ہو جانا چاہئے ، خاص طور پر سٹنگ آرمی چیف بھی جب کہہ رہے ہوں کہ کوئی قانون سے بالا نہیں تو پھر یہ مطالبہ روز بروز زور پکڑتا چلا جائے گا کہ مشرف کو عدالتوں میں پیش ہونا چاہئے اور عدلیہ کوان کے ساتھ بھی حساب برابر کرنا چاہئے۔ مشرف نے ایک بار نہیں ، دو بار آئین توڑا، پہلی مرتبہ کے جرم کو عدلیہ نے معاف کر دیا اور وہ بھی نظریہ ضرورت کے تحت جو صرف پاکستان میں رائج ہے، نظریہ پاکستان کو تو کوئی مانتا نہیں لیکن نظریہ ضرورت کا فائدہ ہر فوجی آمر نے اٹھایا۔ کیوں ۔ میرے پاس اس کا جواب نہیں، کسی کے پاس ہو توو ہ قوم کو ضرور بتائے۔
اطمینان کی بات یہ ہے میاںنواز شریف نے سویلین بالادستی والا مطالبہ عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم کرنے کے بعد کیا ہے، اب کوئی ان سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ خود تو کسی دوسرے ا ٓئینی ادارے کا حکم مانتے نہیں۔
اداروں کے مابین کشا کش کی تاریخ پرانی ہے اور یہ صرف پاکستان میں ہے یا ترکی میں نظر آ رہی ہے جہاں سویلین کی بالادستی منوانے کے لئے فوجیوں کے سر قلم ( بطور محاورہ)کئے جا رہے ہیں، چند روز پہلے تینوں مسلح ا فواج کے سربراہوں کو گھر بھجوا دیا گیا ہے ، مجھے نہیںمعلوم کہ ترکی میں ان کا گھر کہاں ہے، یقینی طور پر کوئی جیل ہو گی۔ترکی میں سویلین بالادستی کو منوانے کا طریقہ مجھے تو سخت ناپسند ہے مگر پاکستان میں سویلین حکومتوں کو جوتی( بوٹوں ) کی نوک پر رکھا جاتا ہے، آج تک کسی وزیرا عظم نے اپنی آئینی ٹرم پوری نہیں کی جبکہ فوجی آمر تو رہے ایک طرف، بعض فوجی سربراہوں نے بھی دو دو ٹرمیں گزاریں۔ اور اگر دیکھا جائے تو سول بیو رو کریٹ بھی توسیع لینے میں پیچھے نہیں۔ وہ بھاڑے کے ٹٹو بنے رہتے ہیں۔ موج لگی ہوئی ہے۔اور شامت صرف سیاستدانوں کی آتی ہے۔ قائد اعظم کے ساتھیوں کو متروکہ املاک کی لوٹ مار کا الزام سننا پڑا ، اس کے بعد ہر وزیر اعظم پر کرپشن ہی کے الزام لگے، کسی کو گولی ماری گئی، کسی کو پھانسی چڑھایا گیا، کسی کو جلاوطن کیا گیا، زرداری پر تین حکومتوںنے کرپشن کے مقدمے چلائے، ثابت ایک الزام بھی نہیں ہوا ان کو مجید نظامی صاحب نے مرد حر کا خطاب دیا تھا۔ مگر ٹک کر انہیں بھی حکومت نہیں کرنے دی گئی۔
مشرف کا دعویٰ ہے کہ دنیامیں جہاں ترقی ہوئی، وہاں آمروں کی حکومت تھی، ذرا ان سے کوئی پوچھے کہ نیلسن منڈیلا آمر تھا، لی کوان یو آمر تھا،مہاتیر محمد آمر تھا،نہیں بھئی، یہ سب منتخب حکمران تھے اور مشرف یہ بھی بتائیں کہ امریکہ سے لے کر یورپ اورجاپان تک کس ملک میں آمریت ہے مگر وہ ستاروں سے بھی ا ٓگے نکلے جا رہے ہیں اور جہاں جہاں آمروں کی حکومت تھی ، وہ جہنم کا نمونہ بنے ہوئے ہیں، ایک ملک برماہے جہاں کے پرائمری اسکول کا ہیڈماسٹر بھی آمروں کی وردی میں تھا تو کیا خاک ترقی کی ہے اس برما نے۔ پاکستان کے سا تھ آزادی حاصل کرنے والے ملک بھارت میں کوئی آمر بھولے سے بھی اقتدار کی طرف نہیں دیکھ سکا۔
بہر حال مجھے پاکستان میں آنے والے دنوںمیں شدید کشمکش نظر آ رہی ہے، ایک منتخب وزیر اعظم کو سزا ہو جائے مگر ایک آمر کو کھلی چھٹی ملی رہے، اسے انسانی ذہن قبول نہیں کرتا، نواز شریف نے سزا تو قبول کر لی مگر ان کے اس مطالبے میں وزن پیدا ہو گیا کہ اب آمروں کو بھی قانون کے شکنجے میں لایا جائے اور ان میں سر فہرست مشرف ہے ، اور میرے نزدیک تمام آمر ہیں جو دنیا سے رخصت ہو چکے، مگران کا ٹرائل تو ہو سکتا ہے اور ہونا بھی چاہئے تاکہ سویلین کا یہ اعتراض دور ہو کہ صرف انہی کو انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے آرمی چیف ایک بیان دے کر امتحان میں ہیں ، اصولی طور پر ان کا بیان خوش آئند ہے، آئین کے تحت ہے، قانون کے تحت ہے۔ صرف آرمی چیف نہیں، اس وقت گلی محلے کا ہر بندہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ کسی تمیز کے بغیر سب کا احتساب ہو۔ آرمی چیف اس خواہش کی تکمیل میں پوری مدد کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ایک طاقتور ادارہ ہے جو لاقانونیت کا خاتمہ کر سکتا ہے۔
نواز شریف جی ٹی روڈ پر چڑھیں گے تو ہر چوک میں ان کا یہی نعرہ ہو گا کہ آمروں کا احتساب کیا جائے، یہ نعرہ ہر چوک پر گونجے گا، ہر دھڑکن سے یہی آواز آئے گی کہ آمروں کا احتساب کیا جائے، لوگ وہ پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں جہاں کوئی قانون سے بالاتر نہ ہو۔