خبرنامہ

سپاہ سالارکا چارٹر

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

سپاہ سالارکا چارٹر

یوم شہدا پر ملک بھر میں تقاریب کا اہتمام کیا گیا۔ راولپنڈی کے مرکزی مقام پر آرمی چیف جنرل کیانی نے شہدا کے ورثا سے خطاب کیا۔ یہ خطاب ایک لحاظ سے سپاہ سالارکا چارٹر ہے جس میں اہم ترین مسائل پرفوج کی پالیسی اور اس کے موقف کا اظہار بلاکم و کاست کر دیا گیا ہے۔ اخبارات نے اس کے تین حصوں کو شہ سرخی بنایا ہے، کچھ نے ان کی اس یقین دہانی کونمایاں کیا ہے کہ الیکشن وقت پر اور ہر حال میں ہوں گے، اس بارے کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے اور بعض اخبارات نے ان کے اس نکتے کونمایاں کیا ہے کہ جمہوریت اور آمریت کی آنکھ مچولی جز او سزا سے نہیں، عوامی شعور سے ختم ہوگی، کچھ اخبارات نے ان کے اس اعلان کو اہمیت دی ہے کہ دہشت گردی کی جنگ پاکستان کی جنگ ہے۔ گویا یہ واضح ہو گیا کہ جنرل کیانی کی تقریر کے تین نکات ہیں۔ انہوں نے تینوں نکات پر واضح اور دوٹوک موقف کا اظہار کیا ہے۔ اس وقت ملک کو الیکشن کا مرحلہ در پیش ہے اور لوگ اس شش وپنج میں ہیں کہ کیا الیکشن ہوگا بھی یا نہیں۔ شک کی یہ فضا دہشت گردی کے پے در پے واقعات کی پیداوار ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ تین صوبوں میں الیکشن مہم چلانا ممکن نہیں رہا بعض جماعتوں کو دہشت گردوں نے کھلم کھلا دھمکیاں دی ہیں کہ وہ انہیں الیکشن میں حصہ لینے کے قابل نہیں چھوڑیں گے۔ بلوچستان میں اساتذہ نے الیکشن ڈیوٹی دینے سے انکار کر دیا ہے۔ عام طور پر محسوس ہوتا ہے کہ الیکشن صرف پنجاب میں ہورہے ہیں مگر لگتا یہی ہے کہ الیکشن جیسے تیسے بھی ہوں، ان کا انعقادضروری سمجھا جارہا ہے حتی کہ جن پارٹیوں کو دہشت گردی کا سامنا ہے، ان کا بھی کہنا ہے کہ وہ الیکشن سے دست بردار نہیں ہوں گی۔ عدلیہ بھی کہہ رہی ہے کہ ہر حالت میں الیکشن ہوں گے۔ آئین کی رو سے الیکشن کا انعقادنہ عدلیہ کی ذمے داری ہے نہ فوج کی، یہ کام صرف الیکشن کمیشن نے کرنا ہے یانگران حکومت کا سیٹ اپ اس مقصد کے لیئے بنایا گیا ہے۔ باقی ادارے تو سول حکومت کی ہدایت پر ہی کوئی کردار ادا کر سکیں گے۔ عدلیہ تو پھر بھی سوموٹو اختیارات کے تحت کوئی حکم دے سکتی ہے مگر فوج کو جب تک طلب نہ کیا جائے، یہ اپنے طور پرکوئی مداخلت کر ہی نہیں سکتی نگران وفاقی کابینہ نے اپنے پہلے ہی اجلاس میں یہ طے کر دیا تھا کہ الیکشن میں امن و امان کی ڈیوٹی کے لیے فوج کو مامور نہیں کیا جائے گا مگر کور کمانڈرز کا جو اجلاس چند روز پہلے ہوا ہے، اس میں الیکشن کمیشن کی درخواستوں کی منظوری دی گئی ہے۔ آئین کے تحت صرف حکومت وقت ہی فوج کو اپنی مدد کے لیئے بلاسکتی ہے، مجھے پتانہیں کہ آیا الیکشن کمیشن کو بھی فوج کی طلبی کا اختیار حاصل ہے یا نہیں۔ میری اس بحث کا نتیجہ تو یہ نکلا کہ فوج کے سربراہ نے ایسے ہی کہہ دیا کہ کوئی شک میں نہ رہے، الیکشن وقت پر ہوں گے، نہیں، میرا یہ مطلب بھی نہیں۔ میں اس کا جواز اور اس کی اہمیت یہ سمجھتا ہوں کہ فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ الیکشن میں کوئی رکاوٹ نہیں بنے گی اور پرامن انتقال اقتدار کے عمل کی مکمل حمایت کرے گی۔ بالکل اس طرح جیسے آرمی چیف نے اسی تقریر میں کہا ہے کہ ہر پاکستانی کی طرح ہم نے بھی پانچ سال جمہوری نظام کو مضبوط کرنے کی اپنی سی کوشش کی، اس امید کے ساتھ کہ آئندہ انتخابات ہمیں بہتری کی جانب لے جائیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پاک فوج کی معاونت جمہوری نظام کی مضبوطی اور اسے دیر پا بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے ہوگی۔ جنرل کیانی نے ووٹروں پر زور دیا ہے کہ وہ لسانی، سماجی اور فرقہ وارانہ تعصبات سے بلند ہو کر صرف اہلیت، ایمانداری اور نیک نیتی کی بنیادوں پر ووٹ کا استعمال کریں تو پھر آمریت کا بلاوجہ خوف لاحق ہوگا اور نہ جمہوری نظام کی خامیوں کا شکوہ۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ ان کی آواز پر کان نہ دھرے گئے تو آمریت ہو یا جمہوریت، حکمرانی صرف شخصی مفادات کے تحفظ اور قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کا ذریعہ بنتی رہے گی۔ جنرل کیانی نے یہ کہنا بھی ضروری سمجھا ہے کہ انتخابات کا انعقاد بذات خود مسائل کا حتمی حل نہیں، بلکہ مسائل کے حل کی طرف ایک قدم ہے، مسائل کے دیر پاحل کے لیے قومی سوچ اور امنگوں کا ادراک بھی ضروری ہے۔ مجھے یہاں اپنا اختلافی نوٹ ضرور دینا ہے۔ موجودہ حالات میں جو الیکشن ہونے جارہے ہیں، مجھے خدشہ ہے کہ ان کے نتائج کواسی طرح مسترد کیا جاسکتا ہے جیسے 1970 کے انتخابات میں ہوا اور دما دم مست قلندر ہو گیا، میں نہیں جانتا کہ ان نتائج پر بد نیتی سے عمل نہیں کیا گیا، یا ان پرعمل کرناممکن ہی نہ تھا۔ قرین قیاس یہ ہے کہ یہ نا قابل عمل نتائج تھے اور گیارہ مئی کے بعد خدانخواستہ مجھے وہی حالات جنم لیتے نظر آتے ہیں۔ گیارہ مئی کوصرف پنجاب کے نتائج کے پیش نظر پورے ملک میں نیا سیٹ اپ بنانا، نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے گا ممکن ہے میرے اندیشہ ہائے دور دراز محض ایک واہمہ ہوں، اس بارے میں فوج کے سربراہ بہتر تجزیہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں کیونکہ ان کے پاس معلومات کے ذرائع بہت زیادہ ہیں۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ آنے والی صورت حال پر بھی اپنا تبصرہ سامنے لائیں گے۔ ویسے ان کی تقریر کے بین السطور میں خطرے کی تمام گھنٹیاں بھی سنائی دیتی ہیں، کوئی اپنے کان بند رکھنا چاہے تو اور بات ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جمہوریت اور آمریت کی آنکھ چولی کا اعصاب شکن کھیل صرف سزا اور جزا کے نظام ہی سے نہیں بلکہ عوام کی آگہی اور بھر پور شمولیت سے ختم ہوسکتا ہے۔ اس فقرے میں عوام کی بھر پور شمولیت کا اور کوئی مطلب نہیں کہ پورے ملک میں امیدوار اور ووٹر کے لئے یکساں مواقع ہونا ضروری ہیں۔ اب آیئے جمہوریت اور آمریت کے کھیل کی طرف۔ میں ان کی بات کا مطلب یہ لیتا ہوں کی جنرل مشرف کو کڑی سے کڑی سزادے دی جائے تو آمریت اور جمہوریت کی آنکھ مچولی کے کھیل کو روکا نہیں جاسکتا۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے مشرف کے خلاف انصاف کے عمل میں کوئی رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش کی ہے۔ مشرف کے خلاف جس انداز میں کارروائی ہورہی ہے، اس پرفوج کی تشویش بلاوجہ بھی نہیں۔ مارشل لا کوئی اکیلا شخص نہیں لگا سکتا، آج مشرف کے خلاف کیسز ہیں تو کل کو کسی دوسرے جرنیل کو بھی عدالتوں میں گھسیٹا جا سکتا ہے کہ ایمرجنسی پلس میں وہ مشرف کیساتھ تھے۔ یہاں لوگ یہ سوال بھی اٹھارہے ہیں کہ صرف ایمرجینی پلس کا مقدمہ ہی کیوں؟ بارہ اکتوبر کے مارشل لا کے نفاذ کا مقدمہ کیوں نہیں۔ اس کے کئی معانی بھی تلاش کیئے جارہے ہیں اور یہی بحث فوج کے اندر تشویش کا سبب بن رہی ہے۔ جس کا اظہار دبے یا کھلے الفاظ میں جنرل کیانی کو کرنا پڑا ہے۔
اگلی بات ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ جسے جنرل کیانی نے پاکستان کی جنگ قرار دیا ہے۔ جزل کیانی جانتے ہیں کہ بعض طبقات ان کے نکتہ نظر سے متفق نہیں جس کی وجہ سے قربانیاں دینے والی فوج میں بد ولی پھیلتی ہے اور ان کے ورثا کا غم و اندوہ دو چند ہو جاتا ہے کہ ان کے جری، دلیر گبھر و کس گناہ کی پاداش میں اور کن تاریک راہوں میں مارے گئے۔ فوج کا کوئی سر براہ اس موقف پر اپنے اضطراب کے اظہار کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ اس جنگ کو امریکہ کی جنگ کہنے سے اسے اپنی فوج سے کام لینے میں اور پاکستان کی سلامتی اور آزادی کویقینی بنانے میں مشکل درپیش ہے، انہوں نے لوگوں کو یاد دلایا ہے کہ مہذب ترین جمہوری ممالک کی تاریخ میں بھی ملک اور آئین سے بغاوت بھی برداشت نہیں کی گئی۔ ایسے مواقع پر فوج کو ہمیشہ عوام کی مکمل حمایت حاصل رہی کبھی یہ سوال نہیں اٹھایا گیا کہ کیا یہ جنگ ہماری ہے۔ اس لیے کہ ایک سپاہی کا ذہن اور اس کامشن اس قسم کے شکوک کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ جنرل کیانی نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر ایک گروہ پاکستان کے آئین اور قانون سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے غلط نظریات ہم پر جبری مسلط کرنا چاہے اور اس مقصد کے لیئے ہر قسم کی خونریزی کو نہ صرف جائز سمجھتا ہو بلکہ پاکستانی ریاست، جمہوری عمل اور بے گناہ شہریوں کے خلاف با قاعدہ ہتھیار بند ہو جائے تو کیا اس کا قلع قمع کرنا کسی اور کی جنگ ہے، اس سوال کا جواب ہر اس شخص پر واجب ہے جو اس جنگ کو پاکستان کی جنگ نہیں مانتا۔
مجھے افسوس ہے کہ میں ایک بار پھر اس تقریب میں مدعو ہونے کے با وجود شرکت نہیں کر سکا، کاش! میں وہاں ہوتا اور شہداکے غمگین ورثا کے آنکھوں سے بہنے والے آنسو اپنی پلکوں سے پونچھ سکتا۔
(2 مئی 2014ء)