خبرنامہ

سیاسی پرندوں کی اڑانیں…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

سیاسی پرندوں کی اڑانیں…اسد اللہ غالب

موسم کی تبدیلی کے ساتھ پرندوں کی ہجرت شروع ہو جاتی ہے۔ سیاسی پرندے بھی الیکشن کا موسم آنے پر اڑانیں بھرنی شروع کر دیتے ہیں۔
چند روز پہلے ن لیگ کے کئی ایک سیاستدان اپنی پارٹی چھوڑ گئے اور پی ٹی آئی میں چلے گئے۔ پاکستان میں سیاسی وفاداری کا اصول کبھی پسندیدہ نہیں رہا۔ پی ٹی آئی نے تو اس اصول کی دھجیاں ہی بکھیر دی ہیں، خود عمران خاں نے سینیٹ کے الیکشن میں چیخ و پکار کی کہ ا سکے تیس ارکان نے پیسے لے کر ووٹ دیئے ۔ یہ کھلی ہارس ٹریڈ نگ تھی۔ اور ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ کی طرف سے بے چارگی کا کھلاا ظہار تھا یا ایک کھلا اعتراف کہ وہ ایک پارٹی نہیں چلا رہے بلکہ ایک بکرا منڈی کے مالک ہیں اور خوب منافع کما رہے ہیں، جہاں ووٹوں کا بھاﺅ تاﺅ ہوتا ہے یہ میں نہیں کہہ رہا اس ملک کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی کہہ رہے ہیںکہ وہ سینیٹ کے حالیہ الیکشن کے نتائج کو قبول نہیں کرتے کیونکہ اس میں کھلا پیسہ چلا ہے ۔ نہیں چلا تو ارکان سینیٹ ایک بیان حلفی دے کر قوم کو مطمئن کر دیں۔ مگر ان کی آواز پر کسی نے کان نہیں دھرے۔
اب زرداری صاحب نے آواز لگا دی ہے کہ وہ اگلے الیکشن میں ن لیگ سے پنجاب بھی چھین لیں گے اور تخت رائے ونڈ کو ہلا کر رکھ دیں گے۔
اس کام کے لئے ابھی سے سودے شروع ہو گئے ہیں، ن لیگ کے ارکان اسمبلی کو توڑا جا رہا ہے اور انہیں مختلف پارٹیوںمیں ایڈجسٹ کیا جارہا ہے۔ ویسے تو چند لوگوں کے ادھر ادھر ہونے سے ن لیگ کو خاص فرق نہیں پڑتا لیکن اگر خریدو فروخت کے لئے بوریوں کا منہ کھول دیا گیا تو کیا پتہ کہ کیا سے کیا ہو جائے۔ ن لیگ اپنی جگہ پر اعتماد سے سرشار ہے کہ وہ اس وقت نہیں ٹوٹی جب نوازشریف کی حکومت ٹوٹی اور کہا جارہاتھا کہ نوے ارکان ن لیگ کو چھوڑنے کا اعلان کرنے ہی والے ہیں مگر مہینوں پر مہینے گزر گئے۔ ن لیگ نے اس دوران ہر ضمنی الیکشن جیتا اور وہ الیکشن بھی جیتا جہاں سے پی ٹی آئی کے ایک جغادری جہانگیر ترین نے سیٹ خالی کی تھی اور اپنے بیٹے کو کھڑا کیا تھا۔ نواز شریف نے جی ٹی روڈ پر جلوس نکالا اور اور اپنی قوت کا مظاہرہ کیا۔پھر مختلف شہروں میں جلسے کئے۔ انہوںنے ان جلسوں سے خود بھی خطاب کی، ان کی بیٹی مریم نے بھی کیاا ور بعض جلسوں سے ان کے داماد کیپٹن صفدر نے بھی خطاب کیا، شہباز شریف نے بھی مختلف جلسے کئے۔یہ سب کچھ ن لیگ کی قوت کے ا ظہار اور ثبوت کے لئے تھا مگر لگتا ہے کہ ن لیگ کی یہ ادا کسی کو نہیں بھائی اور انہوں نے سازشیں شروع کر دیں، سازش تو ن لیگ کے خلاف بلوچستان میں بھی کی گئی جہاں اس کی حکومت کا پانسہ پلٹ دیا گیا۔ یہ ابتدا تھی ایک ایسے گندے سیاسی کھیل کی جو سینٹ اور اس کے چیئر مین کے انتخاب پر جا کر منتج ہوا مگر اب تو لوگوں کی نظریں اگلے الیکشن پر ہیں اس لئے لمبے ہاتھ مارے جا رہے ہیں، ن لیگ کو ٹارگٹ بنا لیا گیا تاکہ اس کی جو توڑ پھوڑ ابھی تک نہیں ہو سکی ، وہ کسر اب پوری کر دی جائے ۔ نظر بظاہر تو مسلم لیگ ن کو زیر کرنا کسی کے بس میں نہیں ، اس نے اپنے دور حکومت میں ریکارڈ کام کئے ہیں ، لاہور ۔ پنڈی اور ملتان کی میٹرو اور ملک بھر میں بجلی کے منصوبوں کا جال جن کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے، شہباز شریف ریکارڈ پر ہیں کہ اگر عمران ا ورقادری دھرنا نہ دیتے تو سبھی منصوبے بروقت شروع کئے جا سکتے تھے اورا ٓج لوڈ شیڈنگ کو لوگ بھول گئے ہوتے۔بہر حال کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ بجلی کی جو صورت حال تیرہ میں تھی، وہی اٹھارہ میں ہے۔ فرق نمایاں طور پر نظر آ رہا ہے۔اسی طرح سی پیک کا منصوبہ ملک کو ترقی کی ، معراج پر لے جائے گا۔ یہ ابتدائی منزل میں سہی مگر شروعات ہو چکی ہیں اور وقت کے ساتھ ا س کا میٹھا پھل ہر ایک کو کھانے کو ملے گا، سب سے زیادہ فائدہ بلوچستان کو پہنچے گا جو اب تک محرومیوں میں دبا رہا اور ا سکی پس ماندگی پر ہر کوئی روتا رہا مگر مستقبل کا بلوچستان اس قدر امیر ہو گا کہ باقی صوبے امداد کے لئے ا سکی طرف دیکھیں گے۔ سنیٹ کے چیئر مین کے الیکشن میں یہی فیکٹر نمایاں رہا ورنہ ا س صوبے کی کس نے سننی تھی۔ اگلے الیکشن پر سب کی نظریں ہیں، جوڑ توڑ کاا ٓغاز ہو گیا ہے۔پاکستان کی تاریخ کی بد قسمتی ہے کہ یہاں وفاداریوں کے ہمیشہ سودے ہوتے رہے۔ بانی پاکستان کی رحلت کے بعد ان کی پارٹی کے حصے بخرے کر دیئے گئے، رات کو کسی ا ور پارٹی کی حکومت ہوتی اور صبح اٹھتے تو پتہ چلتا کہ حکمران پارٹی بدل گئی ہے، دنیا میں پاکستان کی طوائف الملوکی ایک تماشا بن گئی۔ مارشل لا آیا تو ا س نے بھی ہارس ٹریڈنگ کی انتہا کر دی ، پہلے کنونشن لیگ بنی اور بھٹو نے ایوب خان کو ڈیڈی کہا اور تجویز دی کہ ڈپٹی کمشنرکو اس کا ضلعی صدر بنا دیاجائے۔ ضیا الحق نے غیر سیاسی ماحول کی سیاست کی ۔ مشرف نے ن لیگ کی کوکھ سے ق لیگ پیدا کر کے کام چلایا۔اب کہیں سے کرکٹر عمران خان کو خیا ل آ گیا ہے کہ وہ بھی بادشاہ بن سکتا ہے، وہ بیس برس سے ہاتھ پاﺅںمار رہا ہے، مشرف کے ساتھ بھی لگا رہا، بلکہ اس کے ریفرنڈم میں بے حد سر گرمی دکھائی۔ اب اسے کسی امپائر کی انگلی کا انتظار ہے،، یہ اس کی بھول ہے کہ کوئی امپائر انگلی کھڑی کرے گا اور حکومت وقت کو گھر بھیج کر اسے تخت اسلام آباد پرمتمکن کر دے گا، خیبر پی کے میں اسے حکومت ضرور ملی مگر اس نے پانچ برس کا عرصہ دھرنوں ، جلوسوںاور مقدموںمیں گزار دیا ، نجانے وہ کس برتے پر اگلا الیکشن سویپ کرنے کے خواب دکھا کر لوگوں کو اپنی پارٹی میں شامل کر رہا ہے۔اس کی نظر ایسے افراد پر ہے جو پیسے اور اثرو رسوخ کے مالک ہوں۔ ان کے پاس تجوریاں اور بوریاں ہوں اور وہ چلتے پھرتے اے ٹی ایم مشینوں کا کام دیں۔ مجھے ابھی ایک خاتون نے فون کیا ہے کہ اگر الیکشن پیسوں کے زور پر لڑا جانا ہے تو سسٹم اور ملک کا کیا بنے گا۔اوور سیز پاکستانی بھی بہت پیسہ کما چکے ہیں اور اب اس ملک میں حکومت کے مزے اڑانا چاہتے ہیں۔ کسی کے پاس منشور نام کی کوئی شے نہیں، بے اصولی کا سکہ چل رہا ہے، ضمیر کے سودے ہو رہے ہیں۔اور دھن دولت کی طاقت سے صرف حکومت کو ہی نہیں، اس ملک کو بھی زیر کرنے کی کوشش جاری ہے، ملک کا ذی ہوش طبقہ اس پر سخت نالاں ہے مگر وہ کرے بھی تو کیا ، صرف کڑھ سکتا ہے ، پیسے کی طاقت سے تو نہیں ٹکرا سکتا۔ مگر یہ بھی غنیمت ہے کہ برائی کو برائی سمجھنے والے کچھ لوگ یہاں ضرور موجود ہیں اور یہی ایک روشنی کی کرن ہے