خبرنامہ

سینیٹ الیکشن میں بلوچستان کو سی پیک گفٹ….اسداللہ غالب

سینیٹ الیکشن میں بلوچستان کو سی پیک گفٹ
14 مارچ 2018
سینیٹ الیکشن میں بلوچستان کو سی پیک گفٹ

سینیٹ کے اعلیٰ ترین مناصب کے الیکشن میں جن پارٹیوں نے یہ امر فراموش کر دیا کہ بلوچستان کو اگلے پانچ برس میں کیا اہمیت حاصل ہو جائے گی، وہ شکست سے دوچار ہو گئیں۔ یہ ان کی بد قسمتی نہیں، نہ نمبر گیم کا کوئی سوال ہے بلکہ ایک فقہی غلطی ہے اور مجھے افسوس ہے کہ یہ غلطی حکمران پارٹی سے سرزد ہوئی جس نے خود کہا تھا کہ سی پیک سے بلوچستان ملک کا سب سے بڑا امیر صوبہ بن جائے گا اور باقی صوبے مالی امداد کے لئے اس کی طرف دیکھیں گے۔ایک زمانے میں سندھ کو کراچی کی بندرگاہ کی وجہ سے یہی اہمیت حاصل تھی مگر اب سی پیک نے پاکستان ہی میں انقلاب کے سونامی کو جنم نہیںدیا بلکہ دنیا کے تین بر اعظموں کے پچاس ملکوں کی تقدیر کو روشن کر دیا ہے۔
بلوچستان میں گوادر کی بندر گاہ نے اس صوبے کی اہمیت کو ملک کے اندر بھی دو چند کر دیا ہے۔گودار کی وجہ سے بلوچستان کا صوبہ تین بر اعظموں کی باہمی تجارت کا مرکز بننے والا ہے اور اب اس کے لئے زیادہ انتظار بھی نہیں کرنا پڑے گا۔ اس کے لئے بلا شبہ موجودہ حکمران پارٹی نے دن رات ایک کر کے متعدد منصوبے مکمل کروائے جن میں بجلی کی پیداوار کے منصوبوں کو اولیت حاصل تھی اور دوسری ترجیح پر ہزاروں کلو میٹر نئی شاہراہیں تعمیر کی گئیں ۔
سی پیک کی جب تاریخ لکھی جائے گی تو م¶رخ لازمی طور پر نواز اور شہباز کو خراج تحسین پیش کئے بغیر نہیں رہ سکتا مگر اسے یہ حقیقت بھی ماننا پڑے گی کہ اس عظیم منصوبے کی پہلی اینٹ جناب زرداری نے اپنے دور صدارت میں رکھی تھی اور زرداری نے اسی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے بلوچستان سے سینیٹ کے چیئر مین کے نام پر اتفاق کیا ، باقی جو کچھ ہوا ، وہ پارٹی پالیٹکس تھا۔ اس سلسلے میں عمران خان جو پچھلے بیس برس سے مسلسل غلطیاں کرتے چلے آ رہے تھے، انہوںنے بھی نوشتہ دیوار کو پڑھنے میں کوئی غلطی نہیں کی اور سب سے پہلے بلوچستان کی جھولی میں اپنے ووٹ ڈالے۔
صد حیف ! ن لیگ تاریخ کے دھارے سے باہر نکل گئی اور سیاست بازی میں میں الجھ گئی۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ نواز شریف کو بھی جب آخری لمحات تک اپنا کوئی امیدوار نہیں مل رہا تھا تو وہ بھی بلوچستان کے آزاد امیدوار کی حمائت کا اعلان کر دیتے۔ یہ پیپلزپارٹی کے کسی رکن کو ووٹ دینے سے تو بہتر ہوتا اور جب ملک بھر کی پارٹیاں بلوچستان کے امیدوار کو ووٹ دے کر کامیاب کر ا دیتیں تو سینیٹ کے ایوان میں ایک زرداری سب پہ بھاری کے نعرے نہ گونجتے۔آخر پچھلے الیکشن میں بھی تو ن لیگ نے پیپلز پارٹی کے رکن ہی کو مشترکہ امیدوار قبول کر لیا تھا، اس بار بھی وہ اسی نام پر تو متفق نظر آتے تھے مگر زمینی حقائق سے چشم پوشی کی وجہ سے ن لیگ اپنی انا کی زنجیر سے بندھی رہی۔ایسا ہونا تو نہیں چاہئے تھا۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو بلوچستان کی اہمیت کا اندازہ کرتے ہوئے صادق سنجرانی کو بلا مقابلہ جتوا دینا چاہئے تھا۔ بلوچستان والے تو دہائی دیتے رہے کہ سینیٹ کے ایوان میں تما م صوبے برابر ہیں ، اس لئے ستر سال میں جو حق بلوچستان کو نہیں دیا گیا ، وہ اب تو مل جانا چاہئے، ان لوگوںنے کسی کو بلیک میل نہیں کیا، صرف یہی سمجھانے پر قناعت کی کہ سینیٹ میں تمام صوبوں کو مساوی حیثیت حاصل ہے اور بلوچستان تو ویسے بھی رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہے، اس کا حق ہر بار مارا جاتا ہے مگر اب ایسانہ کیا جائے اور اس محرومیوں کے مارے صوبے کے زخموں کی مرہم پٹی کی جائے۔ اس پیغام کو غلط سمجھا گیا، یہ کلبھوشن کی بھارتی فوج کی طرف سے تو اشارہ نہیں تھا، بلوچستان میں چند ماہ قبل ن لیگ کے وزیراعلیٰ کو فارغ ہونا پڑا تھا، تو اس کی جگہ آخر اسی صوبائی اسمبلی کے کسی رکن نے ہی لی تھی ، اسے باہر سے تو امپورٹ نہیں کیا گیا تھا، اس کا نام زبیر گل یا شاہین بٹ نہیں تھا، نہ چودھری سرور، یہ شخص خالص اس مٹی سے جڑا ہوا تھا۔ اس کی حب ا وطنی پر شک نہیں کیا جا سکتا تھا اور اس کا مطالبہ بلا جواز نہیں تھا، وہ ستر سال سے جس حق سے محروم تھا، وہی اس نے مانگا تھا، اس نے کھیلن کو چاند نہیں مانگا تھا۔ اس نے یہ اکڑ بھی نہیں دکھائی تھی کہ اگلے چند برسوں کے اند ر اس کے صوبے میں دولت کی کس قدر ریل پیل ہو جائے گی اور باقی صوبے اس کے سامنے جھولی پھیلانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس نے تو صرف اپنے صوبے کا حق مانگا ۔ اس حق کو پیپلز پارٹی ا ور تحریک انصاف نے فراخدلی سے دینے کا فیصلہ کیا۔ اور یوں ملک کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی ستر سالہ محرومی کا خاتمہ ہو گیا،نیا چیئر مین پیپلز پارٹی کا ہے ، نہ تحریک انصاف کا ہے، اس لئے سینیٹر حاصل بزنجو اور محمود اچکزئی نے غصے کا بلا وجہ اظہار کیا ا ور ملکی انٹیلی جنس کو ناحق اور بے نقط سنائیں، یہ بیانیہ ملک بھر میں ہر زبان پر ہے ۔ ان طعنوں سے بلوچستان والوں کا دل مزید دکھی ہو گا، کہ انہوںنے پاکستانی سینیٹ کی چیئر مینی مانگی ہے ، امریکی سینیٹ کی چیئر مینی نہیں مانگ لی۔
سینیٹ کے بارہ مارچ کے الیکشن کے لئے اصل مسئلہ نمبر گیم کا بھی تھا۔ حکمران ا ور اپوزیشن کے پاس بظاہر برابر ووٹ تھے ، اور صرف چند ووٹوں کے حصول کا مسئلہ تھا، اس کے لئے ذہن رسا کی ضرورت تھی، صحیح چالیں چلنے کی ضرورت تھی۔بساط کے مہرے سب کو نظرا ٓ رہے تھے بس ان کو حرکت دینے کے لئے عقل کا استعما ل ضروری تھا۔ پیپلز پارٹی اگر اپنا امیدوار نامزد کر دیتی تو وہ بھی اسی طرح ہار جاتی جس طرح ن لیگ نے اپنا امیدوار کھڑا کر کے شکست کھائی۔ ن لیگ کے علم میں تھا کہ مہینوں پہلے زرداری نے چیلنج دیا تھا کہ وہ سینیٹ بھی ن لیگ کو نہیں لینے دیں گے۔ زرداری کا یہ کھلا چیلنج تھا اور زرداری آخری آدمی ہوں گے جو انٹیلی جنس کے مہرے بنتے۔یا فوج کی کھسر پھسر پر کان دھرتے، ان کے پارٹی لیڈر کو تو ایک فوجی آمر نے پھانسی پر لٹکایا تھا، ان کی بیگم محترمہ بے نظیر دوسرے فوجی آمر کے دور میں شہید کی گئیں، ان کو منصب صدارات کے دوران فوج اور فوجی انٹیلی جنس اداروںنے ٹکنے نہیں دیا۔ زرداری نے ان سے تنگ آکر کہا تھا کہ تم تین سال کے لئے آتے ہو ، میں سیاست دان ہوں اور مجھے ہمیشہ رہنا ہے،فوج کے ایک سابق سربراہ سے ا س قدر محاذ آرائی کرنے والا شخص یکا یک فوج کے اشاروں پر کیوں چلتا۔ فوج کے اشاروں پر چلنے والے لوگوں کو صاف طور پر نظر آتے ہیں ، میں ضیاءدور کی بات نہیں کرتا، بلکہ زداری دور کی بات کرتا ہوں جب چیف جسٹس کی بحالی مہم میں نواز شریف نے دفعہ ایک سو چوالیس توڑ کر جی ٹی روڈ پر جلوس نکالا تو ابھی انہوںنے راوی پل پار نہیں کیا تھا کہ انہیں جنرل کیانی کا فون آ گیا کہ خاطر جمع رکھیں ، چیف جسٹس بحال ہو جائیں گے ا ورا سکے بعد نواز شریف تو خرم دستگیر کے گھر ساری رات آرام سے سوئے رہے مگر یوسف رضا گیلانی نے کانٹوں کے بستر پر رات بسر کی ا ور صبح کے دھندلکے میں انہوںنے ایک مختصر نشری تقریر میں چیف جسٹس کی بحالی کا اعلان کیا۔ یہ ایک کڑوا گھونٹ تھا جس کے لئے آرمی چیف جنرل کیانی نے مداخلت کی تھی ۔ اور زرداری حکومت کو مجبور کیا تھا کہ وہ اپنی مرضی کے بر عکس فیصلہ کرنے پر مجبورہو جائے۔
ن لیگ اور اس کے حامی زرداری کو نہیں ،پاک فوج کو حالیہ الیکشن کے لئے مطعون کر رہے ہیں۔ مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ زرداری کبھی فوج کی انگلیوں پر نہیں ناچتے۔
سیدھی بات یہ ہے کہ بلوچستان کے عوام نے ایک مانگ کی، تحریک انصاف ا ور پیپلز پارٹی نے اس کی لاج رکھی، پیپلز پارٹی نے تو آغاز حقوق بلوچستان کی مہم کاا ٓغاز کیا تھا، اب اسے فخر کرنا چاہیئے کہ وہ اس صوبے کو اس کا ایک حق دلانے میں سرخرو ٹھہری۔ باقی پارٹیوں کو بھی کھمبا نوچنے کی بجائے اپنی زبان درست کرنی چاہئے اور اپنے بلوچستان کے بھائیوں کا مذاق اڑانے کا سلسہ بند کر دینا چاہئے۔ وفاق کی بھلائی بھی اسی میںہے ورنہ بلوچستان کی بند ر گاہ کو اکھاڑ کر ہم واہگہ پر تو منتقل نہیں کر سکتے، خدا کے لئے جیل میں بند کل بھوشن کو خو ش کرنے کا موقع نہ دیں۔
زرداری نیازی اتحاد نے کس کو دفن کیا، اس کا نتیجہ نکلنے میں چوبیس گھنٹے بھی نہیں ل