خبرنامہ

سی پیک، خطے کے لئے وزیر اعظم کا تحفہ۔۔اسداللہ غالب

اسلام آباد کی ایک پر وقار تقریب میں وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے مختصر مگر ایک بلیغ خطاب میں یہ مژدہ سنایا کہ پاک چین ا قتصادی راہداری کامنصوبہ صرف دو ملکوں کے لئے نہیں ، بلکہ خطے کے اربوں انسانوں کی تقدیر بد ل کر رکھ دے گا۔انہوں نے اسے گیم چینجر کا نام دیا، جس پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے۔
اپنی تیسری ٹرم کی ابتدا میں جب نواز شریف اور شہباز شریف کبھی اکٹھے، کبھی اکیلے اکیلے چین آ جا رہے تھے تو یہ پھبتی کسنے والے کم نہ تھے کہ یہ دورے محض سیرسپاٹے کے لئے ہیں مگر حقیقت حال جاننے والے کہہ رہے تھے کہ چین ٹورازم کے لئے اس قدر چاشنی نہیں رکھتا جیسے بر اعظم امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔
کون جانتا تھا کہ وزیر اعظم نے چین کے جو ان گنت دورے کئے، ان کے نتیجے میں ایک عظیم الشان منصوبہ پروان چڑھے گا۔ گو اس منصوبے پر برسہا برس سے کام ہو رہا ہے مگرا سے مربوط حکمت عملی کا حصہ اب بنایا گیا ہے، یہ تو لگتا ہے کہ اس خطے کے لوگوں نے جیسے کوئی خوش کن خواب دیکھا تھا، اس کی عملی تعبیر دیکھنے کے دن آ گئے۔
پاک چین اقتصادی کوریڈور کا ایک سنگ میل گوادر کامنصوبہ بھی ہے جس پر کئی عشروں سے کچھوے کی رفتار سے کام ہو رہا تھا، مگر جب یہ عظیم منصوبہ چینی ہاتھوں میں گیا تو اس نے فراٹے بھرے اور گوادر کا افق روشنیوں اور رنگوں سے معمور ہو گیا۔
ہر بڑے کام کی مخالفت بھی شدید ہوتی ہے، عالمی کھلاڑی بھی اس کی مخالفت میں میدان میں اترآئے ا ور ان کے تنخواہ داروں نے بھی اودھم مچایا، کچھ نادان عناصر بھی اس کی مخالفت میں آن دھمکے ا ور انہوں نے یہ فریضہ فیشن کے طور پر نبھایا۔ انہوں نے ناحق اپنے چہروں پر کالک مل لی۔
سی پیک کی د شمنی میں بھارت لنگر لنگوٹ کس کر میدان مں ہے،اس نے را کے ایجنٹوں کی بھر مار کردی، کچھ پکڑے گئے،باقی اپنا شعبدہ دکھا رہے ہیں۔مگر ان کی ایک نہ چلی تو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی برہنہ ہو کر خود اکھاڑے میں اترے، انہیں بلوچستان کے حقوق کا کچھ زیادہ ہی خیال ہے جیسے وہ مقبوضہ کشمیر کے محکوم مسلمانوں کے حقوق پورے کر چکے ہوں اور آسام ، ناگا لینڈ، تری پورہ خالصتان کے حقوق پورے کر چکے ہوں اور اب اس خطے میں اگر کوئی محروم ہے تو وہ صرف بلوچستان ہے، مودی نے بلوچوں کے حقوق کا بیڑہ اٹھایا ہے، اس پردے میں وہ درا صل گوادر کے منصوبے کو تلپٹ کرنا چاہتا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ سی پیک کے مغربی روٹ پر کام ٹھس ہو جائے۔
میں نے ابھی ابھی ایک جہاندیدہ دفاعی تجزیہ نگار لیفٹننٹ جنرل غلا م مصطفی سے سوال کیا ہے کہ کیا ایسا کوئی خدشہ ہے کہ بھارت کسی وقت بلوچ شورش کو بھڑکانے کے لئے اپنی افواج اس علاقے میں اتار دے،، ان کا جواب تھا کہ ا سے ایسی کوئی ضرورت نہیں ، آج کی دنیا میں پراکسی جنگ لڑی جاتی ہے اور بھارت کو اس جنگ کے لئے پیادے وافر تعداد میں دستیاب ہیں مگر ہم ان کی سرگرمیوں سے غافل نہیں ہیں۔
آج صبح جب میں نے پی ٹی وی پر سی پیک کے اجلاس میں وزیر اعظم کو بولتے سنا اور مجھے محسوس ہو اکہ کہ وہ مکمل شانت ہیں،خوف کی کوئی لہر ان کو دامن گیر نہیں تومجھے اپنے اس سوال پر خفت محسوس ہوئی جو میں نے اپنے دوست جنرل مصطفی سے کیا ہے۔پتہ نہیں کیوں میں اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہوں۔میں اپنی بزدلی پر، پردہ نہیں ڈالنا چاہتا ، میں نے یہ سوال بھی کیا تھا کہ کیا کراچی میں الطاف حسین کی اپیل پر نیٹو کی فورسز تو لینڈ نہیں کر جائیں گی۔خدا را! مجھے بزدل نہ سمجھ لیجئے گا۔
میں اپنے دل کو سمجھانے کی کوشش کررہاہوں ۔ میری نظروں کے سامنے شاہراہ ریشم گھوم گئی ہے جس کی تعمیر کے لئے ہزراوں چینی انجنیئروں نے جانیں قربان کیں۔ مجھے اپنے مرشد نظامی کے ایک فوجی دوست کی یہ بات یاد آ رہی ہے کہ چینی وزیر اعظم کو شاہراہ ریشم کا افتتاح کرنا تھا مگر اس نے جب نقشے پر دیکھا کہ راستے میں ایک پل کی تعمیر باقی ہے تو اس نے کہا کہ جب تک شاہراہ مکمل طور پر رواں نہیں ہو جاتی، وہ اس سڑک کا فیتہ نہیں کاٹیں گے اور چو این لائی کے ا س جذبے نے وہ پل ایک قلیل مدت میں مکمل کروا دیا جس کو ناممکن سمجھا جا رہا تھا۔ یہ کام پاکستانی انجینیئروں نے انجام دیا، اب اسی شاہراہ دوستی کو گوادر تک توسیع دی جا ر ہی ہے جس پر چین سے چلنے والے قافلے اپنا سامان ایک مختصر وقت اور کم خرچ میں دنیا کی منڈیوں تک پہنچا سکیں گے۔ گوادر کی یہ بندر گاہ وسط ایشیا سے مربوط ہو گی، میں گواہی دیتا ہوں کہ دو سال قبل لاہور کی ایک بریفنگ میں جنرل باجوہ ان سڑکوں کا جال دکھا چکے ہیں جو شاہراہ ریشم سے جڑی ہوں گی ا ور جو فاٹا کے سے گزر رہی ہیں، یہ سڑکیں پہاڑی علاقے کی وجہ سے زیادہ فراخ تو نہیں مگر موٹروے پر چلنے والے ہیوی ٹرالوں کا وزن سہار سکتی ہیں۔
سی پیک کے اس خواب کی تعبیر میں جو لوگ کوشاں ہیں، ان میں وفاقی وزیرا حسن اقبال بہ لحاظ منصب پوری طرح سرگرم ہیں اورا س فلسفے کو عملی تعبیر دینے کے لئے جو پارلیمانی کمیٹی قائم ہے،ا سکی سربراہی میرے دوست مشاہد حسین کے سپرد ہے، مشاہد کا ہاتھ چین کی نبض پر ہے۔
جنرل کیانی کے دور میں پاک چین اقتصادی کوریڈور کابہت سا کام مکمل ہوا، اب جنرل راحیل شریف اسے مشن سمجھ کر�آگے بڑھا رہے ہیں ،ا نہو ں نے چینی کارکنوں کی سیکورٹی کے لئے پاک فوج میں ایک الگ ڈویژن کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ جو پاک چین کوریڈور کا دشمن ہے، وہ پاکستان کا دشمن ہے ا ورا سکے ساتھ دشمنوں کی طرح نمٹا جائے گا۔
میاں نواز شریف خوش قسمت ہیں کہ قدرت نے انہیں تیسرا موقع فراہم کیا، پہلے وہ قوم کوموٹر وے کا تحفہ دے چکے،اب قوم ہی کو نہیں، پورے خطے کو سی پیک کا تحفہ دے رہے ہیں۔یہ ایک چوتھائی انسانوں کی تقدیر بدل دے گا، یعنی میرے ا ور آپ کے بچوں اور ان کے بچوں کا مستقبل بے حد سہانا ہو گا۔ خدا کرے ایساہی ہو، دعا کرنی ہے تو دل سے کریں۔سننے والا ضرور سنے گا۔
مگر خاطرجمع رکھئے، بھارت لالچی گدھ کی طرح ادھر ادھرمنڈلاتا ہی رہے گا، اسے اس منصوبے سے ایک دمڑی کا فائدہ نہیں پہنچنے دیا جائے