خبرنامہ

سی پیک کا خزانہ یا افسانہ…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

سی پیک کا خزانہ یا افسانہ…اسد اللہ غالب

وہ علم و حکمت کا پہاڑ تھے، دانش کا بحر بے کراں اورمعلومات کا آبشار،زندگی میں میں پہلی بار اپنے ا ٓپ کو بونا تصور کررہا تھا، کوئی ڈکشننری ان کی باتوں کو سمجھنے کے لئے کار ا ٓمد نہ تھی۔ یوں لگتا تھا کہ ایک انسائیکلو پیڈیا ہے جس کے ورق خود بخود الٹ رہے ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ آغا شاہی کے بعد اگر کوئی اس پائے کا منجھا ہوا سفارت کار ہے تو وہ میرے سامنے مجسم شکل میں موجود تھا۔جناب شمشاد احمد پاکستان کے سیکرٹری خارجہ رہے، اقوام متحدہ میں مندوب کے فرائض ادا کرتے رہے اور کئی ممالک میں وطن عزیز کے سفارت کار۔
شہر کے ایک کونے میں ہم چنددوست احباب ہر ہفتے مل بیٹھتے ہیں ۔ گو د سے گور تلک علم کے طالب رہنا ، ہمارا ماٹو ہے۔پروفیسر محفوظ قطب، خالد سلیم، شعیب بن عزیز،وحید رضا بھٹی، ڈاکٹر محمود شوکت،معظم علی خان،تنویر نذیر، ملک غلام ربانی، لیفٹننٹ جنرل غلام مصطفی اور میجر جنرل محمد جاوید۔ ان میں سے جو فارغ ہو تا ہے، اس محفل میں رونق افروز ہوتا ہے اور اکتساب فیض کرتا ہے، خواجہ افتخار، ڈاکٹر مسکین علی حجازی،ضیاالاسلام انصاری،ذوالقرنین،استاد عبداللطیف خاں،بیدار ملک، افتخار علی شیخ،ظہور عالم شہید،مصطفی علی جاوا،ممتاز احمد خاں اورفاروق نثار وقت کے ساتھ ہم سے بچھڑ گئے مگر ان کی موجودگی کو ہم ہر محفل میں محسوس کر سکتے ہیں۔میں ایک بات اور کہہ دوں کہ ہماری ایک محفل بے حد یادگار تھی، اس میں نیو یارک سے ا ٓغا بابر مہمان خصوصی تھے زبان و بیان ان کے گھر کی لونڈی معلوم ہوتی تھی اور اب کوئی ربع صدی بعد شمشاد احمد کی گفتگو سے بھی وہی لطف اٹھایا ۔ دل چاہتا تھا کہ وہ بولتے رہیں ، بولتے رہیں، وقت کی نبض رک جائے اور ہم ہمہ تن گوش رہیں۔جو نکتہ بطور خاص زیر بحث آیا وہ سی پیک کا تھا۔ شمشاد صاحب نے بتایا کہ سی پیک سے بھی پہلے ون بیلٹ ون روڈ کا تصور سامنے آیا ، اب اس کانام تبدیل کر کے بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو کر دیا گیا ہے، یہ کوئی منصوبہ نہیں ، ایک تصور ہے جو موجودہ چینی صدر نے پیش کیا ہے۔ اس کی ضرورت بظاہر اس لئے پیش آئی کہ چین کامغربی حصہ بد قسمتی سے پس ماندہ ہے کیونکہ مین لینڈ چائنا سے یہاں آنا جانا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے درمیان میں قراقرم اور ہمالیہ کا بلند تریں پہاڑی سلسلہ حائل ہے مگر چین کے مغربی حصے کو سلک روڈ کے ذریعے گوادر سے ملا دیا جائے تو اس کا تعلق تین بر اعظموں سے مربوط ہو جاتا ہے۔مگر یہ تو ظاہری پالیسی ہے اصل میں یہ جواب ہے امریکہ کی اس پالیسی کا جس کے ذریعے چین کو فوجی حصار میں لے لیا گیا ہے۔بھارت، جاپان، آسٹریلیا تک امریکہ فوجی اڈے اور اثرو رسوخ پھیلا ہوا ہے، چین کہتا ہے کہ وہ ہتھیار کا جواب ہتھیار سے نہیں دے گا، پوری تاریخ میں اسے ایک جنگ لڑنا پڑی ، وہ بھی بھارت نے مسلط کر دی تھی۔ چین نے ہمیشہ سے تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ کسی سے جنگ نہیں کرے گاا ور معیشت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرے گا، آج امریکی منڈیاں چینی سامان سے لبا لب بھری پڑی ہیں۔چین کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس کے منہ سے جو لفظ نکلتے ہیں،وہ ان پر پورا اتر کر دکھاتا ہے،اس نے کہا کہ وہ یورپ کو ٹرین کے ذریعے چین سے ملائے گا، اس نے ایک ٹرین سپین کے شہر میڈرڈ تک پہنچا دی ہے، یہ پہلی ٹرین ہے جو چین سے یورپ گئی ہے اورا س میں ہسپانوی بچوں کے لئے کھلونوں کے تحائف تھے۔
چین نے گوادر کی بندر گاہ بنا کر پاکستان کو تحفے میں دے دی، یہ سابق چینی صدر ہو جن تاﺅ کے زمانے کا معجزہ اور تحفہ ہے مگر پاکستان اس بندرگاہ کو فنکشنل نہ کر سکا، کبھی دوبئی کی کمپنیوں سے مدد مانگی ، کبھی سنگاپور کی کمپنی کو ٹھیکہ دیا ۔ اب یہی گوادر بندر گاہ چینی منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو کا بنیادی محور ہے۔ہم میں سے کچھ لوگوں کاا اعترااض ہے کہ چین اس کی آمدنی کا اکانوے فی صد حصہ لے جائے گا مگر ہم یہ تو سوچیں کہ اسے بنایا کس نے تھا اور پھر اس کی ا ٓمدنی کی تقسیم کا فارمولا بھی ہم نے خود تسلیم کیا،جناب شمشاد احمد کا کہنا تھا کہ اس کے لئے ہم چین کو دوش کیوں دیں۔
ایک ضروری وضاحت جو پہلی بار ایک تجربہ کارا ور اندر کے راز جاننے والے شمشاداحمد نے پیش کی ، وہ یہ تھی کہ سی پیک سڑکوں، بجلی گھروں، اورنج ٹریننوں ، انڈر پاسوں یاا وور ہیڈ پلوں کا نام نہیں، یہ سب کچھ سی پیک کے تصور کا حصہ نہیں ، یہ ہماری چھوٹی چھوٹی خواہشات ہیں جن کا چین نے احترام کیا ہے۔جناب شمشاد احمد نے کہا کہ چین کسی کو براہ راست پیسے نہیں دیتا مگر اس نے اپنی عادت سے ہٹ کر ہماری خوشنودی کے لئے ساٹھ ارب ڈالر سے زائد کا سرمایہ پاکستان کو فراہم کیا ہے۔جناب شمشاد احمد نے کہا کہ ہمیں سی پیک سے مکمل طور پر مستفید ہونا ہے تو اس کے لئے ویسی ہی ایک خود مختار اتھارٹی تشکیل دینی چاہیئے جس کا ایٹمی پروگرام کی تکمیل کے لئے اہتمام کیا گیا تاکہ اس کی مکمل راز داری برقرا رہ سکے اور کسی دوسرے ادارے یا صوبے کو اس میں منہ مارنے کا موقع نہ مل سکے۔ بد قسمتی سے اس اتھارٹی کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا اور سی پیک کا حشر بھی وہی ہو رہا ہے جو پہلے کالا باغ ڈیم کا ہو چکا ہے۔ اب کسی نے اورنج ٹرین لے لی ہے تو دوسرا ریڈ ٹرین مانگ رہا ہے ، کسی کا مطالبہ ہے کہ مغربی روٹ پہلے مکمل کیا جائے ، کوئی مشرقی روٹ کی فوری تکمیل چاہتا ہے،۔جتنے منہ، اتنے ہی مطالبے۔اس طرز عمل سے ہم چین کو پریشان کر دیں گے۔چین کو اپنے کام سے کام ہے، بندر بانٹ اس کی عادت کا حصہ ہی نہیں۔
جناب شمشاد احمد ہی ا س مغالطے کو دور کرنے کی پوزیشن میں ہیں کہ امریکہ نے جنگ زدہ یورپ کی معاشی بحالی کے لئے جو مارشل پلان پیش کیا ، اس کی کوئی مطابقت سی پیک سے ہے یا نہیں ۔ ان کا جواب تھا ہر گز نہیں، چین تو ہ راہیں تراش رہا ہے جن پر چلتے ہوئے دنیا کے تین بر اعظم عالمی آبادی کے پینسٹھ فیصد حصے کی تقدیر بدل سکتے ہیں مگر اس کے لئے جو کچھ کرناہے ، وہ ہر ملک نے خود کرنا ہے۔ مثال کے طور پر سابق چینی صدر نے پاکستان اور بھارت دونوں سے کہا تھا کہ ا س کی خواہش ہے کہ دونوں ملک دس بلین کی تجارت کے حجم تک پہنچیں۔ آج ہم تو اسی ہدف کے آس پاس ہیں جبکہ دس برسوںمیں بھارت سو بلین کے ہدف کو چھو رہا ہے۔ شمشاد احمد نے ایک مثال ا ور بھی دی کہ ا یک بار ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد پاکستان کے دورے پر آئے، تب نواز شریف وزیر اعظم تھے، اسحق ڈار ، احسن اقبال اور کئی وزرا دائیں بائیں تشریف رکھتے تھے، مہاتیر نے کہا کہ میرے لئے دکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستان اور ملائیشیا کی تجارت شدید عدم توازن کا شکار ہے ، پاکستان بہت زیادہ پا م ا ٓئل ملائیشیا سے درا ٓمد کر رہے مگر مجھے آپ لوگ بتائیں کہ میں اس عدم توازن کو درست کرنے کے لئے پاکستان سے کیا خرید سکتا ہوں ۔ ہماری پوری حکومت نے کوئی متبادل تجویز پیش نہ کی ۔ اگر ہم ترقی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے زرعی اور صنعتی شعبے کو ترقی دینا ہو گی تاکہ ہمارے پاس بھی کچھ ایسا مال ہو جو دوسروں کی ضرورت بن سکے اور وہ ا سے درا ٓمد کرنے لئے مجبور ہو سکیں۔
جناب شمشاد احمد محفل میں موجود ہوں تو یہ ہو نہیں سکتا کہ بات محض سی پیک تک محدود رہے، ان سے کئی سوال کئے گئے جن کے جواب میں انہوںنے راز ہائے سر بستہ سے پردہ اٹھایا۔ اور ہم دنگ رہ گئے۔ انہوںنے بتایا کہ ایٹمی دھماکوں سے رواکنے کے لئے صدر کلنٹن کے کیا فون آتے رہے ا ور ان کے جواب دینے کے لئے وزیر اعظم کو کس طرح تیار کیا جاتا رہا۔انہوںنے یہ مغالطہ بھی دور کیا کہ واجپائی کی لاہورا ٓمد پر سروسز چیفس نے بھارتی وزیر اعظم کو سیلوٹ سے انکار کر دیا تھا، شمشاد صاحب نے بتایا کہ ایک تو واجپائی کا دورہ مکمل طور پر سرکاری نہ تھا، دوسرے ان کے لئے گارڈ آف آنر اور استقبالیہ کی رسمی تقریب گورنر ہاﺅس لاہور میں رکھی گئی تھی، جہاں تینوںسروسز چیفس نے معزز مہمان کو سلامی پیش کی۔
شمشادا حمد نے اس راز سے بھی پردہ اٹھایا کہ وہ چین میں سفیر بنتے بنتے کیوں رہ گئے اورا سکے بجائے انہیں سیکرٹری خارجہ کا منصب کیوں قبول کرنا پڑا،۔ انہوںنے یہ بھی تاریخی گواہی دی کہ وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں ہدایت کی تھی کہ بھارت سے دوستانہ تعلقات رکھنے کی ضرورکوشش کریں مگر کشمیر پر کوئی سودے بازی نہ کریں ، چنانچہ ان کے دور حکومت میں کمپوزٹ مذاکرات میں کشمیر کا مسئلہ سر فہرست رکھا گیا۔بعض ناگفتنی باتیں بھی سننے کو ملیں اور بعض واقعات آف دی ریکارڈ رکھے گئے، دیکھئے کبھی شمشاد صاحب آپ بیتی قلم بند کریں تو سب کچھ سا منے ا ٓ جائے جو ہمارے سامنے ہوا مگر ہم اس کے پس منظرسے آ گاہ نہیں ہو سکے۔ آئین پاکستان کی روسے معلومات تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور جس کے پاس جو معلومات ہیں ، وہ قوم تک پہنچانے کاا ٓئینی طور پر مکلف ہے۔ توقع ہے کہ جناب شمشاد صاحب وطن عزیز کی حالیہ تاریخ کو ا سکے اصل رنگ میں جلد از جلد پیش کریں گے۔میرے ایک سوال کے جواب میں انہوںنے بتایا کہ مشرف دور میں مسئلہ کشمیر کے حل کا جو فارمولہ تیار کیا گیا تھا، اس سے یہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ شکل ا ختیار کر لیتا کیونکہ اس معاہدے کے ذریعے کشمیر کے اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کا امکان سامنے آ رہا تھا۔
دعا ہے کہ اللہ کشمیر کو کسی بھی ایسے حل سے محفوظ رکھے۔