شمالی وزیرستان سے آگے
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں مگر سے آگے کیا ہے آگے ہے پورا پاکستان۔ میں فی الوقت پاک فضائیہ کو جھونک دیا گیا ہے۔ اگے تیرے بھاگ لچھیئے۔
وزیر اطلاعات نے کہا ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، سو باتیں کرنے والے رابطہ کار عرفان صدیقی کو چپ لگ گئی ہے اور باتوں کے مستانے تحریک انصاف کے عمران خان نے بھی دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنالی ہے۔ ان کی کور کمیٹی کے اندر کی خبر یہ ہے کہ اب وہ فوری آپریشن کی حمایت کرے گی۔ دیکھے ہیں اس کا اعلان کب ہوتا ہے، شاید فوجی آپریشن کے زمینی مرحلے کے آغاز کے لیے اس اعلان کا انتظار ہورہا ہے۔
فوجی آپریشن اب زیادہ دور کی بات نہیں، فوج اس کے لیئے پوری طرح کمربستہ ہے اور چند ہفتوں کے اندر ٹارگٹ مکمل کرنے کا عندیہ دے رہی ہے۔ اصل معرکہ زمینی دستوں کی پیش قدمی کے بعد بر پا ہو گا اور امید تو یہی ہے کہ فوج اپنی جان پرکھیل کر میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کر دے گی لیکن پھر کیا ہوگا، ایک تو وہی ظلم کی کہانیاں دہرائی جائیں گی، لکھنے اور بولنے والے کولیٹرل نقصان کو اچھالیں گے اور عدالتوں میں مزید لاپتا افراد کے مقدمے چلائے جائیں گے۔ مگر وہ جو دہشت گردوں کے ہاتھوں لاپتا ہوتے ہیں، اور ان کو قید میں اذیت سے دوچار کیا جاتا ہے۔ پھر ایک قطار میں کھڑا کر کے باری باری گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے یا بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کر دیا جاتا ہے اور اس کے بعد لاشوں کا بھی کوئی سراغ نہیں ملتا۔ وہ بھی تو کسی باپ کے لخت جگر ہوتے ہیں کسی بہن کے ویر ہوتے ہیں، کسی ماں کے لاڈلے ہوتے ہیں، کسی معصوم بچے کے سر کا سایہ ہوتے ہیں۔ اور کسی کا سہاگ ہوتے ہیں لیکن ہم ایک فقرے میں ان کو فارغ کر دیتے ہیں کہ انہیں مرنے کی تنخواہ ملتی ہے۔ جی ہاں، وہ اپنی نتخواہ حلال کرنے کے لیئے حلال ہوتے رہیں گے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر اور میں بھی امن قائم کر دیں گے مگر ہم باقی ملک کا کیا کریں گے، ہمارے اندر تو اتنی ہمت نہیں کہ قومی ترانہ پڑھنے کے لیے اجتماع کرسکیں، ہم ایک جلسہ گاہ کی سکیور یٹی کا بندو بست کرنے کے اہل نہیں، پاکستان بھر میں قیام امن کی ذمے داری کیسے نبھائیں گے۔
فوج نے سوات میں امن قائم کر دیا تھا، کئی برس بیت گئے، فوج کہتی ہے کہ اسے وہاں سے فارغ کیا جائے مگر صوبہ سرحد کے پاس پولیس نہیں ہے، انتظامیہ نہیں ہے، عدلیہ نہیں ہے، اسکول چلانے کے لیئے اسا تذہ نہیں ہیں، ہسپتالوں کے لیئے نرسیں اور ڈاکٹر نہیں ہیں، اور تحر یک انصاف کا دعوی یہ تھا کہ وہ سونامی بر پا کرے گی اور انقلاب برپا کر دے گی۔ سوات تو خیر سے فاٹا سے ملحقہ علاقہ ہے، لاہور تو سینکڑوں کلومیٹر دور ہے، یہاں امن کیوں قائم نہیں ہوتا، گھروں میں درجنوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ روز ڈاکے پڑتے ہیں، ڈاکووں کے ہاتھوں شہری مرتے ہیں، پولیس گردی سے لوگ تنگ ہیں، عمراکمل کی ہاتھا پائی کے بعد اس کا لائسنس ضبط کرنے کی تو کارروائی ہوتی ہے لیکن ہزاروں کی تعدادمیں حادثے ہوتے ہیں، کیا ان حادثوں کے ذمے دار ڈرائیوروں کے بھی لائسنس ضبط ہوئے، یہ ڈارئیور تو موقع سے فرار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کی کسی عدالت میں جھانکیں، برسوں سے سائلوں کے وہی چہرے نظر آئیں گے، جوتیاں چٹخاتے عمر ڈھل جاتی ہے، عدالت کے منشی کے سامنے مثلوں کا ڈھیر پڑا رہتا ہے اے جی آفس کی سیڑھیاں چڑھتے بوڑھے پنشنرزدم توڑ دیتے ہیں کلرک بادشاہ ٹس سے مس نہیں ہوتے،سول سیکرٹریٹ میں گرد آلود قائلوں کا ایک انبار ہے، ریویو بورڈ کے ہر ممبر کی میز پر سودوسوسال پرانی کرم خوردہ عرضیاں ایک ککھی کی منتظر ہیں۔ یہ کام تو فوج نے نہیں کرنے۔ وہ ایک محدود سے علاقے میں دہشت گردوں سے نمٹ سکتی ہے مگر پاکستان کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے انتہا پسندوں سے نبٹا اس کا کام نہیں، اس کے لیئے جمہوری نظام، منتخب حکومت، پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیاں، وزرا کی فوج، بابوشاہی، پولیس اور سول انتظامیہ کے لا ؤلشکر کو اپنا فرض نبھانا ہوگا۔ اور یہ فرض اس طرح تو ادا نہیں ہوسکتا کہ ایک خاندان کی بادشاہی قائم کر دی جائے، کوئی چیف منسٹر کوئی قائم مقام چیف منسٹر کوئی وزیراعظم کوئی نامزدڈپٹی وزیراعظم اور باقی رشتے دار اور مدح سرا وزیر مشیر، پارلیمانی سیکرٹری۔ جمہوریت میں ایسا نہیں ہوسکتا نہ ہونا چاہئے مگر ایک وزیر با تدبیر نے آج ہی فرمایا ہے کہ وزیراعلی اپنا قیمتی وقت اسمبلی میں آ کر ضائع نہیں کر سکتے، ہاں، یہ وزیراعلی نو ماہ میں چین کے تین دورے کر چکے، جرمنی، لندن، امریکہ اور نجانے کہاں کہاں جا چک۔ے مگر عین وقت پرترانہ پڑھنے کا ریکارڈ قائم کرنے کی تقریب کو ملتوی کر دیتے ہیں، کیوں، بہانہ تو یہ ہے کہ چار لاکھ لوگ رجسٹر ہو گئے تھے، اب کہیں اور انتظام ہوگا مگر انہیں بتاتے کہ ان کی پولیس اور انتظامیہ سکیوریٹی خطرات کا ازالہ کرنے سے قاصر رہی۔
حکومت کا کام تو یہ ہے کہ پورے ملک میں پھیلے ہوئے انتہا پسندوں کے نیٹ ورک کا خاتمہ کرے۔ لیکن رانا ثناء اللہ تو مانتے ہی نہیں کہ کوئی جنوبی طالبان نامی تنظیم بھی ہے نہیں ہے تو لاہور کی تقریب ملتوی کیوں کی۔ جو سیاسی پارٹیاں انتہا پسند لیڈروں کو انتخابی مہم میں ٹرک پر بٹھا کر ووٹ مانگتی ہیں، وہ ان کا خاتمہ کیا کریں گی، یہی وجہ ہے کہ ایف سی کالج کے پررونق پل پرکئی بار ٹارگٹ کلنگ ہو چکی ہے۔ ایف سی کالج کا پل لاہور میں واقع ہے۔ کوہاٹ میں نہیں، کوئٹہ میں نہیں۔ یہ ایک نیا شمشان گھاٹ بن چکا مگر آج تک اس پل پر کوئی پولیس پارٹی متعین نہیں کی گئی مگر اس سے اگلے جیل روڈ والے پل پر ٹریفک اہل کار چالان کرنے کے لیئے رات گئے تک گھات میں کھڑے رہتے ہیں۔ تین دن پہلے میں اسلام آباد کے ایک صحافی سے فون پر بات کر رہا تھا، وہ یکا یک چیخ اٹھا کہ اس نے گاڑی میں فون سننے کے لیئے پچاس ہزار روپے کا بلیوٹوتھ آلہ لگا رکھا ہے مگر شرطے نے پھر بھی چالان کر دیا ہے، اسی اسلام آباد میں ایک اسکندر نے پولیس کوئی گھنٹوں تک تگنی کا ناچ نچایا، اس کا چالان کرنے کے لیئے کوئی شرطہ آگے نہ بڑھا۔
ابھی ابھی لاہور میں پاک فضائیہ کی ایک خاتون اسکواڈرن لیڈر سے میری بات ہورہی تھی، جب انہوں نے بتایا کہ وہ گاڑی میں ہیں تو میں نے انہیں شرطوں سے ہوشیار رہنے کی تلقین کی، انہوں نے بتایا کہ وہ چالان بھگت چکی ہیں۔ یہ فون ا نہیں پی اے ایف کے ہیڈ کوارٹر سے آیا تھا جسے سنناان کی مجبوری تھی۔
کا مسئلہ آخرتو حل ہو جائے گا مگر اس سے آگے پورے پاکستان میں مسائل کا جو جنم دہک رہا ہے، اس کو کون ٹھنڈا کرے گا۔ لاہور میں ایک ایل ڈے اے پلازہ کی آگ تو کسی سے بجھائی نہ جا سکی۔
کیا ہم جمہوری نظام کو اس قدر تگڑا کریں گے کہ وہ مسائل کے جہنمی جن سے گتھم گتھا ہونے کی ہمت کر سکے۔ (25 فروری 2014ء)