خبرنامہ

شنگھائی دور ہے اور راستے میں ارمچی بھی ہے…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

شنگھائی دور ہے اور راستے میں ارمچی بھی ہے…اسد اللہ غالب

ملک کے ڈی فیکٹو حکمران میاں شہباز شریف چین کے دورے میں میٹرو ٹرین کے ایک معاہدے کو حتمی شکل دینے میں مصروف تھے کہ ارمچی کے بازار میں صبح سویرے دھماکہ ہو گیا جس سے ریستوران میں ناشتہ کرتے ہوئے کئی چینی شہری ہلاک ہو گئے۔ اس دہشت گردی کی ذمے داری مشرقی ترکستان مسلم تحریک نے قبول کی تھی۔
ہوسکتا ہے چینی میزبانوں نے اسی وقت اپنے مہمان سے کچھ وضاحتیں طلب کی ہوں، مگر ایسی کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی مگر چند روزقبل ہمارے آرمی چیف چین کے چار روزہ دورے پر روانہ ہوئے تو میرا ماتھا ٹھنکا۔ اس دورے کی بظاہر کوئی وجہ نہ تھی۔ ایک قاری نے اس روز مجھے فون کیا اور یہ دورہ زیر بحث آیا تو میں نے اس امکان کا اظہار کیا کہ اس دورے کا تعلق ارمچی کے حالیہ دھماکے سے بنتا ہے۔
مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی کہ واقعی میرے خدشات درست ثابت ہوئے تھے۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے چین کے مرکزی دفاعی کمیشن کے نائب سربراہ جنرل چنگ لانگ سے ملاقات کی ہے۔ جس میں چینی دفاعی حکام نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ پاک فوج مشرقی ترکستان اسلامی تحریک کی سرگرمیوں کے خاتمے میں کردار ادا کرتی رہے گی۔ چینی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق جنرل راحیل شریف نے اس تنظیم کو پاکستان اور چین دونوں کا دشمن قرار دیا۔
چین سے جاری کی جانے والی خبروں کی زبان انتہائی ڈپلومیٹک اورمحتاط ہوتی ہے مگر سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں کہ چینی حکومت اصل میں کیا کہنا چاہتی ہے۔
قصہ یہ ہے کہ پاکستانی سرحد سے ملحق، سکیانگ کے علاقے میں مسلم آزادی کی تحریک چین کے لیئے انتہائی پریشان کن ہے۔ مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ1949 تک آزاد تھے مگر چین نے بزورقوت اس علاقے پر قبضہ جمالیا مگر مسئلہ چین کے ترک علاقے تک محدود نہیں ہے، یہ تنظیم تمام مسلم ترک علاقوں پرمشتمل ایک آزاد مملکت قائم کرنے کا نعرہ لگاتی ہے اور ان علاقوں میں پاکستان، افغانستان، ترکی، قازقستان، کرغزستان اور چین کے تمام تر ک علاقے شامل ہیں۔ اس طرح یہ تنظیم ان تمام ممالک کے لئے پریشانی کا باعث ہونی چاہئے مگر عملی طور پر اس کی سرگرمیاں چین تک محدود ہیں، کبھی بیجنگ میں دھماکے اور زیادہ تر سنکیانگ کے دارالحکومت ارمچی ہی میں دہشت گردی کی کارروائیاں۔
پاکستان کی نئی حکومت شنگھائی سے گوادر تک، ایک طویل کوریڈور کا نعرہ لگاتی ہے مگر اس کوریڈور میں سنکیانگ کی تحریک آزادی کی سرگرمیاں حائل ہیں۔ اس تحریک کے بانی کو پاک فوج نے فاٹا کے علاقے میں ہلاک کیا اس کے جانشین کوبھی پاک فوج نے اسی علاقے میں ٹارگٹ کیا، اس تحریک کے ایک لیڈر کو ڈرون حملے میں نشانہ بنایا گیا۔
چینی ترک مسلمانوں کا خیال ہے کہ وہ آزادی کی تحریک چلارہے ہیں۔ ایک زمانے میں چین نے اپنے مسلمانوں کوحج پر بیجنے کے لیے پاکستان کی ایک مذہبی اور سیاسی جماعت کوٹھیکہ دے رکھا تھا مگر کچھ عرصہ بعد چینی حکومت کو پتا چلا کہ حج کے ساتھ ان لوگوں کو جہاد کی تربیت بھی دی جارہی ہے۔ چین نے اس پر سخت ناراضی کا اظہار کیا اور اس جماعت نے آئندہ کے لیئے اپنی حرکت سے توبہ کی مگر افغان جہاد نے چینی، از بک، کرغز، عرب، فلپائینی غرضیکہ ہر رنگ نسل کے مسلمانوں پر جہادی تربیت کے دروازے کھول دیئے، سوویت روسں سے فارغ ہو کر وہ یا توپاکستان ہی میں جم کر بیٹھ گئے یا اپنے اپنے ملکوں میں واپس جا کر جہاد کا علم بلند کر دیا۔ اصولی طور پر مورو تحریک آزادی، چین تحریک آزادی، چیچن تحر یک آزادی، یغورتحریک آزادی کو کشمیر یا فلسطین کی تحریک آزادی سے جدا نہیں کیا جا سکتا لیکن آج کی دنیا میں، خاص طور پر نائن الیون کے بعد کسی تحریک آزادی کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ وہ زمانہ لد گیا جب نیلسن منڈیلہ کو دہشت گرد کے بجائے آزادی کے ہیرو کے طور پر تسلیم کیا گیا، یا فلسطین کے یاسرعرفات پر دہشت گردی کا الزام واپس لیا گیا اور اسے اقوام متحدہ میں خطاب کے لیے مدعو کیا گیا۔
پاکستان شدید نظریاتی بحران کا شکار ہے۔ دہشت گردی کیا ہے اور تحریک آزادی کیا ہے، ہم اس کی تعریف پرمتفق نہیں ہو پائے۔ حالیہ دنوں میں تو یہ بحث شروع ہوگئی کہ اپنی فوج میں سے جانیں قربان کرنے والے شہید نہیں ہیں، منور حسن اورفضل الرحمن نے خوب دھول اڑائی۔ پھر یہ سننے میں آیا کہ طالبان ہمارے بچے ہیں۔ ن لیگ کی حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن بند کروا دیا، اسے دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی تائید بھی میسر آ گئی۔ اب ایک میڈیا ہاؤس کی جنگ نے سارے نظریات غتر بود کر دیئے۔
اس عالم میں کون کہہ سکتا ہے کہ چین کے یغورمسلمان حق پرنہیں ہیں۔ مگر چین کے ساتھ ہمارا رشتہ ایسا ہے کہ ہمیں اپنا آرمی چیف وہاں یہ کہنے اور یقین دلانے کے لیئے بھیجنا پڑا کہ یغورتحر یک، چین اور پاکستان دونوں کے لیئے خطرے کا باعث ہے۔ اگر نواز شریف کا موقف اس کے برعکس ہے تو ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف ہمت کریں اور یغور مسلمانوں کی حمایت میں بیان جاری فرمائیں۔ پرویز رشید بڑے ترقی پسند اور بنیادی حقوق کے علم بردار بنے پھرتے ہیں وہ ذرا زبان ہلائیں لیکن یہ ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ پاکستان اقوام متحدہ کا رکن ہے، وہ اس کے چارٹرکوتسلیم کرتا ہے، وہ کسی علیحدگی کی تحریک کو جائز نہیں سمجھتا۔ وہ جغرافیائی ریاستوں کی توڑ پھوڑ کے حق میں نہیں ہے۔
اور اگر چین کے سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے تو خود اپنے ملک کے لیئے بھی ہمیں اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا۔ دہشت گردوں کو اپنا بچہ نہیں سمجھنا ہوگا۔ ساٹھ لاکھ پاکستانیوں کا خون کرنے والوں کے سامنے سفید جھنڈا نہیں لہرانا ہو گا، بلکہ ان کے بچے کھچے عناصر کی سرکوبی کر کے اپنے ملک کو ہر شورش اور خونریزی سے محفوظ بنانا ہوگا۔
کس کو یاد نہیں کہ پہلی اسلامی ریاست مدینہ کے سربراہ کے سامنے جب زکواۃ دینے سے انکار کا مسئلہ سامنے آیاتو انہوں نے تلوار نیام سے نکال لی تھی اور ریاست کی رٹ بحال کرنے تک دم نہیں لیا تھا۔
تو آج ہم ریاست کوللکارنے والوں کو اپنے لاڈلے کیسے سمجھ بیٹھے ہیں۔ پروفیسر ابراہیم تو اسلامی تاریخ سے اچھی طرح واقف ہیں۔ فواد حسن فواد یا عرفان صدیقی کو رعایت دی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی تاریخ پرعبورنہیں رکھتے ہوں گے۔ اور چین کے صدر کا یہ حکم بھی یاد رکھیئے، انہوں نے ارمچی دھماکے کے بعد کہا ہے کہ بارڈر پرز مین سے لے کر آسمان تک کنکریٹ کی دیوار کھڑی کر دی جائے، مجھے بتایئے شنگھائی گوادر کوریڈور اس دیوار میں کیسے شگاف کر سکے گا۔ (6 جون 2014ء)