خبرنامہ

شہباز شریف بیسٹ چوائس….اسداللہ غالب

شہباز شریف بیسٹ چوائس….اسداللہ غالب

اگرچہ یہ کوئی امتحان نہیں، سراسر سازش ہے مگر اس کڑے وقت میں نواز شریف نے مضبوط اعصاب سے کام لیا ہے، اور وہ فیصلہ کر دکھایا ہے جو اس ملک کے لئے، ان کی پارٹی کے لئے اور خود شریف خاندان کے لئے بہترین ہو سکتا ہے۔

شہباز شریف ایک بیسٹ چوائس ہیں جو ملک اور حکمران پارٹی دونوں کو لیڈ کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔
نواز شریف کو یہ مفت مشورہ دینے والے کم نہیں تھے کہ شہباز کا پنجاب میں رہنا ضروری ہے، تاکہ اگلے الیکشن میں بھی کامیابی کی ضمانت مل سکے مگر نواز شریف کا ذہن ابھی کام کرتا ہے، وہ جانتے ہیں کہ پنڈی اور اسلام آباد کے درمیان فاصلہ صرف بیس منٹ کا ہے۔ اور ان دو شہروں کے مابین نہ کوئی اٹک کا پل حائل ہے، نہ لواری ٹاپ سے ان شہروں کا رابطہ منقطع ہو سکتا ہے۔ اسلام آباد تو راولپنڈی کا ایک محلہ ہے۔ اس نکتے کی وضاحت کے لئے مجھے دلائل کا انبار لگانے کی ضروت نہیں کیونکہ صائب فیصلہ تو ہو چکا، اسے اب ریورس گیئر نہیں لگ سکتا۔
نواز اور شہباز دو بھائی ہیں، مگر جسد واحد کی طرح، ان کے درمیان بھی اسی طرح کی الف لیلیٰ کی کہانیاں گھڑی جاتی ہوں گی جو نواز اور نثار کے درمیان تفریق پیدا کرنے کے لئے گھڑی گئیں۔ مگر یاد رکھئے الف لیلیٰ صرف بچوں کا دل بہلاوا ہے، اس کا مادی ا ور حقیقی دنیا سے دور کا تعلق نہیں۔ اس لئے برسہا برس کی سیاست اور حکومت کے باوجود نواز اور شہباز کے باہمی تعلقات میں بال برابر بھی فرق واقع نہیں ہوا۔
دونوں بھائیوں کی سوچ اور انداز کار بھی یکساں ہے، دونوں کو ملکی ترقی اور خوشحالی کے منصوبے پروان چڑھانے کا جنون ہے۔ اس ملک میں موٹر ویز ہوں، میٹروز ہوں، انڈر پاسز ہوں یا فلائی اوور، یا اب بجلی کے ان گنت منصوبے، یہ ان بھائیوں کے دم قدم سے ہیں، باقی کوئی وزیراعظم یا وزیراعلیٰ تو نقل بھی نہیںمار سکا، اس لئے کہ نقل کے لئے عقل کی ضرورت ہوتی ہے جس کی ہماری سیاسی مارکیٹ میں مندی ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ یہ تو موروثی سیاست ہوئی، ایسا وہ کہہ رہے ہیں جو اپنے باپ داد ا کی سیٹوں پر جیتتے چلے آ رہے ہیں اور اگر کوئی جمہوریت پسند یہ بات کہے تو میرا اس سے ایک سادہ سا سوال ہے کہ جب ایوب خان کے سامنے محترمہ فاطمہ جناح کو کھڑا کیا گیا تو کیا یہ موروثی سیاست نہیں تھی، ایک بھائی کے بعد اس کی بہن۔ بھٹو کے بعد اس کی بیٹی، بیٹی کے بعد اس کا خاوند اور اب اس کا نا بالغ بیٹا پارٹی کا چیئرمین کہلواتا ہے اور سندھ کی گوٹھوں کا دورہ کرتا ہے تو آکسفورڈ لہجے میں انگریزی خطاب کے جوہر دکھاتا ہے تو میری ہنسی چھوٹ جاتی ہے، یہ وہ پارٹی ہے جس میں چار کے ٹولے کی بغاوت کی بنیاد ہی اس اصول پر تھی کہ وہ ایک نوعمر، ایک غیر تجربہ کار بے نظیر کے حواری نہیں بن سکتے، جتوئی نے تو نوائے وقت فورم میں میرے سامنے اپنے سفید بال پھیلاتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے بے نظیر سے کہا ہے کہ بی بی! یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کروائے مگر یہ لوگ بھی بھٹو کے بعد اس کی بیوی کو لیڈر ماننے کے لئے تیار تھے۔ باقی ملک کا تو حال ا س سے بھی زیادہ پتلا ہے، ایک بار کوئی کنگلا بھی اسمبلیوں میں پہنچ گیا تو اس کی ساری آل اولاد کے وارے نیارے ہو گئے۔ اور ساری نسلوں کی قسمت پڑیا نکل آئی۔ مگر شریف فیملی نے تو سیاست اور اقتدار کا چلہ کاٹا ہے، ان کی تین نسلیں اب کاروبار میں ہیں اور بے حد کامیاب، اس قدر کامیاب کہ ڈیڑھ سال سے سپریم کورٹ کو اس میں کوئی داغ دھبہ نہیں ملا۔ اور پھر نواز اور شہباز کی سیاست کا تجربہ تین عشروں پر پھیلا ہوا ہے۔ نواز کو طعنہ ملتا ہے کہ جنرل ضیا کے گملے میں اس کی پنیری اگائی گئی تو صاحب! بتایئے کہ ایوب خان کے گملے میں بھٹو کے پودے نے نشوونما نہیں پکڑی اور یہ بھی دنیا میں ایک نادر مثال ہے کوئی سویلین شخص، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن بیٹھے۔ یہ کلغی بھٹو کے سر پہ سجی۔ اور آج کے کم و بیش سارے سیاستدان جنرل ضیا کے غیر سیاسی الیکشن کی پیداوار ہیں، اب جتنا مرضی جمہوری ہونے کا دعویٰ کرتے پھریں، یہ تو کل کی بات ہے کہ مشرف نے ریفرنڈم کروایا اور عمران خان اس کے لئے گلی گلی جلوس نکالتا پھرتا تھا۔
شہباز پر تو یہ پھبتی بھی نہیں کسی جا سکتی، وہ خالص ایک جمہوری عمل کی پیداوار ہے، میںنے اس کی سیاست پچاسی میں دیکھی جب وہ اپنے بھائی نواز کے کوپر روڈ مرکزی الیکشن آفس کا انچارج تھا، اس نے سیاست کی اگلی سیڑھی لاہور چیمبر کا الیکشن جیت کر عبور کی۔ اور پھر وہ پنجاب اسمبلی میں پہنچا، قومی اسمبلی کی سیٹ پر کامیاب ہوا، پنجاب کی چیف منسٹر شپ چلانے کا سبق انہوں نے ایک مسلم لیگی کارکن غلام حیدر وائیں سے لیا۔ وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا چار مرتبہ وزیراعلیٰ رہ چکا ہے۔ اس کے کارنامے دیواروں پر لکھے ہیں، قوس قزح کے رنگوںمیں سجے ہیں، ہونہار طلبہ و طالبات کی آنکھوںمیں چمک رہے ہیں۔ اور لوڈ شیڈنگ کے اندھیروںمیں ڈوبے آنگنوں میں روشیناں بکھیر رہے ہیں۔
شہباز اب ڈارئیونگ سیٹ پر ہو گا۔ اسے کسی غیر ملکی طاقت سے اپنا تعارف کروانے کی ضرورت نہیں، وہ چین کے بیسیوں دورے کر چکا ہے، ترکی، جاپان، جرمنی، برطانیہ، خلیجی ممالک اور دیگر عالمی طاقتوں سے اس کے براہ راست روابط پہلے سے استوار ہیں، دنیا کے سب سے بڑے منصوبے ون بیلٹ، ون روڈ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ وہ غیروں کے ساتھ ان کی زبان میں بات کرتا ہے تو غیریت کی دیواریں گر جاتی ہیں اور اسے جواب میں بے پناہ اپنائیت ملتی ہے۔
حکومت اور متوقع طور پر پارٹی کے سربراہ بننے پر میں ان کی کامیابی کے لئے دعاگو ہوں، شہباز اپنے بھائی کی میراث کو آگے لے کر بڑھے گا، اس کے ہاتھ میں وہی پرچم ہو گا جسے برسوں سے اس کے بڑے بھائی نے تھام رکھا تھا۔ ملک کی داخلی یا خارجہ پالیسی میں اس کے آنے سے کوئی الٹی تبدیلی نہیں آئے گی، پاکستان میں طاقت کے مراکز سے توازن قائم رکھنے کی مہارت اس کی سب سے بڑی خوبی ہے۔