خبرنامہ

شہدا کے سائے میں

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

شہدا کے سائے میں

یہ رنگ و نور کی ایک کہکشاں تھی جو شہدا کے قدموں کو چومنے کے لیئے مچل رہی تھی، مجھے اپنی آنکھوں پر اعتبار نہ آیا، یہ خواب آگیں کیفیت جیتے جاگتے میرے نصیب میں کہاں، اردگرد دیکھا تو سبھی شناسا چہرے تھے، الطاف حسن قریشی میرے دائیں جانب بیٹھے تھے، ان سے آگے میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ جو کچھ دیر پہلے ہی پنڈی سے لاہور پہنچے تھے، اور لاہور آئی ایس پی آر کے انچارج کرنل شاہد عباس، جو بے شمار سکیور پیٹی چیک پوسٹوں سے ہمیں بحفاظت نکال لائے تھے۔ سبھی دیکھے بھالے چہرے تھے لیکن جو کچھ آنکھوں کے سامنے تھا، وہ عالم رویا کے منظر سے کم نہیں تھا، میں ایک گناہ گار انسان، مجھے شہدا کی زیارت کیسے نصیب ہوگئی مگر جنرل کیانی پنڈال سے اٹھ کر اسٹیج کے طرف جانے لگے تو شہداان کے سروں پر سایہ فگن دکھائی دیئے۔ اردگرد فرشتے قطار اندر قطار اور شہدا بیک زبان وردکر رہے تھے۔
میں پھر جلایا جاؤں، میں پھر شہید ہوں
میں پھر جلایا جاؤں، میں پھر شہید ہوں
ہم بی آر بی نہر کے اس مقام پر تھے جہاں ہڈیارہ نالہ واقع ہے اور جہاں پینسٹھ کی جنگ میں میجر شفقت بلوچ نے ایک چھوٹے سے فوجی یونٹ کے ساتھ بھارتی فوج کے پورے بریگیڈ کی یلغار کو تین دن روکے رکھا تھا، کرنل شاہد عباس نے درختوں کے ایک جھنڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اس میں شفقت بلوچ کا کمپنی ہیڈ کوارٹر واقع تھا، جرات و شجاعت کے اس لازوال مرکز کے آس پاس پاک فوج نے جنرل کیانی کی ہدایت پر شہدا کے لواحقین کے لیئے ایک خصوصی سیکٹر کھڑا کیا ہے جہاں ایک سال کے اندر سڑکوں اور پارکوں کا جال بچھا دیا گیا ہے اور کئی منزلہ فلیٹس بھی تعمیر ہو چکے ہیں، ان کی چابیاں شہدا کے لواحقین میں تقسیم کرنے کے لیے چھبیس نومبر کی صبح کو اس تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔
میں وہاں سے واپس تو آگیا ہوں مگر میرا ذہن وہیں کہیں اٹک گیا ہے، یہاں شہدا کے لواحقین کا بسیرا ہوگا مگر اصل میں ان گھروں میں شہدا کی روحیں سایہ فگن رہیں گی، اس پاک اور مقدس جگہ کو چھوڑنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا، سوچ رہا تھا کہ یہیں کہیں تحلیل ہو جائیں اور ان شہیدوں کے گل وگلزار کی مہک سے مشام جاں کو معطر کرتا رہوں۔ میری تاریک راتوں میں ان کا خون، حنا رنگ روشنیاں بکھیرتا رہے اور میری خنک شاموں میں ان کے سانسوں کی گرمی مچلتی رہے اور میرے سنسان آنگن میں ان کے جذبے آبشار بن کر گرتے رہیں۔
میں نے اپنے قارئین کو خبر دی تھی کہ شہدا سے لگاؤ اور محبت کی وجہ سے جنرل کیانی اپنے کیریئر کی آخری مصروفیت لاہور میں رکھیں گے۔ اورشہدا کے سیکٹر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کریں گے میں جنرل کیانی کو کبھی نہیں ملا، وہ پنڈی میں اخبارنویسوں کو بلاتے ہیں مگر میں وہاں کبھی نہیں گیا میری خواہش تھی کہ وہ اس تقریب کے لیے لاہور آئیں تو ان سے ملاقات کا موقع ملے، یہ ایک یادگارتقریب تھی، جو قوم کے دفاع میں لڑنے والے شہیدوں کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی۔ اور اس میں شہدا کے ورثا بھی تو موجود تھے۔ کوئی آزادکشمیر سے آیا کوئی بلوچستان سے آیا کوئی اندرون سندھ سے آیا، کوئی صوبہ خیبر پختون خواہ یا فاٹا سے آیا، اورکئی پنجاب سے آئے صیح معنوں میں تقریب قومی یک جہتی کی منہ بولی تصویر تھی۔
میں نے سب کچھ دیکھا، سب کچھ سنا لیکن جب گیاری کے ایک شہید کے بھائی کو بلایا گیا تو میں اپنے جذبات پہ قابو نہ رکھ سکا دل چاہ رہا تھا کہ اچھل کر شہید کے بھائی کے پاؤں چوم لوں۔ نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا کہ شہادت موت کا نہیں، ایک مقصد کا نام ہے۔ پاک فوج کے جانباز ہرمحاز کا رخ کرتے ہیں، تو وہ ایک مقصد سے سرشار ہوتے ہیں، شہادت ان کے مقدر میں لکھ دی جاتی ہے، اس مقدر پرقربان جاؤں۔ کسی نے کہا تھا کہ ہر روز لوگ دم توڑ دیتے ہیں، اس کے ساتھ ہی ان کی زندگی تمام ہو جاتی ہے لیکن شہید کی زندگی مرنے کے بعد شروع ہوتی ہے۔
تقریب کے آغاز پرقرآن کی یہ آیت مبارکہ تلاوت کی گئی کہ شہید زندہ ہوتے ہیں مگر تمہیں اس کا فہم نہیں۔ جنرل کیانی اور ان کے ساتھیوں کو شہید کی ابدی زندگی کا احساس ہے، اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ سے جو کوئی شہادت پائے گا تو اس کے لواحقین کو ایک گھر بنا کر بلا قیمت دیا جائے گا۔ اس گھر کی آج کی قیمت پچاس ساٹھ لاکھ سے کم نہیں جبکہ ورثاء کو جو دیگر مراعات ملتی ہیں وہ ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہیں۔ جنرل کیانی نے اپنی تقریر میں سن اڑتالیس کے شہدا سے لے کر اب تک کے تمام شہداکوخراج وفاپیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دو ہزار گیارہ کے بعد سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ آئندہ سے شہد ایا دوران سروسں قدرتی موت کا شکار ہونے والوں کے لیئے بنے بنائے گھر تحفے میں پیش کیئے جائیں گے اور اس فیصلے کا اطلاق عام سپاہی سے لے کر چند دن کے ریکروٹ پربھی کیا جائے گا۔ اس اسکیم میں آزادکشمیر کی مجاہد یونٹوں کو بھی شامل کیا گیا ہے تا کہ شہدا کے لواحقین باعزت اور پرسکون زندگی بسر کر سکیں، وہ خود ان گھروں میں رہیں یا کرائے پر دیں، یہ ان کی صوابدید ہے تاہم جب تک ان کے بچے اٹھارہ سال کی بلوغت کی عمر کونہیں پہنچتے، ان گھروں کی فروخت کی اجازت نہیں ہوگی۔
جنرل کیانی نے اس منصوبے کو پروان چڑھانے میں اپنے ایجوٹنٹ جزل اقبال کی بے حد ستائش کی، انہوں نے میجر جنرل عمران ظفر کی خدمات کو بھی سراہا اور جی ایچ کیو میں شہدا سیل کے انچارج بریگیڈیر گوندل کو خاص طور پر خراج عقیدت پیش کیا جنہوں نے شبانہ روز محنت سے اس ناممکن کام کو ایک مختصر عرصے میں مکمل کر دکھایا۔ کیانی کی سروں کے دو دن باقی ہیں، پاک فوج کا ہر سپاہی، افسر اور جرنیل سونے میں تولنے کے لائق ہے، جنرل کیانی کی جگہ کسی نہ کسی نے لینی ہے، ان کے جانشین بھی اپنا تاریخی کردار، حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر ادا کرتے رہیں گے۔
میرے لئے سب سے مشکل کام کسی کو الوداع کہنا ہے، اور خاص طور پر ایک ایسے جرنیل کو جس نے ملک اور قوم کی حفاظت کے لیئے لازوال کردار ادا کیا ہے، اس جرنیل کے شاہنامے لکھے جائیں گے، اور شہدا کے لہو سے اس شاہنامے کے صفحات منور ہوں گے۔ کیانی نے شہدا کو یاد رکھا۔ شہدا، دنیا اور آخرت میں کیانی کی بلندی درجات کے لیئے دعا گور ہیں گے۔ خدا اپنی راہ میں شہید ہونیوالوں کومحبوب رکھتا ہے۔ ہم کہتے ہیں شہید کی جو موت ہے، وہ قوم کی حیات ہے، ہم مانتے ہیں کہ صلہ شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ۔ جنرل کیانی نے ایک سفر تمام کیا مگر جنرل کیانی میری اس رائے سے اتفاق کریں گے کہ دفاع وطن کے لیئے اب نظریاتی محاذ پر جنگ جاری ہے۔ آئندہ انہیں اس جنگ کی کمان اپنے ہاتھ میں لینی چاہئے تب و تاب جاودانہ کی اگلی منزل یہی ہے۔ (27 نومبر 2013ء)