خبرنامہ

شہزادہ عالم منوں. میری اور ڈاکٹر امجد ثاقب کی مشترکہ یادیں..اسداللہ غالب

کبھی احساس ہی نہیں ہو پایا تھا کہ ہم ایک دوسرے سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو جائیں گے۔میںنے یہ کیا بات کہہ دی۔وہ میرے کوئی عزیز رشتے دار نہیں تھے، جگری دوست بھی نہیں تھے، ہمارے درمیان جو طبقاتی بعد تھا اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا مگر پھر بھی ہم ایک دوسرے کے بے حد قریب تھے اور شاید ان سے ملنے والے ہر شخص کا یہی خیال ہو گا کہ بس وہ اسی کو چاہتے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں اور ٹوٹ کر چاہتے ہیں۔
مجھے تو جدائی کی گھڑی کا بھی علم نہیں، کئی برسوں سے گوشہ¿ نشین ہوں، حوادث زمانہ کی کوئی خبر کم ہی ملتی ہے، ایک بار پتہ چلا کہ وہ گھوڑے سے گر گئے ہیں ، میرا دل بے حد بے چین تھا، بعد میں پتہ چلا کہ اللہ نے ان کو نئی زندگی عطا کی ہے۔´
ان سے ملنے کا سب سے مناسب وقت سردیوں گرمیوں میں صبح سات بجے تھا اور وہ بھی سارا ہفتہ نہیں ، چند روز انہوںنے بیرونی شہروں میں فیکٹریوں کے معائنے کے لئے مخصوص کر رکھے تھے۔ ان کی طبیعت کی سادگی اور حلیمی مجھے ان کے دفتر میں کشاں کشاں لے جاتی یہ 80ءکے عشرے کے اوائل کی بات ہے کہ جب آتش جواں تھا۔ وہ مٹی کے پیالے میں تازہ ٹھنڈی لسی پلاتے اور ہو ش و خرد کے دریچے تازہ دم ہو جاتے۔ پھر ان کی رس بھری زبان میں گفتگو کا مزہ تو اپنا ہی تھا۔
یہ سب کچھ مجھے ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب ”کام یاب لوگ“ کے صفحات کی ورق گردانی سے یاد آ رہا ہے۔اس میں ایک باب شہزادہ عالم منوں پر بھی ہے اور جو کچھ اس میں لکھا ہے، میںنے یہ سوچا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘ کی زندہ تفسیر ہے۔
افغان جہاد کے دنوں میں پاکستان کے چپے چپے پر دھماکے ہو رہے تھے، ہر سُو خو ف و ہراس چھایا ہو اتھا، لوگ گلی بازاروں، مسجدوں، مارکیٹوں ، بس اڈوں اور ریلوے کے پلیٹ فارموں کا رخ کرنے سے کتراتے۔ میں نے شہزادہ عالم منوں سے پوچھا کہ کیا آپ کے شعبے میں خو ف و ہراس کی کیفیت ہے، انہوں نے زور دار قہقہہ لگایا، اور کہا کہ ہمیں کوئی ڈر لاحق نہیں، اس عرصے میںہماری ملوں کی تعداد تین گنا بڑھ گئی ہے۔ میں آج تک اس فلسفے کی تہہ تک نہیں پہنچ سکا کہ جب چاروں طرف دھماکے ہو رہے ہوں اور دہشت گردی کا بازار گرم ہو تو لامحالہ اس عالم میں کاروبار کا بٹھہ بیٹھ جانا چاہئے مگر یہاں تو الٹ کیفیت ہے، اب بھی جنرل مشرف کے دور سے دھماکے جاری ہیں مگر اسی دور سے پاکستان کا ایک طبقہ خوش حالی کی سیڑھیاں پھلانگتا چلا جا رہا ہے۔ میں کسی اور شعبے کی بات کیوں کروں، یہ میڈیا ہی کو دیکھ لیں ۔ اب تو نئے اخبارات اور نت نئے ٹی وی چینل دونوں ہاتھوں کی انگلیوں تو کیا، پوروں پر بھی نہیں گنے جا سکتے۔ لاہور شہر میں ایک انارکلی تھی ، پھر لبرٹی نے جنم لیااور اب تو شاپنگ مالز کھمبیوں کی طرح اُگ رہے ہیں۔ اور ان میں کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔
بات کدھر نکل گئی مگر قصہ وہی ہے کہ جب ملک پر خطرات کے بادل منڈلا رہے تھے تو شہزادہ عالم منوں کے بقول ان کے کاروبار میں کئی گنا اضافہ ہوا، یہ اللہ کی دین بھی ہے ا ور ڈاکٹر امجد ثاقب اسے آنترے پرینیور شپ کاا عجاز کہتے ہیں۔
کبھی کبھار ان کاروباری صلاحیتوں کو قدرتی حالات بھی جلا بخش دیتے ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب لکھتے ہیں کہ کوریا کی جنگ نے منوں خاندان کو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی عطا کی۔ مگر بعض اوقات نا مساعد حالات گھیرا تنگ بھی کر دیتے ہیں۔ منوں خاندان کا آدھا کاروبار مشرقی پاکستان میں تھا جو اکہتر کے سانحے کے بعد ان سے چھن گیا۔ اس سے وہ کہیں کے نہ رہے اور مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق، جو باقی کاروبار مغربی پاکستان میں تھا، اسے بھٹو نے قومیا لیا، یوں یہ لوگ ایک قیامت سے دو چار ہو گئے مگر خداداد صلاحیتوں نے اپنا اثر دکھایا اور اسی شہزادہ عالم منوں کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں بہترین صنعتکار کی ٹرافی دی، ڈاکٹر امجد ثاقب کو منوں صاحب نے بتایا کہ اب یہ فیصلہ مﺅرخ ہی کر سکتا ہے کہ بھٹو کے ہاتھوں ان کے کاروبار کو قومیانے کا فیصلہ درست تھا یا محترمہ بے نظیر کی طرف سے دیا جانے والا اعزاز۔مﺅرخ کا قلم بہت بے رحم واقع ہوا ہے۔ وہ سچ کے سوا کچھ اور نہیں لکھ سکتا اور سچ یہی ہے کہ بھٹو نے پاپ کمایا اور اس ملک میں صنعت ا ور کاروبار کا بیڑہ غرق کر دیا۔
میں نے اپنی صحافت میں ایک تجربہ کیا کہ دو نامور شخصیتوں کو آمنے سامنے بٹھاکر گفتگو کا موقع فراہم کرتا اور پھرا س کی روداد سنڈے میگزین میں چھاپتا، اس سلسلے کاا ٓغاز میںنے چودھری شجاعت حسین اور شہزادہ عالم منوں کے مابین مکالمے سے کیا، چودھری شجاعت گو ایک نامور شخصیت تھے، اور جنوبی کوریا کے اعزازی نمائندے بھی مگر سماجی مرتبے میں منوں صاحب آگے تھے۔ اس لئے میں چودھری شجاعت کو ان کے گھر لے گیا۔ اس طرح میں منوں صاحب کی بیگم صاحبہ اور ان کے دوبچوں سے متعارف ہوا، میرا ان کا گھریلو رشتہ برسوں قائم رہا، میں جب چاہتا، لاہور کینٹ میں شہرزاد کے دروازے پر دستک دیتا، منوں صاحب خود نہ بھی ہوتے تو بیگم صاحبہ مجھے اندر بلا لیتیں اور خوب خاطر مدارات کرتیں۔
منوں صاحب کی جدت پسندی اور مقامی ثقافت سے لگاﺅ کا ذکر ڈاکٹر امجد صاحب نے تفصیل سے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ گاﺅ تکیئے، پیڑھیاں، کشیدہ کاری کے نمونے، موڑھے۔ یہ سب کچھ ان کے دفتراور گھر میں سجا ہوتا۔
ایک روز منوں صاحب مجھے غازی روڈ پر اپنی مل دکھانے کے بہانے لے گئے، مگر وہاں تو ایک جنت ارضی کا نمونہ دیکھنے میں آیا، مل کے پیچھے ایک وسیع قطعہ اراضی میں شالیمار باغ کی ہو بہو نقل، فوارے، سفید سنگ مر مر کی روشیں، سبزہ اور پھول ہی پھول، وہاں ایک طرف ان کی بگھی کھڑ ی تھی، بے انتہا سجاوٹ، اور دلآویز۔ منوں صاحب حقیقی معنوں میں شہزادے تھے، مگر کسی دوسرے پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی، پھر وہ مجھے پیدل لے کر عقب میں واقع گاﺅں کی طرف چل دیئے، کہنے لگے: میںنے اس گاﺅں کو اڈاپٹ کر لیا ہے، اس لئے کہ جب وہ میری اس طرح کی نعمتیں دیکھتے ہیں اور اپنے گھروں کے سامنے گندگی کے ڈھیر، ان کے بچے بھوک سے بلکتے ہوں اور مریض ٹوٹے پھوٹے بستروں پر تڑپتے ہوں تو وہ میرے خون کے پیاسے ہو جائیں گے مگر میں گاﺅں کے ارد گرد ایک سڑک تعمیر کرا چکا ہوں، ان کی گلیاں بھی پختہ کروا رہا ہوں، صاف پانی پینے کے لئے ٹیوب ویل اور ٹینکی کا انتظام ہو چکا ہے۔تعلیم کے لئے ایک سکول کے اخراجا ت اٹھا لئے ہیں۔ وقت کے ساتھ یہ مڈل اور ہائی ہو جائے گا۔منوں صاحب نے کہا تھا کہ ہر صنعتکار اگر اپنی مل کے ساتھ ایک گاﺅں کو اس طرح ایڈاپٹ کر لے تو ملک میں غربت کی سنگینی پر قابو پایا جایا سکتا ہے۔
میں ڈاکٹرا مجد ثاقب کا شکر گزار ہوں جنہوں نے میرے دوست کا اپنی کتاب میں تذکرہ کیاا ور پھر یہ کتاب مجھے عطا بھی کی، اللہ کا شکر ہے کہ اب میں نے کتابیں اورا خبارات کے مطالعے کے لئے ایک مشین تلاش کر لی ہے۔ اور کالم لکھنے کے لئے کمپیوٹر کی مشین تو ہے ہی۔
شہزادہ منوں میرے ذہن میں، میری یادوں میں آج بھی زندہ ہیں اور ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب نے ان کو زندہ جاوید بنا دیا ہے۔
شہزادہ منوں کی سب سے بڑی خوبی جو آج کے ماحول میںمزید نمایاں ہو جاتی ہے،وہ یہ ہے کہ ملک کے اندر حالات اچھے ہوں یا برے ، وہ یاا ن کی اولاد اپنا سرمایہ باہر لے کر نہیں گئے، اپنی صنعتیں اسی سرزمین پر لگائیں۔ ایک محب وطن نے اسی مٹی میں دفن ہونا پسند کیا، وہ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔