خبرنامہ

صفحہ تو پھٹ گیا ہے…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

صفحہ تو پھٹ گیا ہے…اسد اللہ غالب

ہر ایک کا اصرار ہے کہ اس وقت مقتدرقو میں ایک صفحے پر ہیں۔
مگر مجھے تو یہ صفحہ پھٹا ہوا نظر آتا ہے، لیرولیر ہے، ہو سکتا ہے اس کے ٹکڑوں سے لٹکنے کی کوشش کی جارہی ہو جیسے کھلے متلاطم سمندر میں ایک کشتی ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے تو اس کے بچے کچھے تختوں سے لوگ جان بچانے کے لیے چمٹ جاتے ہیں۔
یہ صفحہ کب پھٹا، جب بھٹوکو پھانسی دی گئی۔ تب سے پیپلز پارٹی کو اس صفحے ہی سے الرجی ہے۔ نواز شریف کے سامنے جنرل کاکڑ نے چھڑی لہرائی اور مشرف کے جرنیلوں نے اس کا تختہ الٹ کر اسے کال کوٹھڑی میں ڈالا، اٹک قلعے کی سرنگوں میں بند کیا اور چھوٹے سے جہاز میں سوار کر کے اسے سیٹ کے ساتھ آہنی زنجیروں سے باندھا تو نواز شریف نے ہمیشہ کے لیئے یہ صفحہ پچھاڑ دیا۔
کل پرسوں احسن اقبال ایک چینل پر بیٹھے کہہ رہے تھے کہ اسے فوجی افسروں نے برے طریقے سے پکڑا، ہاتھ پشت کے پیچھے کھینچ کر باندھے اور کانوں میں گرم پانی ڈالا، اس احسن اقبال کے لیے کسی صفحے کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے۔
پرویز رشید کو ایسی مار پڑی کہ اسے امریکہ جاکرنفسیاتی علاج کراناپڑا، پتا نہیں سعد رفیق کے ساتھ کیا بیتی، خواجہ آصف اور چودھری نثار کی کتھا کیا ہے مگر یہ سب لوگ اس صفحے کی طرف اب دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔
مگر یہ تصویر کا ایک رخ ہے، ن لیگ کی لیڈرشپ کو مشرف دور میں عقوبت کا سامنا کرناپڑا تو ایک زمانہ تھا جب شاہی قلعے اور چونا منڈی میں نوجوانوں کو الٹا لٹکایاجاتاتھا ان کے ناخن اکھیڑے جاتے ان کے گھٹنوں میں میخیں ٹھونکیں جاتیں، ان میں طارق چودھری بھی شامل تھا اور ضیا شاہد بھی۔ یہ بھٹو کا دور تھا، اسی دور میں معراج محمد خان، میاں اسلم، ملک سلیمان، افتخارتاری کو انہی کی پارٹی نے جھٹکا دیا، اور حنیف رامے جیسے بھٹو کے متوالے کو جیل میں گھمایا گیا، چند ہفتے پہلے ان کے بیٹے ابراہیم رامے نے باباپر گزرنے والی قیامت کا حال سنایا تو ایک بھری محفل میں ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ یہی دور تھا جب آرمی چیف جنرل گل حسن کو ایک کار میں قید کر لیا گیا اور ان کی جگہ ایسا آرمی چیف بٹھا دیا گیا جو ریٹائر ہو کر پیپلز پارٹی کا سیکرٹری جنرل اور بعد میں گورنر پنجاب بنا۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ عہدے اسے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی خدمت کے صلے میں بخشے گئے تھے۔ یہی وہ آپریشن ہے جس کے آغاز پر بھٹو نے کہا تھا کہ خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا۔ اور یہی وہ آپریشن ہے جس نے ایک صفحے کی پاکستان کی کتاب کا آدھا حصہ پھاڑ دیا۔
اب بھی اصرار ہے کہ سب مقتدرقوتیں ایک صفحے پر ہیں کون سی مقتدرقوتیں اور کون ساصفحہ۔
وہ صفحہ جس پرمحترمہ بے نظیر بھٹو کے خون کے چھینٹے ہیں۔ راولپنڈی کے اس مقام پر ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو گولی کا نشانہ بنایاگیا اور یہیں بینظیرکی لاش تر پی۔
پھر بھی اصرار ہے کہ سب ایک صفحے پر ہیں۔
ہاں! طالبان سے مذاکرات کا آغاز ہوا تو نظر نہیں آیا کہ ملک کی سبھی قوتیں ایک صفحے پر ہیں، حکومت، فوج، جماعت اسلامی، میڈیا، جے یوآئی، تحر یک انصاف اور پیپلز پارٹی، ان کے اردگرد ایم کیوایم، ق لیگ اور باقی چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں بھی کہیں اسی صفحے سے لٹکتی نظر آرہی تھیں۔ ساتھ ہی مشرف پر مقدموں کا آغاز ہوا، اس نے اپنی مدد کے لیے فوج کو پکارا فوج نے شاید اتنی مدد کی کہ اسے اپنے ہسپتال میں لے گئی اور وہ دن اور آج کا دن فوج کی شامت آئی ہوئی ہے، ٹی وی پر ہرکوئی غرارہا ہے۔ لتے لے رہا ہے اور پھر بھی اصرار یہ ہے کہ سبھی ایک صفحے پر ہیں۔ آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف، آئے روز وزیر اعظم کی خدمت میں حاضر ہورہے ہیں۔ اس کا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ سبھی ایک صفحے پر ہیں۔
اس ہنگام میں طالبان سے مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا۔ سرکاری کمیٹی، طالبان کمیٹی اور طالبان شوری، سبھی ایک صفحے پر چہچہا رہے تھے۔ طالبان نے قیدیوں کی لمبی چوڑی فہرست دے دی اور ایک آزاد علاقہ مانگ لیا۔ قیدی تو رہا ہونا شروع ہو گئے، آزاد علاقے کا تعین پروفیسر ابراہیم اور میجر عامر نے شاید کر لیا ہو اور فواد حسن فواد نے نوٹیفکیشن کی ڈکٹیشن بھی شاید دے دی ہومگر جو ایک صفحے پر نہیں تھے۔ انہوں نے بتایا ہوگا کہ حضور! پلاٹ تو الاٹ کرنے کا اختیار آپ کے پاس ہے مگر مادر وطن کا ایک انچ بھی آزاد کرنے کاحق آپ نہیں رکھتے۔ مشرقی پاکستان میں جنرل نیازی نے شکست قبول کر لی لیکن اس صوبے کا ایک انچ بھی مکتی باہنی کو آزاد کرانے کا موقع نہیں دیا جہاں وہ بنگلہ دیش کا جھنڈا لہرا سکتے ہوں مکتی باہنی نے بھارتی فوج کی مددسے پورے مشرقی پاکستان پر قبضہ کرلیا، اب بھی کسی میں ہمت ہے تو لڑ کر شکست دے کر، پاکستان کا کوئی علاقہ آزاد کر سکتا ہے۔
مگر دنیا بھر کی حربی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ جو چیز آپ لڑکر نہیں لے سکتے، وہ آپ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ اور یوں فری پیس زون کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ اور ایک صفحے پر نظر آنے والا منظر بھی سراب ثابت ہوا۔ خواہش یہ ہے کہ حکومت اور فوج ایک صفحے پر اکٹھے ہوں، یہ ایک ہی ہزاروں خواہشوں میں سے ایک خواہش ہے کہ پٹواری، محرر اور کلرک بادشاہ سے لے کر آئی جی اور چیف سیکرٹری تک بھی وزرائے اعلی اور وزیراعظم کے ساتھ ایک صفحے پرنظر آ ئیں۔ ایسا ہوا ہے، نہ کبھی ہوگا۔ کوئی تھانیدارکسی کے قابو میں نہیں ہے۔ کسی جیب کترے یا ڈاکو پرکسی کا اختیارنہیں ہے۔ اور کسی عدالت کے اہلمد پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں ہے، اور جج تو آزاد ہوتے ہیں، ان کے بارے میں سوچنا بھی محال ہے، ملک میں ہر سطح پر استحصال جاری ہے، رشوت کا بازار گرم ہے، اقربا پروری کی حدیں پار کر دی گئیں، ہمارا جمہوری نظام ان میں سے کسی خرابی پر قابونہیں پا سکا مگر اس کی اولین خواہش یہ ہے کہ فوج کو نکیل ضرور ڈالی جائے۔ بالکل ڈالی جائے لیکن ساتھ ہی اپنی لا محدود خواہشات کو بھی نکیل ڈالنا ضروری ہے۔ جمہوری حکومت کا اپنا مزاج بھی جمہوری خطوط پر استوار ہونا چاہئے، اسے بادشاہت کی آلائش سے پاک ہونا چاہئے۔ اس کے خانوادے میں شہزادے نظر نہ آ ئیں۔
جنرل کیانی نے فوج کو سیاست سے دور کر دیا تھا، جنرل راحیل بھی اطاعت کے موڈ میں ہیں لیکن بارہ اکتوبر نناوے کی نحوست کی سیاہی، آج کی افواج کے منہ پر ملنے کے شوق پر قابو پانے کی ضرورت ہے تاکہ فوج وقار کے ساتھ اپنا کام کر سکے اور حکومت سکون کے ساتھ ریاست چلا سکے۔
نہیں صاحب، جو صفحہ ہی پھٹ چکا، اس پر سبھی اکٹھے کیسے نظر آئیں گے۔ (7اپریل 2014ء)