خبرنامہ

ضرب عضب سے ایک ملاقات … اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ضرب عضب سے ایک ملاقات … اسد اللہ غالب

میں پہلے تو ان 26 شہیدوں کو قوم کا سلام پیش کرتا ہوں جوضرب عضب میں اب تک اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے۔ انہوں نے اپنا آج ہمارے کل کے لیے قربان کر دیا ہے۔ اتنے ماں باپ کو بھی ان پر فخر ہے اور پوری قوم بھی ان پرتاب فخر کرتی رہے گی۔
میری عمر کے لوگ ضرب عضب سے کسی بریفنگ کے ذریعے ہی ملاقات کر سکتے ہیں۔ میجر جنرل عاصم باجوہ مسلح افواج کے ترجمان ہیں،دبنگ انداز میں بات کرتے ہیں اورلگی لپٹی کے بغیر صورت حال کا نقشہ کھینچتے ہیں۔ لاہور کے آئی ایس پی آر کے نو تعمیر شدہ میڈیا ہاؤس میں وہ فروری کے اواخر میں آئے تھے، ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا پاک فوج شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لیئے تیار ہے، انہوں نے کہا، بالکل تیار ہے اور چند ہفتوں میں اس علاقے پر پاکستان کی رٹ بحال کرسکتی ہے۔
میں ان کی تازہ بریفنگ سے ابھی باہر نکلا ہوں اور جو نزدیک ترین پڑاؤ میسر آیا ہے، وہیں بیٹھ کر یہ چند سطور قلم بند کر رہا ہوں۔
جنرل باجوہ کے چہرے کی چمک اور لب و لہجے کی کھنک سے صاف ہویدا تھا کہ وہ اعتماد کی دولت سے سرشار ہیں، جب انہوں نے یہ بتایا کہ پاک فوج میران شاہ پر سو فیصد کنٹرول حاصل کر چکی ہے تو ان کا چوڑا چکلاسینہ اور زیادہ فراخ محسوس ہورہا تھا۔
اس اعتماد کی وجہ یہ ہے کہ پاک فوج نے ایک ایسے علاقے پر ہاتھ ڈالا ہے جہاں فاتحین عالم بھی ڈر کے مارے قدم نہیں رکھ سکے۔ اعتماد کی وجہ یہ بھی ہے کہ آپریشن شروع ہونے کے بعد دہشت گردوں کی ایسی کمر ٹوٹی کہ ملک میں زیادہ تر امن اور سکون بحال ہو چکا ہے۔ اور دہشت گردوں کے حامی جو ڈرایا کرتے تھے کہ اگر شمالی وزیرستان کے ملکی اور غیرملکی مہمانوں کو چھیڑا تو طیش میں آکر ملک کو جہنم بنا کر رکھ دیں گے مگر جب ہم نے انہیں نہیں بھی چھیڑا تھاتو انہوں نے ساٹھ ہزار بے گناہ پاکستانیوں کے خون سے پاکستان کے پانچ دریاؤں اور بحیرہ ہند کے پانیوں کو سرخ کردیا تھا۔
جنرل عاصم باجوہ نے ایک بری خبر یہ بتائی کہ ایک رات پہلے پاک فوج نے میرعلی میں بھی زمینی آپریشن شروع کر دیا ہے۔ یہاں دہشت گردوں کی طرف سے مزاحمت دیکھنے میں آئی ہے۔
ضرب عضب کیا ہے کہ پاک فوج کا ایک ایسا آپریشن ہے جس کا مقصد فاٹا کے علاقے پر پاکستان کی رٹ کو بحال کرنا، دہشت گردوں کا صفایا کرنا اور مجموعی طور پر ملک میں پرامن ماحول کو واپس لانا ہے۔
حالیہ آپریشن کے آغاز تک پاک فوج، فاٹا کے زیادہ تر حصوں کو دہشت گردوں سے پاک کر چکی تھی اور اب اس کے سامنے صرف تین فی صد علاقہ ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے جہاں ملکی اور غیرملکی دہشت گردوں کا جی ایچ کیو قائم ہے۔ یہ تین فی صد علاقہ شمالی وزیرستان اور خیبرایجنسی میں واقع ہے۔
جنرل باجوہ کی بریفنگ میں بار بار مداخلت کی گئی اور چند ایک حضرات کی کوشش تھی کہ ڈھنگ سے بات نہ کرنے دی جائے۔ نئی بات کے ایڈیٹر عطا الرحمن نے پوچھا کہ جب آپ یہ دعوی کرتے ہیں کہ فوج کی وارننگ پرنولا کھ لوگ اپنے گھروں سے نکل چکے ہیں تو پھر آپ لڑ کس کے خلاف رہے ہیں۔
جنرل باجوہ نے بات ہی یہاں سے شروع کی تھی کہ فوج نے میران شاہ کے لوگوں کو دو ہفتے کا نوٹس دیا تا کہ وہ آرام سے علاقہ خالی کرسکیں۔ ان مہاجرین کی جانچ پڑتال کے لیے تقریباً ایک درجن ادارے کام کر رہے ہیں تا کہ دہشت گرد ان کے بھیس میں فرار نہ ہو جائیں۔ جنرل صاحب نے آدھ گھنٹہ صرف کر کے میران شاہ پرفوج کے قبضے اور وہاں دہشت گردوں کے اڈوں کا حال بیان کیا مگر سوال کرنے والوں نے سنی ان سنی کرتے ہوئے وہ سوال ضرور پوچھے جو وہ گھروں سے سوچ کر نکلے تھے۔ ان سوالات کا مقصد جزل صاحب کوزچ کرنا تھا۔
مگر جنرل صاحب نے تحمل اور ضبط سے کام لیتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ پاک فوج کو دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرنا چاہئے، انہوں نے یہ درخواست کرنے میں کوئی عارمحسوس نہیں کی کہ اگر آپ ملک میں قیام امن کے خواہاں ہیں تو اپنی فوج کی حمایت کریں۔
میں قارئین سے معذرت چاہتا ہوں کہ میں کسی ایک ترتیب سے اس بریفنگ کا حال نہیں لکھ پایا، اس کی وجہ یہی ہے کہ بریفنگ میں موجود چند اصحاب نے بریفنگ کو ایک ترتیب میں چلنے ہی نہیں دیا، وہ بار بار ٹوک رہے تھے۔ میں آپ کو درندگی، وحشت، اور سفاکی کی ایک مثال سناتا ہوں۔ یہ مثال جنرل صاحب کے منہ سے سنی۔ انہوں نے بتایا کہ میران شاہ میں ایک دکان پرنصب بورڈ پر لکھا ہوا ہے، آدم خور بازار۔ یہ ایک قصائی کی دکان کی طرح ہے جہاں ایک پھٹا پڑا ہوا ہے، دہشت گردوں کا مشغلہ تھا کہ اپنے قیدیوں کو اس پھٹے پر لٹا کر ذبح کرتے تھے، اس کا سر کاٹ کر ایک رسی سے لٹکا دیتے اور لاش کو ایک روز کے لیے پھٹے پر تعفن چھوڑنے کے لیئے پڑارہنے دیتے۔
اسی میران شاہ کے بازار میں ہر قسم کے خودساختہ بموں کا ڈھیر برائے فروخت دستیاب تھا، ان کی قیمت اسی ہزار سے ایک لاکھ اسی ہزارتک مقررتھی۔ یہ با قاعدہ ایک کاروبار تھا کہ جتنا بڑا دھماکہ کرنا ہے، اتنا بڑا بم
لے جاؤ۔ انہی دکانوں پر تیار شدہ خودکش جیکٹیں بھی بکتی تھیں۔ شہر کے زیرز میں ٹھکانوں میں ایسی کوٹھڑیاں تھیں جن میں خودکش بمبار کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے لیئے الگ تھلگ رکھا جاتا، یہیں کہیں بازار میں ایک نیٹ کیفے قائم تھا جہاں قتل و غارت کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی جاتیں۔ لوگوں کو دھمکی آمیز فون کیئے جاتے یا ای میلز بھیجی جاتیں۔
میرا خیال ہے آپ یہ ڈریکولا کی کہانی سن کر خوف کے مارے تھرتھر کانپ رہے ہیں لیکن نہیں یہ ہمارے کچھ دینی اور سیاسی رہنماؤں کے بچوں کے کارنامے ہیں۔ ان گھناؤنے کارناموں کی مزید تفصیلات آپ تک وقت گزرنے کے ساتھ پہنچتی رہیں گی، جنرل باجوہ نے کہا کہ میران شاہ شہرکو خطرناک گولہ بارود سے پاک کرنے پر ایک پورا بریگیڈ مصروف ہے۔ یہ آپریشن کتنی دیر جاری رہے گا، جنرل باجوہ نے کہا کہ فوج کے ذہن میں ضرور ایک ٹائم فریم ہے مگر اس وقت اسے لوگوں سے شیئر نہیں کیا جاسکتا۔ فوج کی کوشش ہے کہ کم سے کم جانی نقصان کے ساتھ آپریشن مکمل کیا جائے، اس لیے اب ٹائم فریم اہمیت نہیں رکھتا۔
اب تک شہید ہونے والے 26 فوجیوں کو ایک بار پھر سیلوٹ کرتا ہوں۔ وہ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ اللہ فرماتے ہیں وہ ہمیشہ کے لیے زندہ ہیں تم نہیں سمجھ سکتے۔ (16 جولائی 2014ء)