خبرنامہ

ضیا شاہد کی کتاب، دو قومی نظریئے کا چارٹر، اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ضیا شاہد کی کتاب، دو قومی نظریئے کا چارٹر، اسد اللہ غالب

ضیا شاہد کی کتاب کا خوب چرچا ہے، اس کی دو تقاریب رونمائی منعقد ہو چکی ہیں ایک لاہور میں اور دوسری اسلام آباد میں۔ لندن اور نیویارک کے لئے پلاننگ کی جا چکی ہے، کل مجھے پیرس سے ڈیموکریسی انٹرنیشنل کے سربراہ اعجاز بھٹی کا فون آیا کہ وہ فرانس میں بھی اس کی افتتاحی تقریب کی تیاری کر رہے ہیں۔ لاہور کی تقریب تو سیاسی جلسے کا رنگ اختیار کر گئی اور ہر مقرر نے اس نکتے کو سنجیدگی سے لیا جو ضیا شاہد نے اپنی کتاب ، پاکستان کے خلاف سازش۔ میں پوری سنجیدگی اور درد مندی سے ا ٹھایا ہے کہ قائد اعظم نے دوقومی نظریئے کی بنیاد پاکستان قائم کیا۔ اقبال اور قائد دونوں نے مطالبہ کیا تھا کہ بر صغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں پر مبنی ایک الگ ملک قائم کیا جائے ۔ان قائدین نے واضح کیا کہ مذہب کی بنیاد پر مسلمان ایک الگ قوم ہیں۔ان کے مابین رنگ، نسل علاقے،زبان، فرقے ، برادری کی کوئی تمیز نہیں ، بس وہی ایک مسلم قوم ہیں اور انہیں اپنے مذہب کی رو سے الگ مملکت میں رہنے، پھلنے پھولنے کاموقع فراہم کیا جائے۔
یہ تھا نظریہ پاکستان!
مگر اس نظریئے کو باطل کرنے کے لئے کانگرسی اور جن سنگھی انتہا پسندوںنے روز اول سے سازشیں شروع کر دیں ، ان کاپہلا نشانہ مشرقی پاکستان بنا جو اتفاق کی بات ہے کہ اپنے مغربی حصے سے ایک ہزار میل کی دوری پر تھا اور درمیان میں بھارت۔جو مسلم دشمنی کے جنون میں پاگل ہوا جا رہا تھا۔ مشرقی پاکستان کے عوام کو زہریلے پروپیگنڈے کے ذریعے اور میر جعفروں اور میر صادقوں کی مدد سے باور کرایا گیا کہ مغربی پاکستان ان کا ستحصال کر رہا ہے ،یہ تھا تفرقہ کا پہلا بیج جو آگے چل کر زبان، رنگ اور نسل کی تمیز اور تعصب میں بدلتا چلا گیا۔بد قسمتی سے پاکستان میں سیاسی طوائف الملوکی نے مشرقی صوبے کے حالات کو مزید بگاڑ دیا۔ اور یوں مشرقی پاکستان کی آبادی کو مغربی پاکستان سے ٹکرا دیا گیا۔ بھارت نے فوجی جارحیت بھی کی اور مشرقی پاکستان کو الگ کروا کر بنگلہ دیش کی شکل دے دی۔ اس پر اندرا گاندھی کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ انہوں نے دو قومی نظریئے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔
آج اندرا گاندھی سے بھی زیادہ متشدد اور انتہا پسند بی جے پی بھارت کے اقتدار میں ہے اورا س کے وزیر اعظم نریندر مودی کھلا اعلان کر رہے ہیں کہ وہ بلوچستان، آزاد کشمیرا ور گلگت کے عوام کے ان کے حقوق دلوا کر رہیں گے۔ اس اعلان کا کوئی ا ور مطلب نہیں کہ مودی جیسا موذی دشمن خدا نخواستہ پاکستان کے مزید ٹکڑے کرنا چاہتا ہے۔
ضیا شاہد نے اس خطرے کو بھانپتے ہوئے بڑی تگ و دو اور تحقیق سے واضح کیا ہے کہ جس طرح مشرقی پاکستان میںشیخ مجیب کی شکل میں بھارت کو ایک غدار اور باغی ہاتھ آ گیا تھا، اسی طرح آج کے پاکستان میں کئی شیخ مجیب بھارت کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں اورا س کے پیسوں پر ڈکار رہے ہیں۔ضیا شاہد نے کوئی لگی لپٹی نہیں رہنے دی اور جو کچھ لکھا ہے، وہ ان نام نہاد پاکستانی لیڈروں کی تقاریر، بیانات اور کتابوں کے حوالے سے ثابت کیا ہے اور ان کی مذموم سرگرمیوں کا پرد ہ چاک کیا ہے۔ سرحدی گاندھی سے توخودقائد اعظم کو واسطہ پڑگیا تھا اور انہوںنے ایک ریفرنڈم میں اسے شکست دی مگر اب گاندھی، نہرو، پٹیل، اندرا ، راجیو اور مودی کے نقش قدم پر چلنے والوں کی ایک قطار لگی ہے ا ور وہ ہٹ دھرمی سے پاکستان کے دو قومی نظریئے کے بخیئے ادھیڑنے میں مصروف ہیں۔
میں اگر نام گنوانے لگوں تو آپ پو چھیں گے کہ کیا ملک میں کوئی محب وطن لیڈرشپ بھی موجود ہے یا سبھی دو قومی نظریئے کے مخالف مورچے میں جا بیٹھے ہیں۔
اس لحاظ سے ضیا شاہد کی کتاب کو میں صحرا میں اذان سے تشبیہہ دیتا ہوں۔
گلگت سے لے کر گوادر تک، کشمیر سے لے کر کراچی تک،پشاور سے لے کر لندن تک ہر کوئی پاکستان کو توڑنے کے لئے بھارت اور اسرائیل سے کھلم کھلا مدد مانگ رہا ہے اور میں بڑے دکھ سے یہ کہوں گا کہ میرے مرشد مجید نظامی کی وفات حسر ت آیات کے بعد پاکستان کے وفاداروں کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو، وہ دو قومی نظریئے کی نفی کرنے والوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی بھی سکت نہیں رکھتے۔ ایک قحط الرجال کی کیفیت ہے، اسی لئے میں پھر کہتا ہوں کہ ضیا شاہد نے ویرانے میں اذان دینے کی کوشش کی ہے۔
مگر ضیا شاہد کا جو فرض تھا ، وہ انہوںنے ادا کر دیا۔ آج کے ماحول میں بھارت اور اسرائیل کے ایجنٹوں کے خلاف لکھنا اور بولنا زبردست قلمی جہاد ہے۔
اور خدا کا شکر ہے کہ ابھی ہماری مسلح افواج دو قومی نظریئے کے مخالفین کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی طرح جم کر میدان میں کھڑی ہیں، انہیں قوم کی طرف سے وسیع حمائت کی ضرورت ہے۔ہماری فوج نے جن حالات میں ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگانے کا کٹھن کام شروع کیا ہے، اس کا اندازہ ہر کسی کو ہے، ہمارے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں اور قومی پارلیمنٹ کے ایک رکن کہہ رہے ہیں کہ وہ افغان تھے، افغان ہیں ، افغان رہیں گے ا ور سابق صوبہ سر حد ( اب خیبر پی کے)افغانستان کا حصہ ہے۔ اس ماحول میں ٖڈیورنڈ لائن پر باڑ کھڑی کرنے کا مطلب اندرونی ا ور بیرونی دونوں دشمنوں سے محاذآرائی مول لینے کے مترادف ہے اور جب ہماری افواج یہ کہتی ہیں کہ وہ سی پیک کی حفاظت کے لئے کمر بستہ ہیں تو ان کے سامنے وہ عناصر ہیں جو گریٹر بلوچستان یا آزاد بلوچستان کے حامی ہیںاور ا سکے لئے مسلح جدوجہد کر رہے ہیں۔ کراچی اور لندن میں سندھو دیش یا جناح پور کے حامی سرگرم عمل ہیں۔وہ بھارتی دہشت گرد تنظیم را سے مدد مانگ رہے ہیں اور را کے ایجنٹ کل بھوشن کی شکل میںملک کے اندر دامے، درمے ، سخنے ان کی مدد کے لئے موجود ہیں۔
ضیا شاہد کی کتاب کا ایک ایک ورق دو قومی نظریئے کے دشمنوں کے زہریلے بیانات کی گوا ہی دے رہا ہے ، آپ جیسے جیسے اس کتاب کے اوراق پلٹتے ہیں، آپ کا خون کھول اٹھتا ہے کہ ایک نظریاتی ملک میں یہ تماشہ بھی لگنا تھا۔ وہ تماشہ جو دنیا کے کسی اور ملک میں نظر نہیں آرہا اور اگر کہیں ہے تواس کے لئے بیرونی افواج ان کی پیٹھ ٹھونکتی نظر آ رہی ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ضیا شاہد کی اس کتاب کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی جائے اورا سے ملک کے نوجوانوں تک پہنچا یاجائے تاکہ وہ اپنے لیڈروں کے ذہنی پاگل پن سے ہوشیار ہو سکیں۔
ضیا شاہد نے میرے مشفق مجید نظامی کے شاگرد ہونے کا حق ادا کر دیا ہے اور برے کو برا کہہ کر اس کے منہ پہ نفرت اور حقارت سے تھوک دیا ہے۔