خبرنامہ

طورخم سے سومنات کتنا دور ہے۔۔۔اسداللہ غالب

ہم اس وقت کہاں تھے جب غوری ابدالی ا ور غزنوی نے طورخم کو پار کیا تھا۔اور ہم نے انہیں طورخم پر کیوں نہیں روکا تھا۔
ہمارے ہیروز کی فہرست بے حد طویل ہے۔افغانستان سے آنے والے حملہ آور اگر ہمارے ہیروز مانے جاتے ہیں تو بھی میں طورخم کی چوکی کے پارا س افغان حملہ آور کو اپنا ہیرو ماننے کے لئے تیار نہیں جس نے پاک فوج کے میجر چنگیزی کو شہید کیا۔وہ روزے سے تھا، اس نے ایک کھجور سے افطاری کی اور اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی، اس کے پیٹ سے گرم گرم تازہ، تنو مند خون بہتے چشمے کی طرح ابل ابل پڑتا تھا، سفاک افغان قاتل کی گولیوں نے ان کا پیٹ چاک کر کے رکھ دیا تھا۔
کیاآپ ا س سفاک افغان قاتل کو ابدالی ، غوری، غزنوی کا جانشین سمجھتے ہیں، سمجھتے ہیں تو سمجھتے رہیں ،میں اس پر تھوکتا ہوں۔
اس سفاک افغان قاتل کا بس چلے تو وہ ہمارے سارے غوری اور غزنوی میزائل چوری کر کے ہمارے اوپر ہی داغ دے گا۔
افغان صدر حامد کرزئی نے مطالبہ داغا تھا کہ پاکستا ن اپنے میزائلوں کے نام بدلے ،یہ افغان ہیروز کے نام پر رکھے گئے ہیں، کرزئی نے سوال کیا تھا کہ غوری اور ابدالی ا ور غزنوی پاکستان کے ہیرو کیسے ہو گئے، معلوم نہیں پاکستان نے کرزئی کے مطالبے کو در خور اعتنا کیوں نہ سمجھا۔کیا اب ہم اس مطالبے پر غور کرنے کو تیار ہیں یا ابھی تک افغانستان کی دفاعی گہرائی کے خوابوں سے سرشار ہیں۔
افغانستان کے عزائم کیا ہیں۔ کیا وہ ایک بار پھر طورخم سے آگے بڑھ کر سومنات تک پہنچنے کے خواب دیکھتا ہے یا وہ ہنوز دلی دور است کے خوف اور خدشے میں مبتلا ہے۔
افغانستان کو طورخم پار کر کے سومنات اور دلی کا رخ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے، یہ سومنات اور دلی تو اب خود چل کر اس کے پاس پہنچ گئے ہیں۔اور پورے افغانستان میں دندنا رہے ہیں۔
ہم اس وقت کہاں تھے جب غوری ابدالی ا ور غزنوی نے طورخم کو پار کیا تھا۔اور ہم نے انہیں طورخم پر کیوں نہیں روکا تھا۔
یہ تاریخ اور جغرافئے کے گورکھ دھندے ہیں جن میں ہم بری طرح الجھ کر رہ گئے ہیں، کبھی ہم تاریخ کے سحر میں گرفتار ہو کرہیروز کو تلاش کرتے ہیں ا ور ان کی پوجا کرتے ہیں ا ور کبھی جغرافیہ ہماری سوچ پرحاوی ہو جاتا ہے اور ہم ایک ایک انچ کو مقدس خیال کرتے ہیں ا وراس کی حفاظت کے لئے کٹ مرتے ہیں۔اس وقت ایک پھاٹک نے جغرافئے کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔کبھی ہماراکوئی نسیم حجازی تاریخ سے طلسم ہوش ربا کشید کرتا ہے ۔یہ ایساطلسم ہے جس کے اثر میں ہم جغرافئے کو تہس نہس کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔اور اب ہمارا اپنا جغرافیہ خطرے میں ہے تو ہم نے تاریخ کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ جس روز سے میجر چنگیزی کو شہید کیا گیا ہے، میں نے پورے ملک سے افغانیوں کے حق میں ایک آواز بھی نہیں سنی، سبھی ان کو بے نقط سنا رہے ہیں، ہر کوئی لاکھوں افغان مہاجرین کو طورخم کے پار دھکیلنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ پاکستانی قوم کے ذہن سے ہمسائیگی اور اخوت کے رشتے کافور ہو گئے ہیں۔
کون ہے جس نے میجر چنگیزی کی شہادت پر خون کے آنسو نہیں بہائے۔کون ہے جواس کے قاتلوں کو گلے لگانے کو تیار ہو، ہر کسی کی آنکھوں میں خون اترآیا ہے۔ اور وہ اس کی شہادت کا بدلہ لینے پر تلا ہوا ہے ۔
یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ میجر چنگیزی کی شہادت کی نوبت ہی کیوں آئی۔ابلاغ ا ور اطلاعات کا ایساخوفناک خلا ہے کہ قوم کو مسائل کے گرداب میں گھرنے کی خبر تک نہ ہو سکی۔جنرل عاصم باجوہ میڈیا کی دسترس میں رہتے تو شاید میڈیا کے ذریعے قوم کو اپنی بد قسمتی کے سونامی کی خبر بہت پہلے سے مل جاتی۔یہ منطق تو جنرل باجوہ ہی جا نتے ہوں گے کہ وہ میڈیا سے دور کیوں ہو گئے، میں نہیں سمجھتا کہ جنرل باجوہ جیسا زیرک اور پی آر کا ایکسپرٹ میڈیا سے متواتر تعلق کی ضروت سے آگاہ نہ ہو، وہ آئی ایس پی آر کے پہلے سربراہ ہیں جن کے ایک ایک ٹویٹ سے شہہ سرخیاں بنیں۔تو پھر ان کے ٹویٹ بھی خاموش کیوں ہو گئے۔ سیانے کہتے ہیں،ہر خاموشی کے پیچھے کوئی طوفان چھپا ہوتا ہے۔اور یہ طوفان اب ہمارے سروں کے اوپر سے گزر رہا ہے۔جنرل باجوہ اب بولے ہیں اور ضرب عضب کے تیسرے سال کے آ غاز پر انہوں نے قوم کو حقائق سے آگاہ کیا ہے۔مگر گزرے دو برسوں میں کیا کچھ ہوا جس کی وجہ سے طورخم جہنم کی طرح سلگ رہا ہے۔بجا! کہ پاکستان کی اندرونی صورت حال پر سکون ہے، دہشت گردی کا خوف کم ہو گیا ہے مگر ضرب عضب کے بطن سے نئے خطرات نے کیسے جنم لے لیا۔
ویسے خدا لگتی بات یہ ہے کہ عوام کے لیڈر آپس کی سر پھٹول میں مصروف ہیں۔ کسی کو طورخم کی سنگینی سے کوئی سرو کار نہیں، تو مجھے طورخم نے کیوں ہلکان کر دیا ہے، مجھے بھی شانت رہنا چاہئے جیسے پوری قوم شانت ہے، خطرے توزندہ قوموں کو درپیش رہتے ہیں اور پتہ نہیں کیسے خود بخود ٹل بھی جاتے ہیں۔
یہ قوم بڑی سخت جان ہے، ا سنے غوری ، غزنوی، ابدالی کے طوفانی لشکروں کے تھپیڑے سہے ، آدھے ملک سے ہاتھ دھو لئے، اب دہشت گردوں کے تھپیڑے برداشت کر ر ہی ہے، پاک فوج جانے کہ ان سے کیسے نبٹنا ہے ۔اور جنرل باجوہ بہتر سمجھتے ہیں کہ قوم کو کس وقت کیا بتاناہے۔ورنہ محکمہ موسمیات کے دفتروں میں ایک مرغ باد نما کو دیکھ کر لوگ خود بخود سمجھ جائیں گے کہ موسم کے تیور کیا ہوں گے۔
میں اپنی جگہ پر یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب ابدالی، غوری، اور غزنوی نے طورخم پار کیا تو ہم کہاں تھے اور ہم نے انہیں اس پھاٹک پرکیوں نہ روکا۔ آج ہم اس پھاٹک پر ڈٹ گئے ہیں، اور ادھر افغانستان کی نظریں بھی طورخم کے پار سومنات پر مرکوز نہیں ہیں۔وہ صرف ہمارے میجر چنگیزی کی تاک میں ہے۔
طورخم کا پھاٹک نئی تاریخ رقم کر رہا ہے اور جغرافئے کے خدو خال بھی اسی پھاٹک کے ہاتھ کی لکیروں سے واضح ہوں گے۔
طورخم اے طورخم، کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔