خبرنامہ

طویل اور با اختیار صدارت کیلئے ترکی ماڈل.. کالم اسداللہ غالب

ترکی ہمارے لئے ہمیشہ ماڈل بنا رہا، اب اس نے ایک نیا ماڈل پیش کیا ہے اور وہ ہے صدر کو مختارکل کیسے بنایا جائے اورا سے تا حیات منصب صدارت پر کیسے فائز رکھا جائے۔میں اس کی تفصیل ابھی بیان کئے دیتا ہوںمگر پہلے یہ واضح کر دوں کہ ترکی کو میںنے گالم گلوچ کے لئے منتخب نہیں کیا، بلکہ ترکی مجھے ڈاکٹرآصف جاہ کی خیر وبرکت کی حرکات سے یاد آیا، وہ ا ن دنوں ترکی میں ہیں، کسی بھی ملک کی طرف سے شامی مہاجرین کی امداد لے جانےو الے وہ پہلے مخیر ہیں۔ڈاکٹر صاحب کی مصروفیات کی خبریں اور تصاویر سوشل میڈیا پر چھائی ہوئی ہیں۔اللہ ان کو جزا عطا کرے مگر ترک صدر نے اپنے لئے جزا کا بندو بست خود کر لیا ہے ، ا سکے لئے اپریل کے وسط میں ایک ریفرنڈم منعقد ہوا جس کے ذریعے ترک آئین میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں کردی گئیں۔ان تبدیلیوں کا اہم نکتہ یہ ہے کہ ترک صدر انشا اللہ 2029 تک اپنے منصب پر پورے طمطراق سے فائز رہیں گے، طمطراق کا لفظ میںنے تمسخر کے طور پر استعمال نہیں کیا بلکہ ریفرنڈم کی روح کے مطابق ترک صدرکو وزیرا عظم کے بجائے چیف ایگزیکٹو بنا دیا گیا ہے ، اب وہ ریاست اور حکومت دونوں کے بلا شرکت غیرے سربراہ ہوں گے اور ان کو جو اختیارات تفویض کئے گئے ہیںوہ1946 کے بعد کسی ترک صدر کو حاصل نہیں تھے۔ ا س دوران میں ترک آئین کا حلیہ بدل کر رکھ دیا گیا ہے، اس آئین میں کل177 آرٹیکل شامل ہیں جن میں سے 111 اپنی اصلی شکل میں باقی نہیں رہے،حالیہ ریفربڈم بچی کھچی شکل کو بھی مسخ کر چکا ہے کیونکہ اس کے ذریعے منظور کئے جانےو الے18 اقدامات نے 76 آرٹیکلز کو یا تو بدل دیا ہے یا سرے سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا ہے۔اس ریفرنڈم نے ترک جمہوریہ کو شخصی آمریت کی طرف دھکیل دیا ہے، وزیر اعظم کو جمہوری نظام میں چیف ایگزیکٹو کی حیثیت حاصل ہوتی ہے مگر آئندہ سے ترک وزیر اعظم ایک ڈمی بن کر رہ گیا ہے، اس لئے کہ ا سکے تمام اختیارات صدر کو منتقل کر دیئے گئے ہیں۔ ترک نظام سیاست کو آپ صدارتی بھی نہیں کہہ سکتے،۔ جمہوری بھی نہیں کہہ سکتے، یہ چوں چوں کا مربہ بن گیا ہے۔آئندہ سے ترک صدر ہی اعلی عدلیہ کے ججوں کی نامزدگی کرے گا،پارلیمنٹ میں ترک صدر کو پہلے ہی سے بالا دستی حاصل ہے، عدلیہ بھی ا سکی دم چھلہ بننے پر مجبور ہو گی۔ صدر کا مواخذہ مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گا، کیونکہ اس کے خلاف مواخذے کی تحریک پیش کرنے کے لئے پانچ میں سے تین کی شرح سے ووٹ درکار ہوں گے اورمواخذے کا فیصلہ دینے کے لئے دو تہائی اکثریت کی شرط رکھی گئی ہے۔ یہ تحریک منظور بھی ہو جائے تو اسے عدلیہ کے سامنے پیش کیا جائے گا جہاں حتمی فیصلے لئے ایک بار پھر دو تہائی کا اصول پیش نظر رکھا جائے گا۔یاد رہے کہ یہ جج صدر کے نامزد ہوں گے۔
ترک صدر کے پاس جو اختیارات آ گئے ہیں وہ تاریخ میں شاید ہی کسی بادشاہ کے پاس ہوں، بادشاہ کی زبان سے نکلا ہوا حکم بھی نافذ ہوتا تھا، ترک صدر کو بھی فرمان جاری کرنے کاا ختیار مل گیا ہے جسے کسی پارلیمنٹ یا عدلیہ کے سامنے چیلینج نہیں کیا جا سکے گا۔
ترکی ایک آزاد، ہمہ مقتدر اور خود مختار ملک ہے ، وہ اپنے لئے جو نظام چاہے، اختیار کر سکتا ہے، ہمارے پیٹ میںاس پر مروڑ نہیں اٹھنا چاہئے مگر یہ مروڑ اس وقت ضرور اٹھتا ہے جب ایک ماڈل کے طور پر ہم ترکی کی تقلید کرتے ہیں۔ تقلید کا یہ سلسلہ خلافت کے دنوں سے شروع ہوا، اس خلافت کا خاتمہ ہونے لگا تو ہم نے ہندوستان میں خلافت کے احیا کے لئے تحریک چلائی۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ان دنوں ہم خود انگریز کی غلامی میں تھے، اس تحریک میں مولانامحمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور بی ا ماں نے لازوال شہرت پائی۔ یہ ترکی ہمارے لئے ا سوقت بھی باعث تقلید تھا جب یہاںمصفی کمال پاشا کو عروج ملا، وہ صرف ترکی کا ہیرو نہیں تھا، ہمارا بھی ہیرو تھا۔اتا ترک نے اپنے مسلم عوام کا ثقافتی رابطہ اسلامی تاریخ سے یوں کاٹا کہ رسم الخط بدل کر رومن کر دیا، ترک لائیبریریوں میں کتابوں کے وسیع ذخیرے صرف نوادرات کے طور پر باقی رہ گئے۔ہم نے بھی عربی کو خیرباد کہنے کی تحریک شروع کی مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ مسعود کھدر پوش نے منہ کی کھائی۔ترکی کو اسوقت بھی ہم نے اپنے لئے ماڈل تصور کیا جب یہاں جمہوریت اور مارشل کا امتزاج دیکھنے میں آیا، ترک دستور میںفوج کو آئینی اختیارات دیئے گئے۔ ہم نے بھی سوچا کہ اسی طرح سے کوئی چربہ بنا لیتے ہیں۔ اس کے لئے آرمی چیف جنرل کرامت نے تجویز پیش کی تو ان سے استعفی لے لیا گیا مگر بعد میں جنرل مشرف نے اس نظام کو اپنا لیا۔اور باقاعدہ سے ایک نیشنل سیکورٹی کونسل تشکیل دے لی گئی۔ ترکی آج بھی کئی معاملات میں ہمارا ہیرو ہے، ہم نے اسی کو دیکھ کر سرخ رنگت کی میٹرو بس چلائی ہے ، شہروں میں کچرے کی صفائی کے لئے ترکی کی فرموں کو ٹھیکے دیئے گئے اور پیپلز پارٹی تو بجلی بنانے والا ایک بحری جہاز بھی کراچی بندرگاہ پر لے آئی تھی۔ایک زمانے میںہم کہتے تھے کہ لاہور کو پیرس بنائیں گے، اب ہمارا نعرہ ہے کہ لاہور کو استنبول بنائیں گے۔ترک خلفاءکے حرم سرا کی داستانیں ہم ٹی وی سیریل کی شکل میں دیکھنے کے شوقین ہیں۔ ترکی میں ایک فوجی بغاوت ناکام ہوئی اور ایک نوجوان کسی ٹینک کے سامنے لیٹ گیا اور کچھ نوجوانوںنے شاہراہ عام پرایک ترک فوجی کی پینٹ اتار کر اسی کی پیٹی سے اس کی ننگی پیٹھ پر کوڑے برسائے تو ہمیں یہ ماڈل بھی اچھا لگا۔ ایسے مناظر ڈھاکہ میں بھی دیکھنے میں نہیں آئے تھے جہاں مکتی باہنی نے بھارتی فوج کی مدد سے ہماری فوج کو سرینڈر پر مجبور کیا ۔کسی پاکستانی فوجی سے بھارت یا بنگلہ دیش نے ایسی بدنما حرکت نہ کی۔مگر ہم اس شوق میں باﺅلے ہوئے جا رہے ہیں۔ہمیں وہ تما م اختیارات چاہیئں جو ترک صدر نے اپنے لئے ہتھیا لئے ہیں مگر اس کے لئے تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کو روندنا پڑے گا، کہ یہ بھی میدان میں سیاسی قوت کے طور پر موجود ہیں، ایسے اختیارات کے حصول کے لئے ایک زمانے میں آئینی ترمیم بھی تیار ہوئی تھی،ان دنوں ہمارا ماڈل سعودی عرب تھامگر ا س آئےنی ترمیم کو دن کی روشنی دیکھنا نصیب نہ ہوئی۔ ترک ریفرنڈم سے اہل مغرب کو اسلام کے خلاف یہ پروپیگنڈہ تیز تر کرنے کاموقع ملا ہے کہ اسلام کا مزاج جمہوری نہیں آمرانہ ہے، یہاں بادشاہتیںچل سکتی ہیں یا شخصی حکومتیں۔ دنیا کے لئے آج بھی بھارت ہی سب سے بڑی جمہوریت ہے جبکہ وہ لاکھوں کشمیریوں کے جمہوری حقوق کا قاتل ہے۔
آخر میں یہ بھی بتاتا چلوں کی ترکی کو ہمسایہ مسلم ممالک میں مداخلت کا بڑا شوق ہے، یہ شوق صدام کو بھی چرایا تھاا ورا سنے کویت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ ترکی نے شامی مہاجرین کو پناہ تو دے رکھی ہے اور ہمارے بھائی ڈاکٹرا ٓصف جاہ ان مہاجرین کی مدد بھی کر رہے ہیں مگر کیا معلوم کہ ان میں کتنے لاکھ شامی ان بموں کی وجہ سے گھروں کو خیرباد کہنے پر مجبور ہوئے جو ترک طیاروں اور ترک توپوں یا ٹینکوںنے برسائے۔
اور یہ بھی یا درکھئے کہ ناکام فوجی بغاوت کی ا ٓڑ میں ترک صدر نے اپنے ملک میں صحافت کی آزادی کا گلا گھونٹ دیا ہے ا ور اپوزیشن لیڈروں اور کارکنوں کی لاکھوں کی تعداد کو یا تو نوکری سے نکال دیا ہے یا انہیں پابندسلاسل کر دیا ہے، مسنگ پرسنز کی تعداد بھی کوئی نہیں جانتا، یہی ترکی ہمارے لئے ماڈل بنا ہواہے۔