خبرنامہ

عالمان اینڈ طالبان، ون اینڈ دی سیم خان

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

عالمان اینڈ طالبان، ون اینڈ دی سیم خان

قربان جاؤں، اس شانتی اور طمانیت پر جوعرفان، عمران، عالمان اور طالبان کے چہروں سے ٹپک رہی ہے۔
فیصلہ مہینوں اور برسوں میں نہیں، دنوں میں ہوگا، ہرفریق یہی کہہ رہا ہے، اور ہیلی کاپٹر کے روٹ کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم بھی پکاراٹھے کہ مذاکرات درست سمت میں بڑھ رہے ہیں۔
اب تو یوں لگتا ہے کہ بارہ برس سے جوکھیل جاری ہے، اس کے کھلاڑیوں میں مکمل اتفاق رائے تھا، کس نے مارنا ہے، کس کو مارنا ہے کون شہید ہے۔ کون شہید نہیں، کون لشکری ہوگا کون فاتح ہوگا اور کون مفتوح ہو گا، مارے گئے بے چارے بھولے بھالے عوام اور بے گناہ فوجی اور سکیورٹی فورسز کے جملہ اہل کار، کھیل تو اس وقت بھی کچھ کچھ کھل گیا تھا جب شہباز شریف نے کہا تھا کہ طالبان، پنجاب کو معاف رکھیں، جب رانا ثنا ء اللہ پنجابی طالبان کی اصطلاح سے چڑ گئے تھے۔
نذیر نامی ایک گھاگ تجزیہ کار ہیں، انہوں نے بہت پہلے لکھ دیا تھا کہ ہر جد و جہد کے دوونگ ہوتے ہیں، ایک فوجی ونگ اور ایک سویلین ونگ، پاکستان میں جاری جنگ کے فوجی ونگ کا کام ختم ہوا، اب سیاسی ونگ حرکت میں آ گیا ہے۔ میدان جنگ کی فتوحات کوسمیٹنے کے لیئے اب سویلین چہرے سامنے ہیں۔ کوئی طالبان کو میرے بچے کہہ رہا ہے۔ کوئی ڈرون حملوں کے خلاف لانگ مارچ کر رہا ہے۔ کوئی مذاکرات کے بہانے مستقبل کی لگام قابو کر چکا ہے۔
عمران خان پر قیامت کا وقت آگیا ہے، ساری عمروہ مذاکرات مذاکرات کی گردان کرتے رہے اور جب طالبان نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا تو۔۔ وہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا۔ عمران خان نے صرف اس لیئے کہ اس پر طالبان خان کی پھبتی برحق نہ ثابت ہوجائے۔ کمیٹی میں شمولیت سے معذرت کر لی۔ تحریک انصاف کی ایک اہم شخصیت محترمہ مہناز رفیع نے مجھ سے کہا کہ عمران ایک پارٹی لیڈر ہے، طالبان نے اس کی حیثیت اور مرتبے کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ بہرحال یہ دلیل ہر ایک نے قبول کی کہ طالبان کو اپنی صفوں سے نمائندے نامزد کرنے چاہئیں۔ عمران کی دو تین دن میں جودرگت بنی، اس پر میاں شہباز نے قہقہے لگاتے ہوئے ایک دوست سے کہا کہ دیکھو! عمران خان کے ساتھ کیا ہو گیا۔
تو کیا مذاکرات ایک پکی پکائی کھیر ہیں جس پر عرفان صدیقی کی رال ٹپک رہی ہے نہیں جناب، ہرگز نہیں۔ یہ حضرت تو جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پیداوار ہیں، یہاں سرتاج عزیز کی شہادت معتبر مانی جائے گی جنہوں نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات ایک پیچیدہ عمل ہے، اس کے لیئے طویل المدتی حکمت عملی اپنانا ہوگی، ماضی میں طالبان نے کسی معاہدے کی پابندی نہیں کی۔ ہوسکتا ہے کہ عرفان صدیقی ڈپٹی پرائم منسٹر کے کمرے میں بیٹھنے کے نشے میں سرتاج عزیز کے بیانات پرسنسر لگوادیں، چودھری نثارکوتوو ہ لقمہ بنا چکے۔
درمیان میں شریعت کا نشان بھی ایک مسئلہ ہے، لال مسجد والے مولانا نے کی یہ شرط عائد کی تو ایک شور مچ گیا کہ طالبان مذاکرات چاہتے ہی نہیں۔ اس پر طالبان نے تو کوئی وضاحت نہیں کی لیکن ان کے جھو نپو دانش وروں نے نکتہ نکالا کہ شریعت کا نفاذ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں، یہ تو آئین پاکستان میں ایک طے شدہ معاملہ ہے۔ قرارداد مقاصد آئین کا حصہ ہے اور اس آئین میں صاف لکھا ہے کہ شریعت سے متصادم قانون سازی نہیں ہوسکتی۔ یہ سننا تھا کہ مولانا اپنی شرط سے دست بردار ہو گئے لیکن لوگوں نے دیکھ لیا ہے کہ پچھلے سال الیکشن میں آئین کے آرٹیکل باسٹھ اورتریسٹھ کا کس طرح مذاق اڑایا گیا۔ اور پاکستان کوکس شریعت کے مطابق چلایا جارہا ہے، وہ بھی کسی سے مخفی نہیں، یہ ایک خانہ سازشریعت ہے جس میں کرپشن، جبر اور استحصال کو جائز سمجھا جاتا ہے۔ یہ شریعت ہے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے وعدے کر کے ان سے مکر جانے کی، غربت کو مٹانے کے عزم سے انحراف کی، مہنگائی مٹانے کے نعرے کو بھول جانے کی، کشکول توڑنے کا اعلان کر کے عالمی سیٹوں کے سامنے جھولی پھیلانے کی، بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کی تعلیمات کو پس پشت دھکیلتے ہوئے بھارت کے برہمن راج سے دوستی پروان چڑھانے کی، وا مگہ کی لکیر کو مٹا کر یورپی یونین والے مزے لوٹنے کی، افسوس کہ شریعت کو ذاتی مفاد اور خواہشات کے تابع بنالیا گیا۔
کیا آپ کو بھی یقین ہے کہ حکومت کی پہلی ترجیح دہشت گردی کا خاتمہ ہے، کیا اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے لازم تھا کہ بقول عبد القادر حسن وزیراعظم چولستان جا پہنچے جہاں خواجہ کی شاعری اور فقیری کا راج ہے۔ اورحسن و دلداری کا بھی۔ یہاں وزیراعظم کے اعزاز میں ایک محفل بھی آراستہ کی گئی جو رات گئے تک جاری رہی، زمین کی ان کنواری وسعتوں میں جو انسانی قدموں سے زیادہ تر محفوظ ہیں، رات بھر موسیقی گونجتی رہیں۔ وزیراعظم کے لیئے کھلے آسمان کے نیچے سردیوں کے اس موسم میں الاؤ کے گردضیافت بر پا ہوئی جس میں مقامی فنکاروں نے موسیقی کے جادو جگائے۔ رات دن کی محفل جوموسیقی سے شروع ہوئی اور جس سے چولستان کے صحرا گونجتے رہے، اور روہی کی دنیا مست الست رہی، دو پہر کو لطیفوں پر ختم ہوئی۔ قادرحسن کی یہ روایت اور حکایت انتہائی لذیذ اور معتبر اور مستند ہے۔
قادرحسن نے فارسی کے ایک شعر کا رومانوی ترجمہ پیش کیا ہے، میں یہاں فارسی کا ہی ایک مصرع یادکرانا چاہوں گا کہ بابربعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔ روم کے ایک عظیم حکمران کا ایک انداز کا ایک شاہنامہ لکھا گیا کہ ادھر روم جل رہا تھا، ادھر وقت کا بادشاہ بانسری بجارہا تھا۔
اس محفل کا تذکرہ پڑھ کر مجھے رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ ہم لوگ خواہ مخواہ مایوسی اور ہیجان کا شکار ہیں، جو کچھ دس بارہ برس میں ہوتارہا، وہ ہو گیا مگر اب نہیں ہو گا اور اگرنہیں ہوگا تو پھرکیسی پریشانی اور کیسا ہیجان، آیئے ہم سب چولستان کا رخ کرتے ہیں، جہاں خواب کی شاعری اور فقیری کا راج ہے اور حسن و دلداری کا بھی۔ ساری رات الاؤ کے گرد ہم محفلیں بر پا کریں، روہی کی دنیا میں مست الست رہیں۔ خواجہ کے شعر گنگنائیں کہ روہی میں بڑی ہی نازک لڑکیاں رہتی ہیں جو راتوں کو دلوں کا شکار کرتی ہیں اور دن کو دودھ بلوتی ہیں۔ خواجہ کا یہ کلام خالص صوفیانہ ہے۔ یہ اصل شعرقادرحسن کے کالم میں درج کیا گیا ہے۔ رہا مذاکرات کا جھنجھٹ تو یہ ڈپٹی پرائم منسٹر کے کمرے میں براجمان اور رونق افروز عرفان صدیقی کے سپرد۔۔۔ ہور ہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔ ابھی تو نذاکرات کاروں کی آنیاں جانیاں دیکھنے کے لائق ہیں، ان کا ہیلی کاپٹر وہاں جا اترا جہاں اسکندر اعظم کے بھی پر جلتے تھے۔ (10 فروری 2014ء)