خبرنامہ

عذر گناہ بدتر از گناہ

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

عذر گناہ بدتر از گناہ

یہ بات اب رازنہیں رہی کہ حکومت اور فوج کے مابین خوشگوار تعلقات کار نہیں ہیں۔ یہ اسی طرح کی کھلی حقیقت ہے کہ پچھلے دور میں حکومت اور عدلیہ کے درمیان شدید محاذ آرائی تھی۔ اور عدلیہ نے پارلیمنٹ کے متفقہ ووٹ سے منتخب ہونے والے وزیراعظم کو گھر بھیج دیا تھا۔ یہ ویسی ہی ایک حقیقت ہے جیسے مشرف کے آخری دنوں میں حکومت اور عدلیہ کے مابین جنگ کی نوبت آگئی تھی۔ مشرف ایک ڈکٹیٹرتھا، اس کے مقابلے میں عدلیہ کی حمایت کرنے والوں کی منطق تو سمجھ میں آتی ہے مگر پیپلز پارٹی تو خالص جمہوری طریقے سے اقتدار میں آئی تھی، اس کے مقابلے میں عدلیہ کی بالادستی کی حمایت کس اصول کی بناپر کی گئی اور پارلیمنٹ اور جمہوری حکومت کو نیچا دکھانے میں کچھ لوگ پیش پیش کیوں تھے۔ اسی پیپلز پارٹی کے دور میں دو مرتبہ حکومت اور فوج کے درمیان کھلی جنگ ہوئی، ایک کیری لوگر بل کی بنا پر اور دوسرے میمو گیٹ کے مسئلے پر مگر دونوں مرتبہ منتخب حکومت نے، جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کا ساتھ دینے کے بجائے فوجی اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا گیا۔ کیری لوگر بل پر تو کوئی کسی کا کیا بگاڑ سکتا تھالیکن میموگیٹ پر اس وقت تک لوگوں کو چین نہ آیا جب تک حسین حقانی کا استعفانہ لے لیا گیا۔ ایک تنازع ریمنڈ ڈیوس کی ذات پر کھڑا ہوا مگر ان حضرت کو پھانسی پرلٹکا دیکھنے والوں کا اس وقت منہ لٹکے کا لٹکا رہ گیا جب تخت لاہور کی ایک جیل سے یہ موذی اڑنچھو ہو گیا، کسی نے شہباز شریف سے آج تک نہیں پوچھا کہ ریمنڈ ڈیوس کے مسئلے پر انہوں نے گھٹنے کیوں ٹیکے کیا انہوں نے اپنی کابینہ یا منتخب صوبائی اسمبلی میں اس مسئلے پر کوئی مشاورت کی تھی۔ مشرف پرتنقید کی جاتی ہے کہ اس نے آدھی رات کی ٹیلی فون کال پر کسی سے مشورہ کئے بغیر پاکستان کو امریکی جنگ میں جھونک دیا، کیا پاکستان آج بھی امریکی جنگ کا حلیف نہیں ہے، اب تو ن لیگ کی حکومت کو نو دس ماہ ہو چکے ہیں، انہیں مشاورت کے لیئے بہت وقت مل گیا ہے، ایک سے ایک بڑھ کر عقاب صفت اس حکومت میں موجود ہے لیکن جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، اسی حکومت کے وزیرخزانہ امریکہ میں کشکول لے کر گھوم رہے ہیں اور لوکیشن سپورٹ فنڈ کے بقایا جات کا تقاضا کر رہے ہیں، یہ لوکیشن سپورٹ فنڈ امریکی جنگ میں کودنے کا انعام ہی تو ہے۔ سعودی عرب نے بھی ڈیڑھ ارب ڈالر اس فنڈ میں دیئے جوصدر زرداری کے پہلے دورہ امریکہ میں صدر اوبامہ کی زیر صدارت فرینڈز آف ڈیموکریٹک پاکستان کے تاسیسی اجلاس میں قائم کیا گیا تھا۔ حلوہ کھانے کے لیئے سب تیار ہیں لیکن گالیاں کھانے کے لیے فوج اور اس کا سابق سربراہ جنرل پرویز مشرف۔ اور اب جنرل راحیل شریف کو بھی نشانے پر رکھ لیا گیا ہے۔
ایک فیشنی بات یہ کی جاتی ہے کہ فوج ملک کا دفاع کرے تو اس کو سر آنکھوں پر بٹھائیں گے مگر دفاع کی تعریف بھی ہر ایک کی اپنی ہے۔ یہی فوج مشرقی پاکستان کا دفاع کر رہی تھی تویہ فیشنی باتیں کرنے والے مکتی باہنی کے ساتھ تھے اور آج وہ بنگلہ دیش سے اس کارنامے پر تمغے وصول کرتے ہیں۔ اب یہی فوج بارہ برس سے دہشت گردوں سے برسر پیکار ہے تو بھی یہ گردن زدنی ہے، اس کے مقابلے میں کتوں کو شہید کہا جاتا ہے۔ صد افسوس صد افسوس! حکومت اور فوج کی اس لڑائی کی وجہ جنرل مشرف کا ٹرائل ہے یا دہشت گردوں سے مذاکرات یا بغیر کوئی فائدہ اٹھائے دہشت گرد قیدیوں کی رہائی یا بلا وجہ بھارت سے حکومتی عشق نگرفوج کی ایسی درگت بنی کہ آرمی چیف کو بولنا پڑا اور بجائے اس کے کہ فوج کے افسروں اور جوانوں کی تالیف قلب کا اہتمام کیا جاتا، الٹا خواجہ سعد رفیق نے اصرار کیا کہ انہوں نے جو کچھ کہا، وہ درست کہا اور وہ آئندہ بھی ایسا کہتے رہیں گے۔ خواجہ سعد رفیق کے والد کی شہادت عمل میں آئی تھی، یہ سانحہ کی فوجی حکومت کے دور میں نہیں، ایک خالص جمہوری منتخب حکومت کے دور میں رونما ہوا۔ اور یہ افسوسناک سانحہ تھا مگر خواجہ صاحب کے حواس پر فوج کا بھوت کیوں سوار ہو گیا کسی دن ملاقات ہو تو سمجھنے کی کوشش کروں گا اور قارئین کو بھی سمجھاؤں گا۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک بار مسلم لیگ ہاؤس میں ایم اے او کالج کے ایک جتھے کے نرغے سے میاں نواز شریف کو بسلامت نکالنے والے، بھولے کے بھائی انوار شیخ تھے جنہوں نے ایک باز کی طرح نواز شریف کو اس محاصرے سے اچک لیا اور کندھوں پر اٹھا کر باہر گاڑی میں جا بٹھایا۔ ان نوجوانوں میں سے کوئی تو مجھے بتائے کہ انہیں نواز شریف سے اختلاف کیا تھا۔ اور آج وہ ان کی محبت سے سرشار کیوں ہیں اور کیا یہ محبت جاودانی ہے۔ میں نے خواجہ سعد کا ایک آرٹیکل اخبارات میں پڑھا ہے، اس نے آگ کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے اس کی آنچ کو مزید تیز کر دیا ہے۔ اور اگر خواجہ سعد کا مقصد یہی تھا تو میدان جنگ سے باہر بیٹھے ایک تجزیہ نگار کی رو سے میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس مقصد میں کامیاب رہے۔ اب میرا مشورہ فوج کیلیئے یہ ہے کہ وہ صبر اور حوصلے سے کام لے کسی انفرادی فعل کی بناپر اسے پاکستان کے دفاع کے ارفع ترین مقصد سے توجہ نہیں ہٹانی چاہئے۔ خواجہ سعد کے لیئے میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنے محکمے پر توجہ دیں، ریلوے کی حالت زار کو سنبھالیں، خواجہ سعد نہ تو وزیر قانون ہیں، نہ وزیر انصاف ہیں، نہ وزیر دفاع، نہ وزیر اطلاعات، جس کا کام اسی کو ساجھے، وہ جمہوریت پر کرم فرمائیں اور دوسرے وزرا کے محکموں میں مداخلت نہ فرمائیں، یہی جمہوریت کی روح ہے۔
خواجہ سعد کا اصرار یہ ہے کہ وہ آمریت کے خلاف بولتے رہے ہیں، آج بھی آمریت کے بارے میں ان کے نظریات وہی ہیں، یہ اچھی بات ہے، انسان کو اپنے نظریات پر کار بند رہنا چاہئے اور آمریت کی مخالفت تو بہرحال کرنی چاہئے مگر خواجہ سعد کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ملک میں اس وقت ممنون حسین منتخب صدر ہیں اور نواز شریف منتخب وزیراعظم، چاروں صوبوں میں منتخب وزرائے اعلی موجود ہیں منتخب پارلیمنٹ کام کر رہی ہے جس میں خواجہ سعد کی پارٹی ن لیگ کو اکثریت حاصل ہے، آج آمریت کی بحث کہاں سے کھڑی ہو گئی۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر پر بات کی جاتی تھی، آج ہٹلر کولتاڑنے سے پاکستان ریلوے فراٹے نہیں بھرسکتی۔ اور اگر ملک کے ایک آمر کو سزا دینی ہے تو وہ خصوصی عدالت کا کام ہے یا پراسیکیوٹراکرم شیخ کا، خواجہ سعد رفیق کا اس سے کیا لینا دینا۔ بے وقت کی اذان صرف مرغادیتا ہے اور اس کی از ان روا نہیں ہوتی۔ خواجہ سعد مرغانہ بنیں۔
(16 اپریں 2014ء)