خبرنامہ

علیم خان کے عید کیک کا حادثہ….اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

بسم اللہ
علیم خان کے عید کیک کا حادثہ….اسد اللہ غالب

علیم خان کا کیک نہ ہوا کہ حویلی عل نقی خان بہادر کی ہو ئی۔ اس کا چرچا ہے کہ ختم ہونے میں نہں آتا۔ کیک کا ذکر شیطان کی آنت کی طرح پھیلتا جا رہا ہے۔ میں نے اس کا رونا دھوناکیا اور پھر کوئی کسر رہ گئی تھی تو یار عزیز ڈاکٹر اجمل نیازی نے پوری کر دی۔
ڈاکٹر صاحب کا کالم پڑھ کر مجھے اپنے لکھے پر سخت شرمندگی ہوئی، لکھنا ہی تھا تو لکھتا کہ مجھے ڈاکٹر اجمل نیازی نے عید کیک نہیں بھیجا، ڈاکٹرا جمل نیازی بھی مجھے صلواتیں سناتے کہ غالب نے انہیں کیک نہیں بھیجا، ہم دونوں نے علم خاں سے کیک کی توقع کیوں لگائیْ کیک تین سو سے شروع ہو کر پندرہ سو تک کا آتا ہے اور ہم دونوں ا سکی سکت رکھتے ہیں کہ اپنے دو چار دس دوستوں کو کیک بھیجیں اور آپس میں عید تحائف کا تبادلہ کریں، آخر ہم نے پچاس برس ایک ساتھ گزارے ہیں، پچاس سال پہلے گورنمنٹ کالج میں اکٹھے تھے ۔ آج اپنے مرشد مجید نظامی کے سائے تلے نوا ئے و قت میں اکٹھے ہیں ،تو پھر پہلی ذمے داری ہماری بنتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو اچھے برے وقت میں یاد رکھیں، ویسے ادھر ادھر نظر دوڑئیں تو ہم دونوں کو شعیب بن عزیز اور مجیب شامی جیسے کھرے اور سچے دوست بھی کیک بھیج سکتے تھے، شامی صاحب تو ہر اتوار کو برنچ پر جتنا پیسہ دوستوں کی ضیافت پر ایثار کر دیتے ہیں ، اسی قدر پیسہ انہیں ایک عید پر اپنے سو پچاس دوستوں کو عید کیک بھیجنے پر لگ جاتا۔ وہ ا س بوجھ کے متحمل ہو سکتے ہیں،میں نے پہلی بار عید کیک اپنے مرشد مجید نظامی کو گھر جا کر پیش کیا ۔ انہوں نے لذیذ سویوں سے تواضع کی۔ واپس گاڑی میں آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میر اکیک تو سیٹ پر رکھا ہے۔ شاید نظامی صاحب کا اصول ہو کہ اپنے عملے کے ارکان کواس زحمت سے بچانا چاہتے ہوں ، میں واپس گیا اور وضاحت کی یہ عید کیک نہیں بلکہ عید سے ایک روز پیشتر الوداعی جمعہ تھا تو نماز کے بعد میں نے مولانا عبدالستار نیازی کو ان کے گھر سے لیا ور اقبال ٹاؤن کے کشمیر بلاک لے گیا جہاں انہوں نے اپنے دست مبارک سے میرے گھر کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ اس سے پہلے میں نے لاہور میں پچیس برس کرائے کے مکانوں میں زندگی بسر کی تھی۔ میں نے جو نظامی صاحب کو کیک پیش کیا تھا وہ ا سی خوشی کا تھا اور خواہش تھی کہ وہ گھر کے لئے خیر وبرکت کی دعا بھی کریں۔ یہ سن کر نظامی صاحب نے کیک بھی قبول کیا ور ڈھیر ساری دعائیں بھی دیں۔ یہ انہی کی دعاؤں کی برکت تھی کہ میں نے گھر کی تعمیر کے لئے بنکوں سے لیا گیا سارا قرضہ بھی اتارا۔
اب پھر وہی علیم خان کے کیک کا قضیہ۔ میرا کالم عید کی دو چھٹیوں کے بعد چوتھے دن چھپا۔ علیم 8 خان نے اسے خود پڑھا یا کسی نے انہیں بتایا کہ یہ کیا ہوا۔ مجھے ان کے دفتر سے کسی مہربان نے بتایا کہ کیک تو بھیجا تھا مگر کیک راستے میں ایک حادثے کی نذر ہو گیا۔بلکہ موٹر سائیکل والا بھی زخمی ہو گیا۔ مجھے کیک کی بجائے موٹر سائیکل والے کی فکر لاحق ہو گئی، بہر حال وہ اگلی رات وہی گیارہ بجے آیاا ور نیا ترو تازہ کیک لے آیا ، بے حد لذیذ کیک پا کر بچوں کی خوشیاں دیدنی تھیں۔مگر اجمل نیازی نے مجھے میری اوقات یاد دلا دی اور علیم خان کی امارت کا ذکر کر کے مجھے اپنی ہی نظروں میں گرا دیا کہ میں امیروں سے کیا کیا توقع لگائے بیٹھا ہوں۔ اجمل نیازی کی یہ بات تو درست ہے کہ علیم خان امیر ہونے کے باوجود دوستوں کادوست ہے اور ایسا شخص معاشرے کے لئیے نعمت اور غنیمت ہوتا ہے، میں سوچتا ہوں کہ سب امیرآدمی علیم خان کی طرح نعمت کیوں نہیں بنتے۔ اب تو ہمارے کئی ساتھی ڈھیر سارا پیسہ کما کر اپنا سٹیٹس بدل چکے ہیں ۔ ان سے کیک تو کیا ملے گا، وہ تو عید مبارک سننے کے لئے فون تک نہیں اٹھاتے ،کئی ایسے کلاس فیلو اعلی افسر ہیں جو افسری میں امیر ہیں ،وہ کسی میسیج کا جواب نہیں دیتے۔ مگر کئی اعلی افسر انسانیت سے ناطہ نہیں توڑتے، میرا یک اور راوین دوست جو اعلی عہدوں پر فائز رہا، وہ اجمل نیازی کا بھی دوست ہے ، اسماعیل قریشی ، وہ میرے ہر بیٹے کی بارات میں شامل ہوا۔میں نے کئی امیر ایسے بھی دیکھے ہیں جن کے گھروں کے سامنے افطاری کے وقت عورتوں اور بچوں کا رش لگا رہتا ہے، پتہ نہیں یہ دکھاوا ہے یا نیکی ہے، اس کا فیصلہ خدا کرے گا مگر کتنے ہی ا میر کبیر ایسے ہیں جن کے سامنے کوئی قومی مقصد بیان کریں تو وہ منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں جیسے انہیں اس مسئلے سے کوئی غرض نہیں۔ میرا دل دکھی ہے کہ آئے روز کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر ہمارے بے گناہ شہری شہید اور زخمی ہوتے ہیں ، کوئی امیر آدمی ان کی مدد دکو نہیں پہنچتا، دھماکہ ہو جائے تو حکومت بھی لاکھوں کی امداد کا اعلان کرنے پر اکتفا کرتی ہے، چیک تقسیم ہونے کی نوبت نہیں آتی مگر دھماکے کے متاثرین صرف حکومت کی ذمے داری تو نہیں ہیں اس ملک سے امیروں نے بہت کمایا ، وہ محروموں اور دکھوں کے ماروں کی مد دکیوں نہیں کرتے، میں اور اجمل نیازی ان امیروں کے قصیدے لکھتے نہیں تھکتے جن کا دعوی ہوتا ہے کہ وہ یتیموں اور بیواؤں کی مدد کرتے ہیں مگر خدا لگتی بات ہے کہ میں نے آج تک ایسے لوگوں کے صرف دعووں پر اعتبار کیا ہے ، ان سے کسی یتیم، بیوہ اور بے سہارا کی امداد نہیں کروا سکا۔ایک نہایت سینیئر صحافی اچانک دل کے دورے سے چل بسے، ان کی بیوہ کے پاس دو سیاستدان ا ور امیر کبیر بھائی میرے سامنے اپنے گھر سے نکلے تو انہوں نے کہا کہ ایک ایک لاکھ دونوں دےآئیں گے۔ میں سوچتا رہ گیا کہ سات بچوں کی ماں دو لاکھ سے بچوں کو زندگی بھر پڑھائے گی، کھانا کھلائے گی یا بیٹیوں کی شادی کرے گی مگر مجھے ایک ا ور امیرآدمی کے بارے میں پتہ ہے کہ ایک نوجوان صحافی چل بسے ، ان کی بیووہ کو ٹی وی میں ملازمت بھی دولا دی ا ور کئی برس سے اسے پچا س ہزار ماہوار وظیفہ بھی دے رہے ہیں۔اس معاشرے میں ہر طرح کے لوگ موجود ہیں اورا جمل نیازی کی بات درست ہے کہ علیم خان جیسے امیر لوگ معاشرے کے لئے نعمت بھی ہیں اور غنیمت بھی ہیں، میں نے ان کا کیک ملنے پر پھر دعا کی کہ وہ اگلے الیکشن میں کامیاب ہوں اور پارٹی انہیں اکثریت ملنے پر وزیر اعلی بنائے۔ ایسی دعائیں دل سے نکلتی ہیں۔کیک پر پیسے جیب سے خرچ ہوتے ہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ کیک نہ آیا ، میں نے گلہ کیا، کیک آ گیا ور یہ بھی علم ہو گیا کہ اصل کیک حادثے کا شکار ہو گیا مگر علیم خان سے بات نہیں ہو سکی، وہ تین سال قبل تعزیت کے لئے گھر تشریف لائے تھے اور یہ کہہ گئے تھے کہ اب جلد جلد ملاقاتیں ہونی چایئیں، ملاقات کیا ہوتی ، فون پر بھی تین برس سے رابطہ نہیں ہوا۔ علیم خان بڑے سمجھدرا آدمی ہیں۔شاید نہ ملنے کا گلہ بھی دور کر دیں ، ابھی تو وہ پارٹی ٹکٹوں کے کھوبے میں پھنسے ہوئے ہیں۔