خبرنامہ

عمران ، جماعت اسلامی میں شامل کیوں نہ ہو سکا۔۔اسداللہ غالب

امیر العظیم کو میں پہلی بار ملا تھا تو وہ متعددِ دوسرے طالب علموں کے ساتھ کوٹ لکھپت جیل میں بندتھا اور شاید یہ بدنامہ زمانہ قصوری چکی تھی۔
میں حیران ہوں قصور کے نام کے ساتھ بدنامی کیوں ہے۔
مجھے یہ بھی حیرت ہوتی ہے جب میں یہ سنتا ہوں کہ جنرل ضیا نے جماعت اسلامی کو پروموٹ کیا۔امیر العظیم اور دوسرے طالب علم اسی جنرل ضیا کے دور عروج میں قیدو بند میں مبتلا تھے۔
دوسری حیرت مجھے یہ سن کر ہوتی ہے کہ جماعت کے نصیب میں اقتدار کیوں نہیں، پرویز الہی کو طعنہ دیا جاتا تھا کہ ان کے ہاتھ پر اقتدار کی لکیر نہیں مگر وہ پنجاب کے وزیر اعلی بنے ا ور ڈنکے کی چوٹ پر بنے، ظفراللہ جمالی کی طرح ایک ووٹ کی بھیک سے نہیں بنے۔ جماعت اسلامی کو پہلی بارا قتدار ملا تو یہ ضیا ہی کا زمانہ تھا اور ضیا کو جہادا فغانستان میں جماعت کی حزب المجاہدین کی ضرورت تھی ا ور جماعت سے ذہنی قربت رکھنے والے گلبدین حکمت یار کی بھی ضرورت تھی۔ضیا نے جماعت کو چار وزارتیں دی تھیں اور یہ سب کی سب تگڑی وزارتیں تھیں، پروڈکشن، واپڈا، اطلاعات اور منصوبہ بندی کمیشن۔مگر رکئے، جماعت اس سے قبل مشرقی پاکستان میں الیکشن جیت کرصوبے کے اقتدار میں شامل رہ چکی تھی اورا سکے البدرا ور الشمس کے نوجوانوں نے پاکستان کی بقا کی خاطر اس وقت بھی گردنیں کٹوائی تھیں اور آج بھی حسینہ واجد انہیں پھانسیاں دے رہی ہے، جماعت کے یہ نوجوان مفاد پرست ہوتے تو آج وہ خود یاان کی ہونہاراولادیں حسینہ واجد سے تمغے لے سکتی تھیں مگرا س کے لئے انہیں قائد اعظم کے پاکستان سے غداری کا زہریلا گھونٹ پینا تھا جو ان کے ایمان اور ضمیر کے خلاف تھا، وہ کسی میر جعفر یامیر صادق کی ا ولاد نہ تھے۔جماعت کو اسلامی جمہوری اتحاد میں بھی سرگرم حصہ لینے کا موقع ملااور جنرل مشرف کے دور میں ایم ایم اے کے اتحاد میں وہ خیبر پی کے میں حکومت کر چکی ہے اور�آج بھی ا س صوبے میں شریک اقتدار ہے، پھر کیسے کہا جاسکتا تھا کہ جماعت کی قسمت میں کبھی اقتدار نہیں لکھا۔آج پاکستان کی دو بڑی پارٹیاں بھی ایک ایک صوبے تک محدود ہیں، پیپلز پارٹی صرف سندھ میں اور مسلم لیگ ن پنجاب میں۔تو کونسی کمی ہے جماعت ا ور باقی سیاسی پارٹیوں میں۔
امیرالعظیم ملک کی نوجوان قیادت کا ایک قد آور نام ہے۔
انہیں یاد سب ہے ذرا ذرا، کہتے ہیں کہ جب فاطمہ جناح روڈ پر لاہور کی جماعت کا دفتر ہوا کرتا تھا تو ایک گاڑی راناا للہ داد کی تھی ، دوسری اسعد گیلانی کی سرکاری گاڑی ، باقی سب لوگ یا توسائیکلوں پر آتے تھے یا پیدل، ایک چھوٹاسا صحن بھی بھر نہ پاتا تھا مگر آج اگرلاہور ہی کی جماعت کو اپنا اجلاس عام کرنا ہو تو ا سکے لئے وسیع پارک کی ضرورت ہو گی،اور شاید سب لوگ ا س میں بھی نہ سماسکیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ جماعت کے پاس الکیٹ ایبل امیدوار نہیں ہیں، دوسرے ا سکے پاس اس قدر سرمایہ نہیں ہے جو وڈیروں، لٹیروں، پتھاریداروں،اٹھائی گیروں کے پاس موجود ہے۔امیرالعظیم کو ان کمزوریوں اور کمیوں کاا حساس ہے ا ور ان کے بقول جماعت کو بھی ہے۔مگر جماعت کے ساتھ وابستہ لوگ سارے کے سارے فقیر نہیں، کچھ نے تعلیمی ادارے قائم کر رکھے ہیں اور یہ بھی مالدار ہیں، کچھ نے پراپرٹی کا بزنس شروع کیا ہے، ان کے پاس بھی پیسہ آ گیا ہے اور جائز طریقے سے آیا ہے،ایک طبقہ ڈاکٹروں ، انجینیئروں اورپیشہ ور افراد پر مشتمل ہے ا ور یہ بھی خوش حال ہے۔مگر پھر بھی جماعت کے امیدوار اس قدر پیسہ خرچ نہیں کر سکتے جس طرح باقی سیاسی پارٹیوں کے کر سکتے ہیں۔اس کے لئے جماعت انتخابی اصلاحات پر زور دے رہی ہے جس میں اخراجات کی حد مقررکی جائے اور یا پھر متناسب نمائندگی کا نظام لاگو کیا جائے۔جماعت نے کرپشن فری معاشرے کی مہم بھی شروع کر رکھی ہے اور یہ عام آدمی کا نعرہ بن گئی ہے، اس وقت احتساب کا عمل شروع ہے ا ور لوگ چاہتے ہیں کہ ہر کسی کی گرفت ہو۔
چھوڑیئے میں یہ کیا سنجیدہ باتیں لے کر بیٹھ گیا ہوں۔
امیر العظیم نے تو بہت لائٹ موڈ میں گفتگو کی، یہ انکشافات سے بھر پور تھی، کہتے ہیں کہ عمران خان شروع میں جماعت اسلامی کے اس قدر قریب تھے کہ ان کا وعدہ تھا کہ وہ شوکت خانم ہسپتال کے لئے چندہ اکٹھا کر لیں ، پھر باقاعدہ جمات میں شامل ہو جائیں گے۔اس کہانی کے پیچھے ایک انوکھی کہانی ہے، عمران خان نے چندہ اکٹھا کرنے کے لئے ایک ڈنر کااہتما م کیا اور کہاکہ جو زیادہ چندہ دے گا ، وہ کسی اداکارہ کے دائیں بائیں بیٹھے گا۔ یہاں تک تو لوگوں نے ان کی حرکت کو ہضم کر لیا مگر انہوں نے اگلا علان یہ کیا کہ دوسرے ڈنر میں مشہور بھارتی اداکارائیں آئیں گی ا ور زیادہ چندہ دینے والوں کو ان کے پہلو میں جگہ ملے گی۔بس پھر کیا تھا ، اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوان اس پر بپھر گئے ا ور دھمکی دی کہ یہ ڈنر نہیں ہونے دیں گے۔عمران خاں نے قاضی حسین ا حمد سے ملا قات کا وقت مانگ لیا اور صبح سویرے ان کے پاس پہنچ گئے، قاضی صاحب نے امیر العظیم کو بھی طلب کر لیا۔عمران کا اصرار تھا کہ وہ ایک نیک ا ور فلاحی مقصد کے لئے فنڈ اکٹھا کرنا چاہتا ہے،ا س میں قابل اعتراض بات کیا ہے۔امیر العظیم نے لقمہ دیا کہ کشمیری خواتین کی گلی سڑی لاشیں دریائے چناب میں بہہ کر آ رہی ہیں۔ان کشمیریوں کے قاتلوں کی اداکاراؤں کو پاکستان دعوت دینے پر آپ کا ضمیر کیسے مطمئن ہے، عمران بالکل لاجواب ہو گیا مگر اس نے پھر کہا کہ مجھے بتائیں کہ میں اس نیک کام کے لئے پیسے کس طرح اکٹھے کروں۔ عمران کو جواب ملا کہ ہم آپ کو پاسبان کے نوجوان دیتے ہیں جو قریہ قریہ آپ کے ساتھ گھومیں گے ا ور آپ کی توقعات سے بڑھ کر پیسے اکٹھے کر دیں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔عمران بڑا متاثر تھا اور خوش بھی ،ا س نے وفورجذبات میں کہا کہ مجھے ہسپتال کا پراجیکٹ مکمل کر لینے دیں ،میں آپ کی جماعت میں شامل ہو کر سیاست کروں گا۔ جماعت کی قیادت نے خبردار کیا کہ آپ کے گرد جس قسم کے لوگ ہیں، وہ ہمارے ا ور آپ کے درمیان دیوار بن جائیں گے اور آپ کو جماعت میں نہیں آنے دیں گے۔
اور ایسا ہی ہوا۔
عمران جماعتیا بنتے بنتے بچ گیا۔
کہانیاں ا ور بھی ہیں مگر کالم کا دامن تنگ ہے، بہت کچھ اگلی نشست میں !!