خبرنامہ

عمران احمد خان نیازی کے لئے مبارک باد…اسد اللہ‌غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

عمران احمد خان نیازی کے لئے مبارک باد…اسد اللہ‌غالب

نئے وزیر اعظم کے انتخاب کاعمل شروع ہوا تو ایک خوشگوار حیرت ہوئی۔ عمران نے برسوں سے اپنا اصل نام استعمال نہیں کیا۔ عمران کے ساتھ احمد کا لفظ بھی شامل ہے۔ اس کا پتہ ان کے الیکشن کے روز چلا۔ رسول پاک کا دوسرا نام احمد بھی ہے۔ اس نام کی اپنی ایک برکت ہے ۔ عمران کو آئندہ سے اپنا پورا نام استعمال کرنا چاہئے اپنے نبی کریم سے مناسبت کی اپنی برکات ہیں۔
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح ختم نبوت والے حلف میں گھپلہ کیا گیا، اسی طرح کا ایک گھپلہ سرکاری تقریبات کے پروٹوکول میں کسی وقت ہو چکا ہے، شاید وہ کون تھا جسے یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی کہ تلاوت قرآن پاک کی حیثیت ثانوی ہے اور ملک کے قومی ترانے کو اس پر فوقیت حاصل ہے۔ یہ غلطی اگر ہو گئی ہے تو اس کا ازالہ ہو جانا چاہئے ۔ اور تلاوت سے پہلے کسی صورت میں قومی ترانے کی دھن نہ بجائی جائے۔وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری میں نعت نبی اکرم کو بھی حذف کر دیا گیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ اس طرح کا مذاق بھٹو نے شروع کیا تھا جب دستور میں ترمیم کر کے لفظ اسلامی حذف کر دیا گیا۔ ہماری پارلیمنٹ اور دیگر ریاستی اداروںنے ملکی نظام کے بارے میں جو بھی فیصلے کرنے ہیں، ایک ہی بار کر لئے جائیں تاکہ لوگوں کو علم ہو سکے کہ قائد اعظم اور بانیان پاکستان سے نئی ریاست کے قیام میں کیا کیا غلطیاں سرزد ہو گئی تھیں۔بھٹو نے تو اپنے منشور میں سوشلزم کا لفظ بھی استعمال کیا۔ وقت نے ثابت کیا کہ یہ نظام سوائے چین کے اب ہر ملک میں اپنی موت مر چکا ہے۔ اسلام پر پابندیاں لگانے کا سلسلہ عالمی طاقتوں کی طرف سے شروع ہے۔ اس لئے اگر اسلام ا ور مسلمانوں میں کوئی جان ہوئی تو یہ نظریہ زندہ رہے گا ورنہ جمہوریت کے تحت تو کوئی بھی فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ اور ریاستی ا دارے اپنی اندھی طاقت سے اسے نافذ بھی کر سکتے ہیں۔ ترکی میں کمال اتا ترک کے تجربے کو ہم نہیں بھولے۔
ایک خوشگوار مسرت یہ ہوئی کہ تقریب حلف برداری میں خاتون اول مکمل حجاب کے ساتھ شریک ہوئیں۔ اس پر امریکہ اور مغربی ممالک سیخ پا ہو سکتے ہیں۔ ان کی طرف سے اگر کوئی دباﺅ آیا تو میں اس کے دفاع میں پیش پیش ہوں گا۔
میں عمران احمد خاں نیازی کو وزارت عظمی کے عہدے پر متمکن ہونے کی مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔ میںنے دھرنے کے بعد سے عمران ا ور ان کی پارٹی کے انداز سیاست پرتنقید کی۔ یہ اختلاف میرا بنیادی حق تھا۔ اب وہ وزیر اعظم ہیں ، ان کا ماضی پیچھے رہ گیا۔ اب عمران کا جائزہ ان کی کارکردگی کے پیش نظر لیا جائے گا۔
میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ عمران کو حکومت کے لئے کھلی ا ٓزادی میسر نہیں ہے، ان کا مینڈیٹ محدود ہے اور اتحادیوں کی وجہ سے بھی انہیں مشکلات درپیش ہیں۔پھر پاکستان میں ادارہ جاتی محاذ آرائی کے خدشات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اس لئے کرکٹ کے کھیل اورگورننس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
مجھے بھارت سے بلائے گئے مہمانوں پربھی اعتراض ہے۔ یہ لوگ عمران کے ذاتی دوست تھے ۔ اور عمران نے انہیں جس تقریب میںمدعو کیاوہ ریاست پاکستان کی تقریب تھی۔عمران خان اپنے دنیا بھر کے دوستوں کو نجی تقاریب میں مدعو کرنے کے لئے آزاد ہیں۔نواز شریف نے بھارتی وزیر اعظم مودی کو اپنی نواسی کی رخصتی میں بلا لیا تھا۔ پاکستانیوں کو یہ حرکت بری لگی تھی۔ پاکستان اور بھارت میں جب تک کشمیر کا قضیہ موجود ہے،ہمیں ایسے چونچلوں سے باز رہنا چاہئے۔
بھارت نے عمران کی خیر سگالی کے جواب میں اپنی خباثت ظاہر کرنے میں ذرہ بھر دیر نہیں لگائی اور تقریب حلف برداری سے اگلی صبح کنٹرول لائن پر فائرنگ کر کے ایک پینسٹھ سالہ بوڑھے کو شہید کر دیا۔ یوں عمران کی کرکٹ ڈپلو میسی نے اپنے مثبت اثرات مرتب نہیں کئے۔
وفاق اوردو صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومتیں قائم ہو رہی ہیں۔ صوبوں کی حکومتیں قائم کرنے میں پی ٹی آئی کو مشکلات پیش آئی ہیں۔خیبر پی کے میں دھڑے بندی نظر آئی اور پنجاب میں ایک بالکل اجنبی چہرہ سامنے لایا گیا ہے جس کامطلب یہ لیا جا رہا ہے کہ اب دونوں صوبوں کو پی ٹی آئی اسلام آباد سے کنٹرول کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ پی ٹی آئی کو ون مین شو ختم کر کے پارٹی کی سطح پر فیصلے کرنے چاہیئں۔ یہ فیصلے خواہ پارٹی کے چیئر مین ہی کریں لیکن ان کا اظہار اس طرح نہ ہو کہ تمام نامزدگیاں پارٹی سربراہ کی طر ف سے کی جا رہی ہیں۔ پارٹی کو صوبائی سطح پر پارلیمانی اجلاس میںمشاورت کے ساتھ فیصلے کرتا نظر آنا چاہیے۔ ورنہ جمہوریت ایک قصہ پارینہ بن کر رہ جائے گی اور پی ٹی آئی میں بھی پیپلز پارٹی کے زرداری خاندان اور ن لیگ میں شریف خاندان کی طرح شخصیت پرستی کا عالم دیکھنے میں آئے گا۔
پی ٹی آئی کو ایک طاقت ور حزب مخالف کا سامنا ہے۔ ن لیگ سے اسی طرز عمل کی توقع کی جا سکتی ہے جس کا مظاہرہ پی ٹی آئی نے پانچ برس تک کیا، پیپلز پارٹی کے قائدین کو بھی دھمکیاں دی گئیں اور اب بھی نئے وزیر اعظم نے کڑے احتساب کی بات کی ہے۔ جب یہ بات ہو رہی ہے تو نواز شریف اور مریم نواز جیل میں ہیں۔ اور کئی مقدموں کا سامنا کر رہی ہیں ا ور جناب زرداری کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہو چکے ہیں۔ شہباز شریف کے خلاف بھی نئی پیشیوں کے نوٹس جاری ہو چکے ہیں۔اگرچہ ہر کوئی چاہتا ہے کہ ملک میں حقیقی احتساب ہونا چاہئے اور بلا امتیاز ہونا چاہئے۔ حکومتی پارٹیوںکے لوگوں کو بھی کوئی رعائت نہ دی جائے۔پھر ہی لوگ احتساب کے عمل پر اعتماد کر سکتے ہیں ورنہ یہ انتقام کی صورت بن جائے گا جو ملک کی قسمت کے لئے زہر قاتل ہو گا۔
عمران اور ان کی پارٹی نے بڑے بڑے وعدے کر رکھے ہیں ،۔ اب ان وعدووں کی تکمیل کا وقت ہے۔ حکمران اپنے مخالفین کو بے نقط سناتے رہے تو ا س سے نہ تعلیم کا نظام بہتر ہو گا، نہ صحت کا، نہ بجلی کا،نہ سڑکوں اور ریل کا ،نہ مہنگائی کا، نہ امن وامان کا، نہ کشمیر کا اور نہ خارجہ معاملات کا۔ نئی حکومت کو محاذ آرائی سے بچتے ہوئے ٹھو س کاموں پر سنجیدگی سے توجہ مبذول کرنا ہو گی۔
ملک اور قوم کے مسائل بے انتہا ہیں۔پی ٹی آئی نے لوگوں کو ایک ا ٓس دی ہے۔اس لئے دعا ہے کہ اسے کامیابی ملے اور ا س ملک اور اس کے عوام کا بھی کچھ بھلا ہو سکے۔
پی ٹی آئی کو میڈیا کے ساتھ بھی محاذ آرائی اور انتقامی پالیسی سے گریز کرنا ہو گا۔ میڈیا کو آزادی سونے کی طشتری میں رکھ کر کسی نے نہیں دی۔ امریکی صدر ٹرمپ کی دھونس کو وہاں کے میڈیا نے برداشت نہیں کیا اس لئے پاکستان میں ریاست کے چوتھے ستون کو گوارہ کرنا ہو گا۔اشتہاروں کا ہتھکنڈہ یا مقدمے بازی سے گریز ہی سے پی ٹی آئی کی کامیابی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔