خبرنامہ

غزوہ بدر کا جذبہ… اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

غزوہ بدر کا جذبہ… اسد اللہ غالب

رمضان بھی آ گیا اور بدر کا معرکہ بھی درپیش ہے۔
پاکستان کا لشکر بدر کے میدان میں کھڑا ہے، وہی فیصلہ کن لمحات اور وہی دعا۔ خدایا! ہم مٹ گئے تو تیرا نام لیوا کوئی نہ رہے گا۔
خدایا ہمیں اپنے ایٹم بموں، ایف سولہ اور میراج طیاروں، گن شپ ہیلی کاپٹروں، رانی توپوں اور ایس ایس جی کمانڈوز کے ہوتے ہوئے بھی تیری ہی مرد اور نصرت درکار ہے۔
عضب خان پیدا ہوگیا، رمضان خان بھی تولد ہو جائے گا۔ عضب خان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، الوہی نور تھا اور روشن مستقبل کی جھلک بھی، رمضان خان اللہ کی رحمتوں اور فضیلتوں کا باعث بنے گا۔ وہ امن، سکون طمانیت اور سرخوشی کی علامت ہوگا۔
چند ماہ پہلے تک پاکستانی قوم سہمی ہوئی تھی، کمیٹیوں پر کمیٹیاں بنا کر امن کی بھیک مانگی جارہی تھی، پھر آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ لاہور آئے، چند اخبار نویسوں کے ساتھ ایک بریفنگ میں شریک ہوئے،ان پرسوالوں کی بوچھاڑ جاری تھی، آخر انہوں نے تحمل سے کہا کہ کیا مجھے اجازت دیں گے کہ ایک کمپیوٹر بریفنگ تیار کر کے لایا ہوں، وہ دکھا دوں، اور جب سامنے اسکرین پر ایک کے بعد ایک چارٹ نمودار ہوا تو محفل میں موجوداخبارنویسوں کے ذہنوں کی گرہیں کھلتی چلی گئی۔ یہ انکشاف حیرت انگیز تھا کہ فاٹا کے تمام علاقے دہشت گردوں سے کلیئر کروائے جا چکے ہیں، یہ آزاد کردہ علاقہ چھیاسی فی صد بنتا ہے، باقی کے چودہ فی صد علاقے کے صرف تین مقامات پردہشت گردوں کا جمگھٹا باقی تھا۔
جنرل باجوہ نے کہا کہ ہم ان تین علاقوں کوکلیئر کرنے کے لیے بالکل تیار ہیں اور حکومت کے اشارے کے منتظر۔
سوال ہوا کہ کتنا وقت لگ جائے گا اس نئے آپریشن میں!
جواب ملا۔ چار سے چھ ہفتے۔
بیک زبان سب بول اٹھے۔ صرف چار سے چھ ہفتے!!
جی ہاں، جنرل عاصم سلیم باجوہ کا، نپا تلا جواب تھا۔
اگلے سوال کی بوچھاڑ سبھی شرکائے محفل کی طرف سے ہوئی: کیا آپ گڈ اور بیڈ طالبان کا فرق ملحوظ رکھیں گے۔
جواب ملا نہیں۔ ہم ایک محدود وقت دیں گے کہ امن پسند لوگ علاقہ خالی کر دیں، پھر جو باقی رہ جائے گا اسے دشمن تصور کریں گے اور اس سے بلا لحاظ نپٹیں گے۔
یہ کیا کہہ دیا۔ حیرت انگیز معلومات ہاتھ آ گئی تھیں۔ اگلے روز کے اخبارات کی ایک ہی ہیڈ لائن تھی کہ فوج فاٹا کو چار سے چھ ہفتوں میں کلیئر کرسکتی ہے۔
میجر جنرل عاصم باجوہ کی ایک بروقت پریس بریفنگ نے بازی الٹ دی تھی۔
کہاں یہ تصور کہ فاٹا میں نامی گرامی فاتحین عالم بھی داخل نہیں ہو سکے، غیور اور جری قبائلی کسی مداخلت کو قبول نہیں کر سکتے، قائداعظمؒ نے بھی فاٹا سے پاک فوج کو واپسی کا حکم دیا تھا اور اس کے لیے صرف اڑتالیس گھنٹوں کی مہلت دی تھی۔
کسی کو شک نہیں کہ قبا کی انتہائی غیرت مند حریت پسند اور آزادمنش لوگ ہیں۔ وہ کسی کی مداخلت کو قبول نہیں کرتے، فاتحین عالم کو یہاں سے ہمیشہ پسپائی اختیارکرناپڑی۔
مگر پاک فوج کا مقابلہ ان غیور اور بہادر قبائلیوں سے نہیں، وہ تو ان مٹھی بھر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جنہوں نے صرف فاٹا بلکہ پورے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے اور اس علاقے کی خفیہ پناہ گاہوں سے دنیا بھر میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ ان مٹھی بھر دہشت گردوں کے پیچھے پوری غیر اسلامی دنیا کھڑی ہے، وہ مملکت خداداد اور اس کی بہادر افواج کو خدانخواستہ سرینڈر کروانے پر تلے ہوئے ہیں۔
قبائلیوں کی تکلیف بہت عارضی ہے، اس سے بھی زیادہ عارضی جتنی چیف منسٹر پنجاب نے لاہور میٹرو بس کے ایک منصوبے سے شہر کے سوا کروڑ عوام کو پہنچائی، اس اذیت کا دورانیہ تین برسوں پر پھیلا ہوا ہے جبکہ فاٹا کا آپریشن سوات اور مالاکنڈ کی طرح انتہائی مختصر عرصے میں چند ماہ کے لیے ہے اور اسی عرصے میں بے گھروں کی واپسی بھی انشااللہ ممکن ہوجائے گی۔ وہاں اگر آپریشن کا انچارج کوئی شہباز شریف ہوتا تو وہ اپنی تصویروں کے ساتھ جگہ جگہ یہ بورڈ آویزاں کروادیتا کہ آج کی زحمت، صدیوں کی رحمت۔
شمالی وزیرستان سے پر امن قبائلی باہر نکل آئے ہیں، ان کی اب تک کی تعداد پانچ لاکھ بھی نہیں بنتی۔ یہ لاہور کے کسی چھوٹے سے محلے میں سما سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک لاکھ عارضی بے گھروں کی کفالت کی ذے داری بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض نے اٹھانے کی پیش کش کر دی ہے، میں نے ملک ریاض کو نیکیوں کے بحیرہ عرب کا خطاب دے رکھا ہے۔ باقی رہ گئے چار لاکھ بے گھر، اور بیس کروڑ کی آبادی میں سے ہر پانچ افراد کو ایک بے گھر کی کفالت کرنی ہے۔ قوم زندہ ہو، صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے جذبوں سے سرشار ہو اور انصار مدینہ کی روایات کی پاسدار ہو تو چند ماہ کا بوجھ صدیوں کی راحت کا باعث بن سکتا ہے۔ حافظ محمد سعید کی فلاح انسانیت فاؤنڈیشن، جماعت اسلامی کی الخدمت فاؤنڈیشن، ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی کسٹم ہیلتھ کیئر سوسائٹی اور دیگر رضا کار ادارے پوری طرح سرگرم عمل ہیں۔ بیرونی ملکوں سے ڈالر کھانے والی این جی اوز براہ کرم میدان میں نہ اتریں یہ کوئی بڑی قیامت نہیں کہ قوم ان کے بغیر اس کا سامنانہ کر سکے۔
زمینی آپریشن ابھی شروع نہیں ہوا، صرف فضائی حملوں کے ذریعے ٹارگٹڈ بمباری کی جارہی ہے۔ جزل عاصم باجوہ نے دو روز پیشتر کہا ہے کہ علاقے کی زیادہ تر آبادی باہر نکل چکی ہے۔ پھر بھی اعلانات کئے جارہے ہیں کہ کسی بھی وجہ سے کوئی پیچھے رہ گیا ہو تو گھر چھوڑ دے، اس کے بعد زمینی آپریشن شروع ہوگا۔ اور اس کے بعد جو بھی سامنے آئے گا، اس کا مقابلہ کیا جائے گا۔ جنرل صاحب نے اس پروپیگنڈے کی تردید کی ہے کہ دہشت گردوں کی بڑی تعداد افغانستان منتقل ہو چکی یا پاکستان کے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں پھیل گئی ہے۔ جنرل صاحب نے تسلیم کیا ہے کہ پاک فوج کوسخت مقا بلے کی توقع ہے لیکن فوج اس عزم سے سرشار ہے کہ غازی یا شہید۔
جنگ بدر میں عددی مقابلہ نہیں تھا، لشکر اسلام کا انحصار صرف اس عزم پرتھا کہ غازی یا شہید۔ اور خدا کی نصرت پربھی، تائید غیبی پر بھی۔ فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو، اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطاراب بھی۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف تو قربانیوں سے مرقع خاندان کا فرد ہے۔ دونشان حیدر کی روایات کا امین۔ وہ گزشتہ روز سیاچین گئے، دنیا کا بلند ترین میدان جنگ۔ نواز شریف نے کہا تھا کہ ہماری فوج کو یہاں سے واپس آجانا چاہئے۔ ان کے سیاسی گر وضیاء الحق نے کہا تھا کہ سیاچین میں تو گھاس بھی نہیں اگتی مگر انیس سو چوراسی سے لے کر اب تک سیاچین کی سرزمین صرف سیاہ گلابوں سے ہی مزین نہیں، شہیدوں کے لہونے اسے گلنار بنادیا ہے۔ گیاری کے شہدا کی قربانی کی مثال تو پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔
جزل راحیل شریف نے ان شہدا کی یادگار پر پھول چڑھاتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر فتح و نصرت کی دعا مانگی ہے۔
قوم نے اس پر آمین کہی ہے۔ (یکم جولائی 2014ء)