خبرنامہ

فوجی آپریشن کے خلاف سازش…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

فوجی آپریشن کے خلاف سازش…اسد اللہ غالب

پچھلے تین دنوں سے ہر چینل پر اور ہر اخبار پرسانحہ ماڈل ٹاؤن حاوی ہے۔ لوگ بھی آپس میں ایک سانحہ پر بات کرتے ہیں۔ اس سانحے میں گیارہ افراد شہید ہوئے، کچھ شدیدزخمی ہیں، کافی لوگ گرفتار ہیں یا غائب کر دیئے گئے ہیں۔ کوئی اسے جلیانوالہ والا باغ سے تشبیہ دے رہا ہے۔ کوئی گولڈن ٹیمپل پر یلغار کویاد کر رہا ہے۔
میرا خیال ہے کہ یہ سانحہ اپنی تمام تر سنگینی کے باوجوداس لائق نہیں کہ ہم لوگ اس کی لکیر کو پیٹتے چلے جائیں، بہت سینہ کوبی ہوچکی، میں ڈاکٹر طاہر القادری سے براہ راست التماس کروں گا کہ وہ اس سانحہ کو بھول جائیں، وہ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ یہ سفاک اور خونیں کھیل صرف اس لیئے کھیلا گیا کہ قوم اپنی بہادر افواج کی قربانیوں کو بھول جائے، ہماری ساتویں کور شمالی وزیرستان میں آپریشن عضب کی آزمائش سے دوچار ہے، یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں کور کمانڈر کا اپنا لخت جگر بھی سنگلاخ چٹانوں، عمودی گھاٹیوں اور تہ در تہ سرنگوں کے اندر رزم نامے میں کود چکا ہے۔ قوم کی لاکھوں ماؤں کے لخت جگر اور بہنوں کے ویر بھی اپنا آج ہمارے کل پرقربان کرنے کے لیئے میدان جنگ میں داد شجاعت دے رہے ہیں۔ انہیں ہماری دعائیں چاہیں، ان کا حوصلہ بڑھانے کی ضرورت ہے، ان کی کمر تھپتھپانے کی ضرورت ہے۔
دیہات میں فصل کی کٹائی کے دوران کسی کسان کی ماں مر جائے تو اس کی لاش بھڑولے میں رکھ دیتے ہیں کہ کٹائی سے فارغ ہولیں تو اس کے کفن دفن کا بندوبست کر لیں گے۔ میں ڈاکٹر طاہر القادری سے ملتمس ہوں کہ وہ سردست، کچھ عرصے کے لیئے لاشوں کو بھول جائیں، پاک فوج کے جوان اور افسر آخری معرکے سے سرخرو ہو جائیں تو ان لاشوں کو پورے قومی اعزاز کے ساتھ دفن کیا جائے گا، انہیں اکیس توپوں کی سلامی پیش کی جائے گی۔
کون نہیں جانتا کہ ماڈل ٹاؤن کا آپریشن در اصل پاک فوج کے آپریشن عضب کے خلاف ایک سنگین سازش ہے جو اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو چکی، لوگ فوجی آپریشن کو بھول گئے اور ایک سڑک سے رکاوٹیں ہٹانے اور چند گاڑیوں کے شیشے توڑنے پر ساری توجہ مرکوز کر بیٹھے، یقین کیجئے، ماڈل ٹاؤن سازش کا مقصد بھی یہی تھا جو کہ پورا ہوگیا۔ ضروری نہیں کہ ماڈل ٹاؤن آپریشن میں لاہور پولیس نے حصہ لیا ہو، یہ بھی ضروری نہیں کہ اس آپریشن کا علم شہباز شریف یارانا ثناء اللہ یا حمزہ شہباز یا مریم صفدر نے دیا ہو، غالب امکان یہ ہے کہ طالبان کے جتھوں نے پولیس کی وردیاں پہن لی ہوں اور شاہد اللہ شاہد یا مولوی فضل اللہ اس آپریشن کی کمان کر رہے ہوں، ظاہر ہے انہوں نے ہی دھمکی دی تھی کہ وہ لاہور کو راکھ کردیں گے۔ اور انہی کو آپریشن عضب کارنج اور دکھ تھا، وہی اس کا انتقام لینے کی پخت و پز کر سکتے تھے۔ ہم خوامخواہ ایک دوسرے پر بہتان باندھ رہے ہیں اور معزز عدلیہ کا بھی وقت ضائع کر رہے ہیں کہ وہ اس سانحہ کی تحقیقات کرے۔
ویسے کھرے کا پیچھا کیا جائے تو کوئی اور کہانی سامنے آتی ہے۔ وزیراعظم کی ایک سال تک یہی کوشش نظر آئی کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن نہ ہو، انہوں نے پارلیمنٹ کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک جرگہ بلایا، ایک شہنشاہ کی طرح در بارسجایا اور قومی نورتنوں کے منہ سے کہلوایا کہ امن کے قیام کے لئے مذاکرات ہونے چاہئیں، مذاکرات کا یہ ڈرامہ بھی چلتا رہا اور دہشت گردوں کی کاروائیاں بھی جاری رہیں۔ مذاکرات کی منطق بگھارنے والے یہ کہتے سنائی دیئے کہ ہر جنگ کے بعد مذاکرات کرنے پڑتے ہیں تو کیوں نہ ہم پہلے ہی مذاکرات کرلیں،کسی نے ان سے نہ پوچھا کہ کیا پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم مذاکرات کے ذریعے ختم ہوئی، کیا جنگ بدر جنگ احد کے بعد مذاکرات کے نتیجے میں مکہ فتح ہوا تھا۔ بس کچھ لوگوں نے مذاکرات کے بہانے اپنا الو سیدھا کرنا تھا اور وہ وزارتیں، مشاورتیں لے اڑے۔ قوم نے دیکھا کہ وزیر اعظم قومی اسمبلی کے مائیک پر آئے، ان کا چہرہ اڑا ہوا تھا، ان کے ہاتھ میں چند کاغذ تھے جن کو پڑھنے کی کوشش میں تھتھلا رہے تھے۔ ان کی باڈی لینگویج سے ہرگز انداز نہیں ہو پارہاتھا کہ وہ کسی دشمن کے خلاف اعلان جنگ کر رہے ہیں، لوگوں نے چرچل کی تقریریں سنی ہیں، بش اور اوبامہ کی سنی ہیں، ایوب کی بھی سنی تھی مگر یہ تقریر نہیں تھی کچھ اور ہی تھا، وزیراعظم نے کاغذوں کو الٹ پلٹ کیا لگتا ہے کہ وزیر اعظم کا کوئی اسٹاف نہیں ہے جوانہیں کاغذ کسی فائل ہی میں لگا کر دے دیتا، یہی کچھ وز یر اعظم نے صدر اوبامہ کے سامنے کیا تھا، چٹیں دیکھتے گئے اور کچھ نکات بیان کرنے میں کامیاب ہو گئے، دنیا میں ایک سے ایک خوبصورت نوٹ پیڈ ملتے ہیں، وزیر اعظم کو کسی نے خرید کر نہیں دیا، خود وزیر اعظم کو مہنگی کاریں خریدنے کا شوق ہو گا اور اچھی اسٹیشنری کا ذوق نہیں ہوگا تو فوادحسن فواد کو کیا پڑی ہے کہ وہ وزیراعظم کے لیئے شایان شان اسٹیشنری خریدیں۔ بہرحال وزیر اعظم نے پہلے قومی اسمبلی کو بھگتایا اور پھر اسی تقریر کی برکت سے انہوں نے پہلی بار سینیٹ آف پاکستان میں قدم رنجہ فرمائے۔ دس منٹ انہوں نے وہاں لگائے ہوں گے، پھر لائیوکیمرے آف ہوگئے اور کچھ پتا نہیں کہ کسی ایوان میں اپنی تقریر پر بحث انہوں نے سنی یا نہ سنی، سن بھی لیتے تو انہوں نے سنی ان سنی کر دینا تھا۔ وزیر اعظم نے تقریر کی رسم پوری کی اور اگلے روز بیرونی دورے پر روانہ ہوگئے، ملک میں جنگ کا اعلان کر کے انہوں نے جیسے اپنے کان لپیٹ لیے ہوں۔ بیرونی دورے پر جنرل راحیل شریف کو بھی جانا تھالیکن حالات کی سنگینی کے پیش نظر انہوں نے اپنا سری لنکا کا دورہ منسوخ کر دیا مگر وزیراعظم حسب پروگرام دورے پر چلے گئے۔ یہ ملک پاکستان کے لیئے کسی اسٹریجٹک یا بزنس اہمیت کا حامل نہیں ہے ممکن ہے، سوویت روس کی افواج اپنی ہزیمت کے دوران یہاں اسکریپ کے ڈھیر چھوڑ گئی ہوں، ان دنوں اس اسکریپ کی پاکستان میں ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے، ہرشہر میں میٹرو بسیں اور میٹروٹرینیں، جن پر بسیں اور ٹرینیں کم چلتی ہیں لیکن ان کی تعمیر کے لیے سریے کی ضرورت زیادہ پڑتی ہے کسی نے سریے کے تودے دیکھنے ہوں تو لاہور کی چونگی امرسدھو یامینار پاکستان چوک میں آ کر دیکھے۔ براہ کرم پنڈی اور ملتان والے زحمت نہ کریں، یہ تماشہ ان کی دہلیز پر چند ہفتوں میں لگ جائے گا۔
اب میں قوم سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتا ہوں کہ وہ سیاسی مداریوں کے تماشے پر دھیان نہ دے، اس قیامت کا تصور کرے جس کا سامنا ہماری مسلح افواج کو ہے۔ وہ ایسے دشمن کو ملیا میٹ کرنے میں مصروف ہیں جو بے چہرہ ہے، جو نسل درنسل قبائلی علاقے میں پلتا رہا ہے۔ اب وہ ہمارے جسد قومی سے لہو کا آخری قطرہ پینے کی دھمکی دے رہا ہے، وہ چین کو بھی تاراج کرنا چاہتا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ ہماری گردن دبوچ لے، ہمیں اس کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو جانا چاہئے، اپنی بہادر افواج کے شانہ بشانہ، قدم بقدم!!لاہور پولیس کا مقابلہ بعد میں سہی!(20 جون 2014ء)