خبرنامہ

فوج میں کرپشن کے خلاف آپریشن۔۔اسداللہ غالب

میری خواہش تو تھی کہ فوج کو پانامہ کی بحث میں نہ گھسیٹا جائے، مگر ضروری نہیں کہ انسان کی ہر خواہش پوری ہو، میں نے وہ سوال نہیں سنا جو آئی ایس پی آر کے ڈی جی لیفٹننت جنرل عاصم سلیم باجوہ سے ایک اینکر پرسن نے کیا ۔ اگر یہی سوال براہ راست ہوتا کہ فوج کا پانامہ کے جھگڑے پر کیا موقف ہے اور وہ حکومت اور اپوزیشن میں سے کس کے ساتھ کھڑی ہے، تو اس سے معاملہ الجھ جاتا۔مگر کچھ بعید نہیں کسی روز جنرل باجوہ سے یہ سوال بھی کر دیا جائے۔
فوج کی باتوں کا ہر کوئی اپنے ذہن کے مطابق مطلب نکالتا ہے، آرمی چیف نے تو ایک اصولی بات کی بلکہ اس میں تشویش کا پہلو زیادہ تھا کہ کرپشن کے خاتمے کے بغیر ملکی سلامتی، آزادی، اقتدارا علی کا تحفظ ممکن نہیں اور نہ دہشت گردی پر مکمل طور پر قابو پایا جاسکتا ہے مگر کچھ لوگوں نے دبی زبان میں کہا کہ لو جی امپائر نے انگلی کھڑی کر دی۔مسئلہ بیان تک ہی محدود نہ رہا بلکہ چند روز بعد ایک خبر افشا ہوئی کہ فوج میں اعلی افسروں کو کرپشن کے الزامات میں گھر بھیجا گیا ہے یاکوئی اور سزائیں دی گئی ہیں۔اس خبر کے ساتھ وہ سلوک کیا گیاجو بات کا بتنگڑ بناتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ہر ٹی وی پر اینکر پھنکار رہے تھے کہ آرمی چیف نے جو بات کی تھی، اس پر عملی کام بھی کر دکھایا اور یہ در اصل حکمرانوں پر ایک دباؤ کے مترادف ہے کہ وہ بھی اپنے گھر کی خبر لیں۔میں نہیں جانتا کہ کیا واقعی فوج کا مطلب یہی تھا۔یہ تو غیب کی خبر لانے کے مترادف ہے۔
اس بحث کے آغا زمیں منفی تبصرے زیادہ سننے کو ملے، کسی نے کہا کہ اب پتہ چلا کہ فوج جیسے ادارے میں بھی کرپشن کا امکان موجود ہے اور وہ بھی اعلی تریں سطح پر، کسی نے کہا کہ اچھا ہے آرمی چیف مزید صفائی کریں اور ا س تاثر کو دور کریں کہ جرنیلوں کااحتساب نہیں ہو سکتا ، کسی کو یادآگیا کہ جنرل مشرف کو کس طرح احتساب سے بچایا گیا۔اور بالآخر ملک سے فرار کروا دیا گیا۔
یہ تو جنرل راحیل شریف کی اچھی شہرت ا ور ضرب عضب میں پاک فوج کی بے مثال قربانیوں کا صدقہ ہے کہ لوگوں کی زبانیں بے لگام نہیں ہوئیں۔ مگر اشاروں کنایوں میں طعنوں سے کوئی بھی باز نہیں آیا،حتی کہ وزیراعظم کی تقریروں میں بھی یہ تڑکا موجود تھا۔مجھے کچھ میڈیا بریفنگز میں شرکت کا موقع ملا ہے جہاں پانامہ لیکس پر حکومتی موقف پر بات چیت ہو رہی تھی مگر خود سرکاری حکام اور کچھ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفا دار ہیر پھیر کر فوجی ٹیک اوور کے مضمرات پر بات شروع کر دیتے،میں حیران ہوتا کہ کہاں پانامہ لیکس اور کہاں اپوزیشن کا شور، یہ درمیان میں فوج کے ٹیک اوور کا ذکر کیسے آ گیا ۔مگر دور کی کوڑی لانے والے کہاں باز آنے والے تھے۔
اصولی طور پر حکومت اور اپوزیشن کو فاضل چیف جسٹس کی رائے کا انتظار کرنا چاہئے ا ور اگر وہ تحقیقاتی کمیشن بنا دیتے ہیں تو پھر ساری توجہ اسی کی کاروائی پر مرکوز رکھنی چاہئے۔مگرنظر بظاہر ایسی توقع عبث ہے۔حکومت ا ور اپوزیشن سارے فیصلے سڑکوں پر کرنے کے موڈ میں ہیں، نہ عمران خان کے جلسوں کا کوئی اختتام نظر آتا ہے، وہ چھڑا چھڑانگ ہے، اور کرے بھی کیامگر وزیر اعظم بھی ا سی ڈگر پر چل نکلے، شکر ہے کہ شہباز شریف نے یہ رویہ نہیں اپنایا۔
میں اپنی یہ خواہش پھر دہراتا ہوں کہ اس سارے ڈھکوسلے میں فوج کو نہ رگیدا جائے۔ہم دہشت گردی کی جنگ قریب قریب جیت چکے ہیں ، اب خطرہ دہشت گردوں کے سرپرستوں سے ہے، زرداری صاحب ملک سے بھاگ گئے، مگر فوج کو صلواتیں سنانے کے بعد۔ نواز شریف کے خلاف پانامہ کا ڈھول بجانے میں فوج کا کوئی کردار نہیں، یہ تو کوئی صحافیوں کی نام نہاد عاکمی تنظیم ہے جس نے سارا کھوج لگایا ہے، پاک فوج کا اس سے کیا تعلق، سو فوج کو اس جھمیلے سے باہر رکھا جائے۔ رہا یہ مسئلہ کہ فو ج کے اندر بھی احتساب ہونا چاہئے تو میں اس اشو کا ایکسپرٹ نہیں ہوں لیکن اتنا جانتا ہوں کہ فوج کے اندراحتساب کا ڈندا سوٹا ہمیشہ چلتا رہتاہے اور یہ نا ختم ہونے والا عمل ہے، فوج صرف ا سکی تشہیر نہیں کرتی اور زیادہ تر احتساب کارکردگی کی بنیاد پرہوتا ہے، کرپشن کا تو کوئی اکا دکا ہی کیس سامنے آتا ہے، حالیہ کیس میں افسران کی تعداد تو زیادہ ہے مگر سبھی کے خلاف ایک ہی کیس میں کاروئی ہوئی ہے، ایسانہیں کہ ہر کسی نے الگ الگ جرم کا ارتکاب کیا ہو۔ باقی رہی کارکردگی پر کاروائی تو ہزاروں میجروں اور فل کرنیلوں یا بریگیڈیئروں یا میجر جرنیلوں سے پوچھو کہ ان پر کیا گزری اور انکو گھر کی راہ کیوں دکھائی گئی۔فوج میں کارکردگی کی کمزوری کو ہر گز ہر گزمعاف نہیں کیا جاتا۔ پٹھو لگنا تو روز کی بات ہے مگر منصب سے تنزلی، ترقی سے انکار اور معطلی کے واقعات کو جمع کیا جائے تو وکی پیڈیا کے صفحات بھی کالے ہو جائیں اور کہانی ختم نہ ہونے پائے۔ کیا سول اداروں میں کارکرأگی کی بنیاد پر بھی کوئی کاروائی ہوتی ہے، کبھی نہیں، ابھی پنجاب پولیس کو چھوٹو گینگ کے خلاف ہزیمت اٹھانا پڑی تو کیا آئی جی پولیس سے لے کر نیچے تک کسی کو سزا ہوئی، تھر میں روز بچے مرتے ہیں، کیا کسی محکمے میں اکھاڑ پچھاڑ کی گئی، لیہ میں زہریلی مٹھائی کھانے سے اتنے لوگ مر گئے جتنے گلشن پارک دھماکے میں نہیں مرے مگر لیہ سے لے کر ارد گرد کے کسی ہسپتال کے کسی ڈاکٹر کو معطل کیا گیا کہ وہاں مریضوں کا علاج نہیں کیا گیااور لوگ بے چارے تڑپ تڑپ کر مر گئے۔ ایک ایک گھر سے درجنوں جنازے اٹھے، خیبر پی کے میں بارشوں سے لوگ جاں بحق ہو گئے ، کیا اس صوبے میں فرشتوں کی حکومت نے اپنی افسر شاہی کے کان کھینچے کہ غریبوں کی آبادیاں برساتی ا ور پہاڑی نالوں کے اندر کیوں تعمیر کرنے دی گئیں۔ عمران خان پھنکارتا پھرتا ہے مگر اس کو اپنی پارٹی کے زیر کمان صوبے کی کوئی فکر نہیں۔ وہ تو اپنے جلسوں میں خواتین کی آبرو پر ہاتھ ڈالنے والوں کے خلاف کوئی کاروائی نہ کر سکا ۔ جو شخص خود مجمع سے دلہن تلاش کرتا ہو ، وہ باقی شرکاء کے کرتوتوں کو کیا روک پائے گا اور کیوں روکے گا۔اب مہینہ بھر پانامہ پانامہ کھیلتے گز ر چکا ہے، اس دوران فوج نے اپنے اعلی افسروں کے خلاف کاروائی کر دکھائی مگر کیا کسی سرکاری افسر یاکسی کلرک کے خلاف بھی کوئی کاروائی ہوئی، کیا یکایک ساری افسر شاہی نیکو کار بن گئی۔کیا کسی عدالت کا منشی رشوت نہیں لیتا، کیاکسی تھانے میں بغیر رشوت کے پرچے درج ہو رہے ہیں، کیا ہر اعلی افسر انتہائی جانفشانی سے کام کر رہا ہے، اگر ایساہے تو یہ ایک معجزہ ہے مگر پانامہ کے کھیل میں صرف وزیر اعظم کو گھسیٹنے سے احتساب کا شوق کیسے پورا ہو سکتا ہے، کیا اس شور میں کرپٹ افسر شاہی کو کھلی چھٹی نہیں دے دی گئی اور کیا فوج کو رگیدنے سے باقی سارے اداروں کے گھناؤنے جرائم معاف!!